ہمدرد : ایک خاندان۔ دو بھائی ۔ تین ملک ۔ ایک روح

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 15-03-2022
ہمدرد :ایک خاندان۔دو بھائی ۔ تین ملک ۔ ایک روح
ہمدرد :ایک خاندان۔دو بھائی ۔ تین ملک ۔ ایک روح

 




منصور الدین فریدی،نئی دہلی

ہمدرد یعنی طب یونانی ۔ طب یونانی یعنی ہمدرد ۔۔۔۔ یہ تاثر خوابی نہیں بلکہ حقیقت ہے جبکہ اس کے پیچھے جو دماغ تھا اسے دنیا ’’بڑے حکیم صاحب‘‘ یعنی کہ حکیم عبد الحمید کے نام سے جانتی ہے ۔ایک نام جس نے طب یونانی کو نئی بلندی دی۔ بلکہ وہ طب یونانی کے ساتھ ہر اس شعبے کے لیے ’’ہمدرد‘‘ بن گئے جس میں قوم و ملک کو کسی سہارے یا مسیحا کی تلاش تھی۔

یہی وجہ ہے کہ آج میڈیسن ، دوا سازی ، طب یونانی کی بقاء اور ترقیء تعلیم ، تاریخ اور تحقیق کے میدان میں ان کی حصہ داری کسی مینار کی مانند ہے۔ جامعہ ہمدرد یونیورسٹی ہو یا مجیدیہ اسپتال یا پھرحضرت نظام الدین میں غالب کے مزار کے ساتھ غالب اکیڈمی،یہ سب حکیم عبدالحمید مرحوم کی دین ہیں۔طب سے تعلیم ،ریسرچ سے روزگارتک ہر میدان میں ’ہمدرد‘ کا نام زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا ’ہمدرد‘ کو ایک ادارے سے زیادہ ایک تحریک کی شکل میں دیکھ رہی ہے بڑے حکیم صاحب کو ایک معمار کے طور پر۔

دراصل حکیم عبدالحمید کی سوچ کسی دائرے میں محدود نہیں تھی۔ وہ کم گو تھے ،تقریر پر یقین نہیں رکھتے تھے،وہ گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے۔ان کی باتیں کم کام زیادہ کی پالیسی نے ایک پودے کو ایک گھنا درخت بنا دیا۔ملک و قوم کے لیے یقینا ’ہمدرد‘ حقیقت میں ایک ’ہمدرد‘ بن کر ابھرا۔

awazthevoice

حکیم عبدالحمید(ہندوستان)، حکیم حافظ عبدالمجید(بانی)، حکیم محمد سعید(پاکستان)

 کہتے ہیں جب ملک کی تقسیم ہوئی تو افراتفری کا عالم تھا،یہاں تک کے ‘بڑےحکیم صاحب‘ کے چھوٹے بھائی حکیم محمد سعید ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے۔ہندوستان کا بیشتر مسلم تعلیم یافتہ طبقہ پاکستان چلا گیا۔جبب لوگ ہجرت کررہے تھے توحکیم عبد الحمید نے تعلیمی اداروں کے لیے زمینیں خرید رہے تھے۔ ہندوستانی معاشرے میں تقریباً وہی صورت حال پیدا ہوگی جو1857میں تھی۔

بقول ممتاز اسلامی اسکالر اور پدم شری پروفیسراخترا لواسع ’’بڑے حکیم صاحب نے تقسیم ملک کے بعد وہی کردار نبھایا جو1857 غدر کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان نے ادا کیا تھا۔ تعلیم کی راہوں کو ہموار کیا اور ایک سلسلہ شروع کیا آج بھی ان کی دور اندیشی کا لوہا منواتا ہے ۔۔‘‘

پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں کہ تقسیم ملک کے بعد بڑے حکیم صاحب نے وہ کیا جو ملک کے مسلمانوں کی سب سے اہم ضرورت تھی۔ تعلیم یافتہ برادری کے پاکستان جانے کے بعد تعلیم کی نئی راہوں کو کشادہ کرنے کی پہل کی تاکہ مسلمانوں میں تعلیم کا فقدان کسی بحران کی شکل نہ لے سکے ۔

