میں نے اکبراورشاہجہاں کے مجسمے بنواۓ:کے کے محمد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-02-2021
کے کے محمد
کے کے محمد

 

۔۔پردے کے پیچھے رہ کر بھی ماہرآثارقدیمہ کے کے محمد نے کئے بہت کام ۔

۔کھدائی کرنا ہے ایک آرکیالوجسٹ کا کام ۔۔

سماج کے لئے بہت کچھ کرسکتاہے ایک افسر

انٹرویو۔ میں زمین سے جڑ ا ہوا ہوں اور زمین سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں بنیادی طور پر آرکیالوجسٹ ہوں، اس کا کام ہی کھدائی کرناہے۔کھدائی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس زمین سے جڑے رہنا چاہئے۔ جو زمین سے جڑے رہتے ہیں، وہ اکثر غریب لوگ ہوتے ہیں۔ان سے میں ہمیشہ تعلقات رکھتا تھا اور ذرا ہمدردی بھی۔ یہ کہنا ہے ہمارے ملک کے جانے مانےآثارقدیمہ کے ماہر کے کے محمد کا۔ وہ آواز دی وائس ہندی کے ایڈیٹرملک اصغرہاشمی سے خاص بات چیت کر رہے تھے۔پیش ہیں اس کے اہم نکات:

سوال:آپ کے نرم رویے کا کیا راز ہے؟ اس درجے پر آنے کے بعد نہ جانے کہاں چلے جاتے ہیں؟

جواب:ہاشمی صاحب! میرا نرم رویہ اس لئے ہے کیونکہ میں زمین سے جڑا ہوا ہوں اور زمین سے تعلق رکھتا ہوں۔میں بنیادی طور پر آرکیالوجسٹ ہوں، اس کا کام ہی کھدائی کرنا ہے۔ کھدائی کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو زمین سے جڑے رہنا چاہئے، جو زمین سے جڑے رہتے ہیں وہ اکثر غریب لوگ ہوتے ہیں۔ ان سے میں ہمشیہ تعلقات رکھتا تھا اور ذرا ہمدردی بھی ۔ صرف ہمدردی ہی نہیں۔ میں ان کے لئے کچھ کام بھی کرتا ہوں۔میرے کنبے کے بڑے لوگ بھی ایساہی کرتے تھے۔ میں نے بھی وہی برقرار رکھا ہے، جب بھی انھیں پرماننٹ کرنے کا موقع ملتا ہے میں گورنمنٹ آفس میں پرماننٹ کردیتا ہوں۔ میں نے گوا سے اسے شروع کیا تھا۔ وہاں میں نے کافی لوگوں کو مستقل کرایا ہے۔ اس کے بعد آگرہ، پٹنہ اور مدھیہ پردیش میں بھی کئی جگہ ان لوگوں کی پرماننٹ جاب کروائی ہے۔ میں غریب لوگوں سے بہت اچھے تعلقات رکھتا ہوں۔ اس کی وجہ سے یہ لوگ آگے بڑھ کر میرے بہت سے کام بھی کر دیتے ہیں۔

سوال: آپ نے کہا کہ آپ ایسے خاندان سے آتے ہیں، جو زمین سے جڑا ہے۔ ہم جاننا چاہیں گے آپ کا پس منظر کیا ہے؟

جواب:میراخاندان ایک اوسط خاندان ہے،میرے والد کی زندگی کافی مشقت کے ساتھ گزری، حالانکہ جب ان کی مالی حالت اچھی ہوگئی تو وہ لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ میرا کنبہ ربیع الاول کے مہینے میں سو بچوں کوکھانا کھلاتا تھا۔میں بتاوں انیس سو چھپن یا ساٹھ کی دہائی میں ایک مہینہ پورا شہریتیم بچوں کو کھانا کھلاتاتھا۔ میں بھی دوسرے طریقے سے بچوں کی مدد کرتا تھا۔ جب میں دلی میں تھا۔ میں پانچ اسکول چلایا کرتے تھے۔ تنبو والا اسکول، جو سلم والا اسکول ہوتا تھا۔ ان کا پورا کھانا اور یونیفارم مفت میں دیاجاتاتھا۔ اس کے لئے مجھے سی این این آئی بی این ایک بہت بڑاایوارڈ بھی دیاگیا۔ جو امیتابھ بچن نے مجھے دیا۔جس کے بعد وہ مشہور ہوگیا۔ انھیں بچوں کے پاس۔جب امریکی صدر باراک اوبامہ بھی آئے۔

