سید تالیف حیدر
ہندوستان کے مسلم معاشرے میں قرآن اور حدیث کے بعد اگر کوئی کتاب گذشتہ ایک صدی میں سب سے زیادہ مقبول رہی ہے تو اس کا نام بہشتی زیور ہے۔یہ وہ کتاب ہے جو مسلمانوں کے زیادہ تر گھروں میں طاق پہ یا الماریوں کے اوپر رکھی ہوئی نظر آجائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے ایک زمانے تک عورتوں کے جہیز میں شامل کیا جاتا تھا۔ ایک باپ اپنی بیٹی کو شادی کے وقت کچھ دے نہ دے بہشتی زیور ضرور دیتا تھا۔ اسی لیے اسے قرآن کے بعد ہندوستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کہا جاتا ہے۔
یہ کتاب ہندوستان کے مشہور عالم اشرف علی تھانوی کی لکھی ہوئی ہے۔ جس میں عورتوں کے مسائل اور عورتوں کی زندگی میں جس حد تک مرد کی ذات دخیل ہے اس حد تک مردوں کے مسائل بھی دیئے گئے ہیں۔ اس کتاب پہ گذشتہ پچاس برس میں بہت تنقید بھی کی گئی اور اسے بہت سے لوگوں نے اہم ترین کتاب ثابت کرنے میں اپنی تمام صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ ان سب کی وجوہات اس کتاب میں موجود ایسی بے شمار باتیں ہیں جن پہ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادمعترض ہے ۔
ایک عام تنقید کے مطابق اس کتاب کو مسلمانوں کے ایک خاص طبقے دیوبندیوں کے لیے لکھا گیا تھا۔ لیکن یہ حیرت کی بات ہے کے مسلمانوں کے ہر طبقے میں اس کی ایک جیسی مقبولیت ہے۔ حالاں کے بریلوی، اہل حدیث، شیعہ اور سلفیوں کے الگ الگ اعتراضات اس کتاب پہ ہیں ۔ مگر غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو یہ کتاب ہندوستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں مسلمانوں کے معاشی، معارشرتی، ملی، مسلکی، تہذیبی، خانگی ، ذاتی، معالجاتی، طبی، جنسی، اعتقادی اور لسانی ہر طرح کے مسائل سے بحث کی گئی ہے۔
اس نوعیت کی کتاب مسلمانوں کے یہاں ہندوستان میں اس سے پہلے کبھی نہیں لکھی گئی اور اگر لکھی بھی گئی تو وہ اتنی مقبول نہیں ہوئی۔ خاص کر جنسی مسائل کے متعلق۔ جس میں مرد اور عورت دونوں کے جنسی معاملات کو کھلے انداز میں بیان کیا گیا ہو۔ ایک عام انسان وہ بھی ایک مولوی جب ایک ساتھ اتنے کردار ادا کرے جس میں اسے حکیم سے لے کر ادیب تک، سائیکولوجسٹ، ڈرمٹولوجست، مائیتھولاجسٹ ، ماہر جنسیات اور ماہر قانون سب بننا پڑے تو غلطیوں کا امکان تو اس کی تحریر میں پیدا ہو ہی جائے گا۔
ایسی غلطیاں جو اس کتاب میں ہیں انہیں ہمیں آج کی معاشرت کے تناظر میں کم اس زمانے کی معاشرت کے تناظر میں زیادہ دیکھنا چاہیے جب ہندوستان نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور مسلم گھروں کی خواتین نہایت غیر تعلیم یافتہ ہوا کرتی تھیں۔ آج کے تناظر میں دیکھو تو یقیناً یہ کتاب غلطیوں کا پلندہ ہے۔ مثلاً مولانا کے بہت سے بیانات اس کتاب میں ایسے ہیں جو خاصے متنازع قسم کے ہیں ۔مثال کے طور پر:
ذکوۃ میں گائے ، بھینس کے نصاب کا مسئلہ بہت عجیب ہے۔ یعنی دو سال ، ایک سال ، تیس سال کا جانور ذکوۃ کے طور پر۔یہ سب حماقت ہے ۔ جس کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں ۔اونٹ اور بکری کے نصاب میں بھی ایسی ہی حماقتیں ہیں ۔یا پھرکسی عورت کا سر منڈانا ، بال چھوٹے کرانا حرام ہے ، حدیث میں لعنت آئی ہے ۔ناخن کو دانت سے کاٹو تو برص کی بیماری ہوتی ہے۔انگریزی دوائیں ممنوع ہیں کیوں کہ ان میں نشہ آور چیز ملائی جاتی ہیں۔
ضعف باہ کی بیماری ہٹانے کے لیے کوشش کریں کہ شرم کو کم کیا جائے ۔دین میں نئی بات پیدا کرنا بدعت ہے اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔کافروں کی رسمیں پسند کرنا بہت بڑاگناہ ہے۔راگ باجا سننا بہت سخت گناہ ہے۔غیر محرم کے پاس تنہائی میں بیٹھناسخت گناہ ہے۔عبادت کرنے سے بارش ہوتی ہے۔زور سے ہنسنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔عورت کے وضو اور غسل کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو اور غسل نہ کرنا چاہیے۔پائخانہ یا پیشاب کرتے وقت چاند ،سورج کی طرح منہ یا پیٹھ کرنامکروہ ہے۔ننگے ہوکر پیشاب یا پائخانہ کرنے سے بچنا چاہیے اورشوہر پردیس میں برسوں سے تھا اور بیوی کو بچہ ہو گیا تو قانون شرع سے وہ حرامی نہیں اسی شوہر کا ہے وغیرہ وغیرہ
یہ یا اسی طرح کی بہت سی باتیں - مولانا نے جہاں تک مذہبی اعتقاد کی باتیں ہیں-اس کے اپنے عقیدے کے اعتبار سے اصول بتائے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کے بہت سے عقیدوں کو ماننے والے گناہ گار ٹھہرتے ہیں ۔ رہی دیگر معاشرتی اور تہذیبی باتیں تو وہ سرے سے غیر تحقیقی ہیں۔ ایک عالم دین کا خیال اس کتاب کے متعلق یہ ہے کہ اس میں کوئی بھی بات قرآن اور حدیث کی روشنی میں مثالوں کے ساتھ بیان نہیں کی گئی ہے ۔ اس لیے اسے ایک غیر مستند کتاب ماننا چاہیے۔
وہیں ایک صاحب کا اعتراض یہ ہے کتاب میں آداب زندگی سکھانے کے لیے مذہبی اصولوں کو گڑھا گیا ہے۔ دیوبندیوں کا ایک بڑا طبقہ اس کتاب کے اعتراضات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے مگر بات کچھ واضح نہیں ہو پاتی مثلاً اوپر جو اولاد کے حرامی ہونے کا مسئلہ ہے اس کے جواب میں ایک دیوبندی عالم کا یہ کہا کہ مولانا نے صحیح لکھا ہے اس لیے کہ زوجیت بچہ پیدا ہنے کے بعد بھی باقی ہے، ممکن ہے کہ کرامت یا جن کی تسخیر سے دونوں کا ملن ہوگیا ہو۔ ایسی دلیلیں قابل قبول نہیں ہوتی ہیں ۔
پھر عورتوں کے سلسلے میں مولانا نے جو مسائل بیان کیے ہیں وہ اتنے دقیانوسی ہیں کہ ان کا اطلاق آج کی زندگی پہ ممکن ہی نہیں ۔ حیض کے مسائل، پاکی کے مسائل ، عورتوں کے کھیل کود کے مسائل ۔ ان سب معاملات میں اشرف علی تھانوی کی باتیں سو برس پہلے تو شائد مانی جا سکتی تھیں مگر آج کی زندگی میں ان کی اہمیت بہت کم ہو گئی ہے ۔ خاص کر اس زمانے میں جب کہ مسلم عورتیں تعلیم کے نئے معیار کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی ہیں ۔ ایسے میں ہمیں بہشتی زیور کی ضرورت بعض بہت بنیادی مذہبی مسائل کے علاوہ زندگی کے کسی شعبے میں محسوس نہیں ہوتی ۔