تقسیم ملک سے قبل

حکیم عبد المجید نے سب سے پہلے مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے قائم کردہ ہندوستانی دواخانے میں ملازمت کی تھی ۔

سال 1904 میں اپنے سسر رحیم بخش صاحب سے کچھ پیسے لے کر ہمدرد کی بنیاد ڈالی۔اس کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کی تجارت بھی شروع کی۔ ہمدرد دکان کو چلانے کے لئے حکیم عبدالمجید نے نباتات سے دوائیں بنانا شروع کیں۔ ان کی اہلیہ رابعہ بیگم نے ہر مرحلے پر اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا تھا۔

رابعہ بیگم اور ان کی بہن فاطمہ بیگم دونوں عبدالمجید صاحب کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔پتھر کی سل بٹے سے نباتات پیس کر ہاتھ سے گولیاں بناتی تھیں۔ عبدالمجید کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے حکیم عبدالحمید نے محاذ سنبھالا تھا۔جنہوں نے آہستہ آستہ ’ہمدرد‘ کو عرش تک پہنچا دیا۔

 ہمدرد: دو بھائی۔ تین ملک۔ ایک نام

اصل میں 1906 میں حکیم حافظ عبدالمجید نے غیر منقسم ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ’ہمدرد‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ بانی کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ رابعہ بیگم نے اپنے بیٹے حکیم عبدالحمید کے تعاون سے کاروبار کو زندہ رکھا۔

یہ تقسیم ملک سے قبل کا پہلا خاندان ہے جو بٹوارے کے بعد ہندوستان، پاکستان اوربنگلہ دیش میں ’ہمدرد‘کے نام سے پھلا پھولا بلکہ ’’روح افزا‘ کے نام پر رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔

ہمدرد ‘ کا یہ مشروب دنیا بھر اپنی شان و شوکت کے سبب ’لال بادشاہ‘ کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ جب کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب پاکستان کا بٹوارہ ہوا اور بنگلہ دیش کا وجود عمل میں آیا تو ڈھاکہ ہمدرد کا نام ’ہمدرد بنگلہ دیش ‘ ہوگیا۔ یعنی کہ تقسیم کے بعد ‘ہمدرد‘ بر صغیر میں سکڑا نہیں بلکہ پھیلتا چلا گیا۔

روح افزا بنا ہمدرد کی روح

یوں تو صافی سے سنکارا تک ’ہمدرد‘ کی پیداوار کی ایک لمبی فہرست ہے،لیکن جب بات ہمدرد کی ہوتی ہے تو اب سب سے پہلے جو نام زبان پر آتا ہے وہ ’روح افزا ‘ کا ہوتا ہے۔ اس ادارے نے یونانی دواوں کا کام شروع کیا تھا،ادارے کی پہلی دوا ’حب مقوی معدہ‘ تھی۔ لیکن اس کی پہچان یقینا یہی روح افزا سے ہی بنی ۔

awazthevoiceسب کی جان ۔سب کی شان ۔روح افزا

دراصل جب روح افزا کا نسخہ آزمایا گیا تو ملک کیا دنیا اس کی ’مریض‘ ہوگئی۔روح افزا نے ہندوستان میں حکیم عبدالحمید اور پاکستان میں ان کے بھائی حکیم محمد سعید کو پیر جمانے اور عروج پانے میں سب سے اہم کردار نبھایا۔

 اداروں کا جال

حکیم عبدالحمید صاحب نے خود کو طب تک محدود نہیں رکھا تھا۔انہوں نے ہر میدان میں الگ الگ پلیٹ فارم بنائے اور زبان سے شاعری اور تاریخ سے ریسرچ تک نئی علمی راہوں کو ہموار کیا۔