سوال: آپ کی پہل پرآرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے کام کیاتھا یا آپ نے؟

جواب:یہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا کام نہیں ہے میرا ذاتی کام ہے۔ کچھ لوگوں نے مخالفت بھی کی تھی۔ جہاں بھی جاتا ہوں، وہاں کچھ کرتا ہوں۔ ایک افسر بہت کچھ کرسکتا ہے سماج کے لئے۔ میں ہمیشہ کرتا تھا۔ یہ میرے خون میں ہے۔ اس لئے میں اس سے علاحدہ نہیں کرسکتا۔

سوال:سر!آپ نے علی گڑھ سے ماسٹر ڈگری کی، پھر کریئرکی شروعات بھی علی گڑھ سے کی۔ پانچ برسوں تک اے ایم یو کا سفرکیسا رہا؟ اسے کامیابیوں کے طور پر کیسے دیکھیں گے؟

جواب: ایم اے علی گڑھ سے کیا، اس کے بعد ریسرچ کرنا چاہتاتھا کیونکہ میں سکنڈ ٹاپر بھی تھا۔ مجھے پی ایچ ڈی میں اڈمیشن ملناچاہئے تھا،لیکن مجھے نہیں دیا۔ حالانکہ جن کے مجھ سے بارہ مارکس کم تھے،ان کو دیا۔ میرے ساتھ یہ زیادتی ہوئی تو میں نے علی گڑھ چھوڑ دیا۔ پھرمیری پہلی ترجیح آرکیالوجی تھی اور مجھے اڈمیشن مل گیا۔ اس وقت میری پہلی تقرری بھی علی گڑھ میں ہی ہوئی۔ اسسٹنٹ آرکیالوجی ہوا، ایک سال کے اندرپھر میں نے بہت زبردست دوڈسکوری کی۔ ایک تھی اکبرکے عبادت خانے کی ڈسکوری۔ عبادت خانہ وہ جگہ ہے جسے آپ سیکولر انڈیا کی نرسری کہہ سکتے ہیں۔ وہ سبھی مذاہب کے لوگوں کو بلاکر بحث کرواتاتھا۔ اس کے بعد اکبر نے دین الہی چلایا۔ وہاں پر گرجاگھر بھی بنوایاتھا۔ وہ گرجا گھر بھی میں نے تحقیق کرکے ڈھونڈنکالا۔ اور یہ وہ جگہ ہے جس کو ثابت بھی کیا۔ اس زمانے میں فوٹوگرافی تو نہیں تھی لیکن اس زمانے میں جو بھی بڑا واقعہ رہا،اس کی پینٹنگ بنائی جاتی تھی۔ پینٹنگ مغربی ممالک میں ہیں۔ شائع شدہ پینٹنگس ہیں۔ اس کو میں نے کھدائی کرکے زمین کے اندر سے نکالاہے۔ اس کا مقابلہ کرکے دیکھا بالکل فٹ بیٹھ گیا۔ یہ میرا ایک بہت بڑا رول تھا،اس زمانے میں۔

سوال:کھدائی اور تحفظ آپ کا میدان ہے۔ہمارے ناظریں کوبتائیے کہ کھدائی کیا چیزہے اور آپ کیا کھودتے ہیں؟