اپنی خدمات کے لے کسی ایک میدان کو نہیں چنا بلکہ جہاں بھی کوئی کمی نظر آئی اور ضرورت محسوس کی وہیں ایک ’سنگ بنیاد ‘ رکھ دیا ۔جن پر آج نہ صرف بڑے بڑے ادارے سر اٹھائے کھڑے ہیں بلکہ پھل پھول بھی رہے ہیں ۔

 یہ سفر یقینا ہمدرد وقف لیباریٹریز دہلی کے ساتھ شروع ہوا تھا ۔ جس کے تحت مختلف ادارے قائم ہوئے تھے ، جس میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز ، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن ، میڈیکل ریسرچ ، ہمدرد کالج آف فارمیسی ، ہمدرد طبی کالج ، مجیدیہ ہاسپٹل شامل ہیں ۔جن کے حکیم عبدالحمید چیف ٹرسٹی رہے۔

awazthevoice

راجدھانی کے حضرت نظام الدین میں ’غالب اکیڈمی‘ بڑے حکیم صاحب کا ایک بڑا تحفہ

حکیم عبدالحمید ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن ، غالب اکیڈیمی ، ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی ، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل ریسرچ سنٹر ،میں بانی کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔اس کے علاوہ آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے صدر اور سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن کے نائب صدر بھی رہے ۔ حکیم عبدالحمید کو اللہ نے متعدد صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔ وہ کئی علمی ، ادبی ، طبی اور صحافتی شعبوں سے وابستہ تھے۔

اداروں کا قیام اور پرورش

اہم بات یہ ہے کہ حکیم عبدالحمید نے ہر شعبہ میں ترقی اور فروغ کے لیے ادارے تو قائم کئے مگر ساتھ ان کی صحت اور زندگی کے لیے ایسا انتظام بھی کیا کہ اداروں کو کسی قسم کی محتاجی کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔یہ ان کی دور اندیشی ہی تھی جس کے سبب ان کے دور میں قائم ادارے آج بھی پھل پھول رہے ہیں ۔کسی گرانٹ یا امداد کے منتظر نہیں رہیے ہیں۔

حکیم عبدالحمید کی اس خوبی کے بارے میں پروفیسراخترالواسع کہتے ہیں کہ’’ کسی ادارے کو قائم کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ اس کو صحت مند اور زندہ رکھنا ہوتا ہے۔ حکیم عبدالحمید نے کچھ ایسا کیا تھا کہ جس ادارے کو قائم کیا اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک معقول انتظام کیا۔ جب انہوں نے بستی حضرت نظام الدین میں غالب کے مزار کے متصل زمین کو خرید کر غالب اکیڈمی تعمیر کی تو اس کی دیکھ ریکھ اور ملازمین کی تنخواہوں کے لیے ایک قریبی عمارت جھا ہاوس کو وقف کیا جس میں ہوٹل کریم نعمت کدہ بھی ہے۔ تاکہ اس کے کرائے سے غالب اکیڈمی کا وجود بر قرار رہے۔ ‘‘

آج کے دور میں سب سے بڑا مسئلہ کسی بھی ادارے کی آمدنی کا ہوتا ہے ۔انہوں نے کسی بھی ادارے کو کسی ’’چھتری‘ کے بغیر نہیں چھوڑا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بوئے گئے پودے اب خود ہی تناور درخت بن گئے ہیں۔

سوچ کی بلندی

حکیم عبدالحمید نے خود کو کسی ایک دائرہ میں محدود نہیں رکھا تھا وہ اگر طب یونانی کے ماہر تھے تو انہوں نے ایلو پیتھی کو بھی قبول کیا۔ اگر بات تاریخ اور اسلام کی کی تو اس کے ساتھ بین المذہب علمی معلومات اور ہم آہنگی کی راہیں بھی کھولی تھیں۔

دراصل 1963 حکیم صاحب نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز قائم کیا جس کے ڈائرکٹر سید اوصاف علی مرحوم تھے یہ ادارہ بعد میں جامعہ ہمددر کا حصہ بن گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ اس کا دائرہ صرف اسلامی تعلیمات تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد بین مذاہب کی تعلیمات کا مطالعہ تھا اور تمام مذاہب کی یکساں تعلیمات کو پیش کرنا تھا۔

یہی نہیں1965 میں جب حکیم صاحب نے آصف علی روڈ پر ہمدرد ریسرچ کلینک اینڈ نرسنگ ہوم کھولا تو اس میں یونانی طریقِ علاج کے ساتھ ساتھ انگریزی طریق علاج کو بھی اپنایا گیا۔خون کی جانچ بخار کی جانچ اور دیگر ٹیسٹ انگریزی طریق کار سے ہوتے تھے مرض کی تشخیص کے بعد مریض اپنے حساب سے علاج کرواتا تھا۔

حکیموں کے ساتھ ساتھ ایلوپتھی کے قابل ڈاکٹرز کی خدمات اس نرسنگ ہوم کو حاصل تھیں۔ ایک بہت ہی قابل ڈاکٹر سنسارچند المست تھے۔جنھوں نے گیتا کا اردو ترجمہ کرکے بیرون ملک اپنے عزیزوں کو بھیجا تھا۔یہی نرسنگ ہوم بعد مجیدیہ اسپتال بنا۔ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اینڈ ریسرچ اسی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔

تعلیم کے میدان میں

ہمدرد کا نام ہندوستان میں ہر کسی کی زندگی میں کہیں نہ کہیں ’ہمدرد‘ کا کردار نبھا رہا ہے ۔کیونکہ انہوں نے اس ادارے کو تحریک بنایا تو ہر شبعہ میں اس کی موجودگی کا احساس عملی طور پر کرایا۔

حکیم عبدالحمید کا سب سے بڑا تعلیمی کارنامہ بلا شبہ جامعہ ہمدرد یونیورسٹی ہے۔ وہ اس کے فاؤنڈر چانسلر رہے ۔ اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہے اور بہت مقبولیت حاصل کی۔

تعلیم کے ساتھ روزگار کو بھی اہمیت دی۔روزگار کے لیے ہنر کو بھی فروغ دیا ۔ تعلیم کے ساتھ تربیت اور تیاری کا اہتمام کیا۔

awazthevoice

ہمدرد یونیورسٹی

اس لیے ان اداروں میں زیادہ تر پیشے ورانہ تعلیم پر توجہ دی گئی اور اس کے لیے ہمدرد بزنس ایمپلائمنٹ بیورو بھی بنایا گیا تھا ۔ ہمدرد کالج آف فارمیسی،ہمدرد طبیہ کالج،رفیدہ نرسنگ کالج، ہمدرد اسٹدی سرکل برائے آئی اے ایس کوچنگ ان اداروں میں اس طرح کی تعلیم وتربیت کا انتظام تھا کہ فارغ ہوتے ہی طلبا کو ملازمت مل جاتی تھی۔

بعض خالص ادبی اور ثقافتی اداروں میں بھی روزگار سے وابستہ کورسز کی گنجائش نکال لی گئی تھی۔جیسے غالب اکیڈمی میں خوش نویسی ،خطاطی،ٹائپ اور کمپیوٹر کورسز کرائے جاتے تھے۔

ہمدرد اسٹڈی سرکل کے زیر اہتمام طلبا کا انتخاب کرکے آئی اے ایس کی تیاری کا بندوبست کیا گیا ان کے رہنے ،کھانے اور لائبریری کی سہولت بھی دی گئی۔جس نے آئی اے ایس افسران دینا شروع کئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔غرض کہ تعلیمی میدان میں کوئی اہم گوشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں حکیم عبدالحمید کی فکر نہ پہنچی ہے اور اسے عملی جامہ نہ پہنایا گیا ہو۔