جواب:یہ بہت اچھا،دلچسپی سے بھرا موضوع ہے۔ کیونکہ آپ جتنا اس کے اندر جائیں گے،آپ کو اتناہی مزہ آئے گا۔پہلے ہم لوگوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ چھٹی صدی قبل مسیح تک کی ہندوستان کی تاریخ کیسی رہی ہوگی۔اس کے پیچھے کیاتھا، یہ کسی کو پتہ نہیں تھا۔ جیسے ہڑپا،موہن جوداڑوکے بارے میں کسی کونہیں پتہ تھا۔ترانوے سے پہلے اس زمانے کے جو تاریخ داں تھے ان کو نہیں پتہ تھا کی اس میں صرف چھٹی صدی قبل مسیح کے پہلے جو بدھا کے پہلے کیاتھا؟ کیا پتہ نہیں تھا؟ جو مگدھ سلطنت کی توسیع کے لئے بودھ گیا ہے،یہ سب کچھ چیزیں اس سے پہلے کیاتھیں کسی کو پتہ نہیں تھالیکن ہڑپااور موہن جوداڑوکو ڈسکورکیا،اس میں سے کچھ چیزیں ایسی ملیں جن سے وہاں کے بارے میں پتہ چلا۔ وہ چیزیں جناسومیرین جو میسوپوٹامین کلچرتھا، اس سے متعلق تھا۔ وہاں ڈیٹنگ کیا ہوا تھا۔ ڈیٹنگ اس لئے کیا تھا، ان کاایک ٹرائی لنگول، انسکرپشن ملاتھا۔ اسی وجہ سے جونا ان کو پتہ چلاکہ چھیبس سو قبل مسیح کا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے اور وہی چیز یہاں پر بھی ملی تو لوگوں کو پتہ چلا کہ ہماراہڑپہ اور موہن جوداڑوجسے چھیبس سو قبل مسیح سمجھ رہے تھے، اس سے دوہزار سال پرانی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ جو آپ کہہ سکتے ہیں یوریکا موہن شاپ انڈین ہسٹری جو آرکیالوجسٹ نے ڈھونڈکرنکالا تھا۔ اسی طریقے سے ہستیناپورکھدائی جو بی پی لال صاحب نے کی تھی۔ زمین کے اندر کھود کر باہر نکالینگے اور پھر اس کی وضاحت کریں گے۔ فتح پور سیکری کی کھدائی اسی طریقے سے ہوئی۔ کھود کر نکالاپھر اس کو پینٹنگ سے کمپئرکیا۔ کچھ ان کے زمانے کی کتابیں تھیں جو مصنفین نے لکھی تھیں جو ان سے جوڑا گیا۔ اسی طرح سے ہم ایک نئی تاریخ بناتے ہیں۔ وہ غلط نہیں ہوسکتی۔ تاریخ میں آپ وضاحت دے سکتے ہیں لیکن آرکیالوجی کھودکر نکالےگی۔ اس میں آپ کو بہت زیادہ گنجائش نہیں ہوگی۔ تو یہ ہے کہ آثار قدیمہ کی کھدائی، پھر ہے اس کی حفاظت۔یہ الگ چیز ہے۔

سوال:ہمارے ناظرین کو بتائیے جو آپ نے کھود کر نکالا،اس کی حفاظت کیسے کریں گے؟اور اگر اس کی حفاظت کی ضرورت ہے تو وہ کیوں ہے؟

جواب: ضرورت ہے اور بہت زیادہ ضرورت ہے۔بہت سی جگہ آپ کو ٹوٹی پھوٹی چیزیں ملیں گی۔ میں نے فتح پور سیکری میں دس سال چارج سنبھالا۔ کھدائی میں جو زمین کے اندر سے چیزیں ملتی ہیں،اس کے بعد پھر آپ کو حفاظت کرنا چاہئے اور حفاظت میں ایک بات یہ ہے کہ اس کو واٹر ٹاپ نہیں کرنا پڑے گا۔کیونکہ ڈیٹ از دی سپوزٹ ودی رین میں اکسپوز ہوگا۔ اس کو بچانے کے لئے آپ کو کوشش کرنی پڑے گی تو بہت ساری چیزیں جو ہم لوگوں نے کھود کر نکالی ہیں۔ وہ اس زمانے کے جوامرا تھے،اکبر کے جو امراتھے ، ان لوگوں کے مکانات بھی ہم لوگوں نے ڈھونڈ نکالے۔ اسی طرح سے اصطبل ڈھونڈنکالے ہیں، جہاں گھوڑوں کو رکھتے تھے۔ زمیں دوز ہوچکے تھے۔ایک حد تک حفاظت اور دیکھ بھال یہ دونوں کام آپ کو کرنے پڑیں گے۔ جیسے بٹیشور،چمبل کے اندراکزامبپل  تھے۔ بٹیشور آگرہ کی چمبل گھاٹی میں ہے۔ یہاں کے جو ڈاکو تھے،ان میں نربھے سنگھ گوجرنام کا بہت بڑا ڈاکوتھا۔ اس زمانے میں اس سے مل کر پوری مدد لے کرلکھے اور ایک مندر کو جو چمبل میں تھا کھڑاکیا۔ فتح پور سیکری اسی طرح سے تاج محل میں جب تھا،اس کے تحفظ کا کام کیا۔اسی طریقے سے آپ کو تحفظ کا کام کرتے رہنا پڑے گا۔

سوال: تاج محل میں آپ نے بہت کام کیاہے، اس کا تجربہ بتایئے۔چمبل کا ابھی آپ نے ذکر کیا اسی طرح عبادت گاہوں کے سلسلے میں آپ نے کیا کیا ہے؟

جواب: آرکیالوجسٹ کے کام بہت سارے ہوتے ہیں،ایک کھدائی ہوگئی، اس کو میں نے بتادیا ہے۔ دوسرا ہے حفاظت کا کام۔ دوہزار اٹھارہ میں جب میں دلی میں تھا توپینتالیس اہم تاریخی عمارتیں تھیں جن میں میں تھا، اس کے بعد دوہزار دس میں ہمارے دولت مشترکہ کھیل ہونے تھے،گیم ہونے سے پہلے ساری جگہیں ٹھیک ٹھاک کرنی تھیں، اس وقت بہت سارے سیاح باہر سے آنے تھے تو اس وقت کئی چیزوں کو بہت دلکش بنایاگیاتھا۔ ۱۔اچھے ٹائلیٹ بنانا۔ یہ سب کام میں نےوقت سے پہلے ہی کرلئے تھےلیکن اس کے ساتھ تھا آرکیالوجسٹ۔ چاہیں تو اور بھی کچھ کر سکتے ہیں۔ اس میں سے میں نے یہ کا م کیا کہ بہت ساری زمین آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی، لوگوں نے قبضہ کر رکھی تھی،تو آپ تعجب کریں گے۔ میں نے ان چار برسوں میں چالیس ایکٹر زمین کو لوگوں سے چھوڑواکر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی پراپرٹی بنوادیا۔ ہمایوں ٹومب کے سامنے ہی بارہ ایکڑ زمیں تھی،سری فورٹ جس کے دوحصے ہیں۔ ایک محمودی مسجد ہے دوسرا پنچ شیل۔ اس میں پورا انکروچمنٹ ختم کیا اور اس کے بعد گارڈن بنایا۔ اسی طریقے سے قلعہ رائے پتھوڑا سے قبضے ہٹوائے۔ اس طریقے سے قریب چالیس ایکڑ زمین، آپ دیکھ لیجئے، دلی میں اس کی قیمت کتنی ہوگی؟ میرے لئے کچھ چیزیں ایسی تھیں وہ دولت مشترکہ کھیل کا ٹائم تھا، ایسے وقت میں سارے محکمے ایک ہوجاتے ہیں۔ لال قلعے کے سامنے ایم سی ڈی کی جگہ جہاں ٹکٹ والا کھڑا ہوتا تھاتین ایکڑ زمین وہاں ایم سی ڈی کی پراپرٹی تھی، ہٹواکر بیریکیڈنگ کردی۔ اس کے بعد ایم سی ڈی نے کلیم کرتے ہوئے اسے توڑنے کے لئے کہا۔ ابھی ہمارے پاس ہے۔ بہت کام کیا ہے پھر ہم نے وہاں ایک میوزیم بنایا۔ ریپلیکا میوزیم۔ یہ ہے کہ باہر کے آدمی آئینگے، وہ پہلے قطب مینار جائیںگے،پھر ہمایوں ٹومب دیکھنے جائیں گے۔لال قلعہ وغیرہ سب دیکھیں گے۔ یہ سب سلطنت عمارتیں ہیں یا مغل عمارتیں ہیں۔ اس کے بعد آگرہ جائیے۔ تاج محل ،آگرہ فورٹ، فتح پور سیکری جو مغل عمارتیں ہیں، جے پور جائیے، آپ کہیں گے راجپوت عمارتیں ہیں۔لیکن واقعی وہ مغل نمونوں کے تھے۔ لیکن جو ہمارے کلچر،تہذیب کے، ہندوبودھسٹ کلچر ہے، اس کے بہت ہی انمول، بہت ہی خوبصورت پتھر کے نمونے ہیں۔اجنتا، ایلورا، مہابلی پورم سمیت کئی تاریخی عمارتوں کے ریپلیکا بناکر وہ سری فورٹ آدیٹوریم کے پیچھے ایک جگہ ہے، وہاں میوزیم بنایا۔ وہاں ڈی ڈی اے کا کلب تھا۔ وہاں اجیت کور، ارپنا کوردوبہت بڑے سوشل اکٹیویسٹ، پنٹر بھی ہیں،ان لوگوں نے اکیس کیس فائل کرکے یہ جگہ ہم کو ملی۔ جس کو ہم نے ریپلیکا میوزیم بنادیا جس میں آپ پورا انڈیا دیکھ سکتے ہیں۔اس کے بارے میں گروپ ہے، ڈاکٹر سری نواس رائو کرکے ہیں،وہ پریس بھی کرتے ہیں،یہ سب جہاں جہاں چاہیں اس طرح کے میوزیم بنائینگے۔ اس میوزیم میں اکبر بھی ہے، شاہجہاں بھی ہے کیونکہ اکبر اور شاہجہاں کے مجسمے آپ کو کہیں نہیں ملیںگے، وہ بھی بنوائے تھے۔