سادگی کی علامت

اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالحمید بڑے حکیم صاحب کی خدمات ہمالیہ کی طرح بلند ہیں،انہیں کئی اعزازات سے نوازے گئے جن میں ابن سینا ایوارڈ 1993 (روس) پدم شری ایوارڈ 1995 (انڈیا) پدم بھوشن ایوارڈ 1991 (انڈیا) ہمدرد یونیورسٹی کراچی پاکستان 1995 کے انعامات شامل ہیں ۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ایوارڈز میں دلچسپی نہیں لیتے تھے۔بقول پروفیسر اختر الواسع وہ گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے۔یہی وجہ تھی کہ وہ نہ تو ایوارڈ وصول کرنے جاتے تھے اور نہ ہی کسی محفل میں تقریر کرتے تھے۔

جامعہ ہمدرد کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر غلام یحی انجم کہتے ہیں کہ ’’۔ بڑے حکیم صاحب کی سادگی ،کم گوئی اور دانشمندی بے مثال تھی،وہ ایک پرانی فئیٹ کار میں سفر کرتے تھے،ایک مرتبہ ایک ریڈ لائٹ پر انہوں نے اپنے ڈرائیور سے ایک مہنگی کار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا کہ یہ کتنے کی ہوگی ؟ جب ڈرائیور نے اس کی قیمت بتائی تو وہ بولے کہ جب سستی کار میں سفر ممکن ہے تو پھر اس کی کیا ضرورت ہے؟

وہ ایک قابل و نامور مصنف بھی تھے ۔انہوں نے تھیوریز اینڈ فلاسفر آف میڈیسن 1973 ، فلاسفی آف میڈیکل اینڈ سائنس 1972 ، عرب میڈیسن اینڈ ماڈرن میڈیسن 1977 ۔ اس کے علاوہ انگریزی ، ہندی و اردو میں مختلف عنوانات پر آپ نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔

حکیم صاحب کے چراغ

 حکیم عبدالحمید مرحوم کے دو صاحبزادوں عبدالمعید اور حماد احمد نے ان کی زندگی میں ہی ’ہمدرد‘ میں مختلف ذمہ داریاں نبھانا شروع کردی تھیں۔

عبدالمعید :میڈیسن کو نئی بلندی

 صاحبزادے عبدالمعید  مرحوم نے بھی ہمدرد کے کاروبار کو نئی بلندی عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔

انہوں نے خاص طور پر روح افزا کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔ مرحوم عبدالمعید کا مقصد نہ صرف طب کے یونانی نظام کو محفوظ رکھنا تھا بلکہ انٹرنیٹ کے پھیلاؤ، ایلوپیتھی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور صحت کی دیکھ بھال میں مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں کے نئے دور کے درمیان خاندانی کاروبار کو بھی زندہ رکھنا تھا۔

awazthevoice

نیویارک میں بھی روح افزا ہے دستیاب

ان کے انتقال کے بعد ہمدرد میں جدت کاری کے مشن میں جٹے ان کے صاحبزادے عبدالمجید اور اسد معید۔

" 2005-06 میں کاروبار صرف 200 کروڑ روپے سے کم تھا۔ اس کے بعد، عبدالمعید مرحوم نے تنظیمی ڈھانچے، فروخت اور تقسیم، اخراجات وغیرہ کے لیے عمل ترتیب دینا شروع کیا۔ ان اقدامات سے بہت مدد ہوئی کیونکہ 2015-16 تک کاروبار 500 کروڑ روپے تک پہنچ گیا تھا۔لیکن 20-2019 تک 700 کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے۔

حماد احمد :تعلیمی مشن کے رہبر

 ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن کے بانی اراکین میں سے ایک کے طور پر، حماد احمد اپنے ساتھ لامحدود حکمت اور تجربہ لے کر آئے ہیں۔ 50 سال سے زائد عرصے میں، اس نے ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن کو ہندوستان کی سب سے معزز خیراتی تنظیموں میں سے ایک بنا یا ۔ وہ اس وقت صدر، ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن (انڈیا) - ایچ ای سی اے اور شریک چیئرمین، ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن (انڈیا) ہیں۔