سوال: اس سے پہلے آپ نے فتح پور سیکری کا ذکر کیاتھا اور پینٹنگ کے ذریعےالگ طرح سے دکھایاتھا۔کیا آپ ہمارے ناظرین کو بتائیں گے پینٹنگ کیاتھی؟

جواب: یہ پینٹینگ ایسی پینٹینگ تھی،جسے اکبر نے عبادت خانے میں جو مباحثہ ہواکرتا تھا،مختلف علاقے کے لوگوں سے اور ان میں دو خاص تھے ایک فادر روڈولف پادری، یہ اٹلی سے آئے تھے،دوسرے فادر منظرجو اسپین سے آئے تھے۔ فادرروڈولف نام بھی وہاں دیا ہے۔اس پینٹنگ میں فارسی کی عبارت بھی ہے۔ جب میں وہاں گیا تھا،پورا ایک قلعہ تھا۔ قلعے کے بارے میں اکبر نامے میں بھی بتایا گیا ہے اور تاریخ میں بھی۔ جو بدایونی نے ذکرکیا ہے بہت سارے بحث ومباحثے کی بنیاد پر ہم لوگوں نےاس کی شناخت کی تھی۔ مجھ سے پہلے رضوی صاحب تھے، انھوں نے بھی شناخت کی تھی۔ ان سے پہلے شہید احمد مراروی کرکے بھی تھے جنھوں نے انیس سو چھ میں اس کی نشاندہی کی تھی۔ لیکن ان کے پاس اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں تھا۔ میں نے بھی اسی کے بارے میں نشاندہی کی لیکن ان کو ثبوت چاہئے تھا تو اس کے لئے میں نے پینٹنگ نکالی۔یہ پینٹنگ بھی اطہر عباس رضوی صاحب نے ضرور دیکھی ہوگی۔ یہ مائونٹ بھی اور قلعہ بھی دیکھا ہے۔ وہ آرکیالوجسٹ نہیں تھے تو کھدائی نہیں کرپائے۔ کوئی رابطہ بھی نہیں مل پایا جو ملنا چاہئے۔ میں نے مولانا آزاد لائبریری میں ایک پینٹنگ دیکھی جو بالکل قلعے کے جیسی لگی۔ اس میں صرف تین محرابیں دکھ رہی ہیں۔ پینٹنگ میں ایک پویلین تھاجو گرا ہواتھا۔ وہ اسی طریقے سے بیٹھا ہواہے۔ ایک دیوار تھی۔ پینٹنگ میں وہ کھڑی ہوئی تھی۔ اسی سے مجھے لگا کہ یہ بالکل صحیح ہے۔ پھر میں نے دوسال لگائے۔ اس کی دھیرے دھیرے کھدائی کرنی پڑتی ہے۔ کبھی سرجیکل نائف سے تو کبھی برش سے کھدائی کرنی پڑتی ہے۔ ایسا کرکے میں نے اسے بالکل پینٹنگ جیسا نکالا۔ اس طریقے کا ایک اسٹرکچر مجھ کو پورا مل گیا۔ اب سرجنانے اس کو اپروکیا۔ اس زمانے میں ٹائمس آف انڈیا میں یہ بہت زور شور سے چھپاتھا تو علی گڑھ کے کچھ بڑے تاریخ داں جن سے پہلے میرا تعلق بگڑا ہواتھا۔ ان لوگوں نے بھرپور کوشش کی اس کو غلط ثابت کرنے کی، لیکن ثبوت اتنے تھے کہ وہ کچھ نہیں کرپائے۔