حماد احمد جامعہ ہمدرد سے 1989 میں ڈیمڈ یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنے سے پہلے ہی اس میں شامل رہے تھے۔ کئی برسوں کے دوران، انہوں نے جامعہ کی ایگزیکٹو کونسل، فنانس کمیٹی اور دیگر مختلف مشاورتی اداروں میں خدمات انجام دی ہیں اور جامعہ ہمدرد کی ترقی کو آگے بڑھایا ہے۔

ہمدرد لیبارٹریز انڈیا میں 1973 میں اس کے سیلز اور مارکیٹنگ ہیڈ کے طور پر شامل ہونے کے بعد سے، اس نے کاروبار اور ہمدرد کے نام میں زبردست اضافے کی نگرانی کی ہے، اس عمل میں خود کو ہندوستان کے ممتاز کاروباری رہنماؤں میں سے ایک کے طور پر قائم کیا ہے۔ وہ اس وقت ہمدرد لیبارٹریز انڈیا (فوڈس) کے چیف ہیں۔

awazthevoice

ہمدرد کی ادویات

حماد احمد کے ساتھ اب ان کے صاحبزادے حامد احمد بھی ہمدرد سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ جامعہ ہمدرد کے چانسلر بنائے جانے سے قبل ہمدرد لیبارٹریز انڈیا – فوڈز ڈویژن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور ٹرسٹی بھی تھے ۔ اس کے علاوہ، وہ 2017 سے ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن (انڈیا) کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔

پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں کہ حماد صاحب اور ان کے بیٹے بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔جنہوں نے اس تعلیمی مشن کو نئی بلندی عطا کی ہے۔

سرحد پار :حکیم محمد سعید کی کہانی

حکیم محمد سعید نے تقسیم وطن کے وقت انتہائی بے چینی میں پاکستان کا رخ کیا تھا۔ خالی ہاتھ اور خالی جیب ۔بس ایک مہارت تھی ،ایک مایہ ناز حکیم تھے۔پاکستان جاکر جہاں انہوں نے ہمدرد پاکستان کا قیام کیا وہیں اس کو نئی بلندی بخشنے میں’روح افزا‘ نے اہم کردار ادا کیا۔ایک طویل جدوجہد کے بعد انہوں نے ’ہمدرد‘ کا نام پاکستان میں اتنا ہی روشن کردیا جتنا کہ ہندوستان میں ہوا۔

حکیم محمد سعید ایک طبی محقق اور ایک عالم تھے۔ 1993 سے 1996 تک صوبہ سندھ، پاکستان کے گورنر تھے۔ مشرقی ادویات کے شعبے میں پاکستان کے ممتاز طبی محققین میں سے ایک تھے۔ حکیم محمد سعید نے طب، فلسفہ، سائنس، صحت، مذہب، طبیعیات، ادبی، سماجی اور سفرنامے میں تقریباً 200 کتابیں تصنیف اور مرتب کیں۔ اردو میں بچوں کا مشہور ترین رسالہ ماہنامہ ہمدرد نونہال، اردو میں صحت و صفائی پر رسالہ ماہنامہ ہمدرد صحت اور انگریزی رسالے اسلام پر ہمدرد اسلامکس اور طب پر، ہمدرد میڈیکس جاری کیے، اس کے علاوہ ہمدرد خبرنامہ، ہفتہ وار بھی جاری کیا۔

مگر تمام تر خدمات اور ترقیاتی کاموں کے باوجود 17 اکتوبر 1998 کو،حکیم سعید کو حملہ آوروں نے اچی میں ہمدرد لیبارٹریز کے دروازے پر گولی مار کر ہلاک کردیا ،جس احساس عدم تحفظ کے سبب انہوں نے ہندوستان کو الوداع کہا تھا اس نے پاکستان میں انہیں شکار بنایا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ حکیم عبدالحمید نے تقسیم ملک کے بعد بھائی کے سرحد پار جانے کے صدمے کو تو برداشت کرلیا تھا لیکن ان کے قتل کے نو ماہ بعد ہی جولائی 1999 کو دہلی کے اپولو اسپتال میں آخری سانس لی۔آج ’’ہمدرد‘‘ اپنے مضبوط پیروں پر کھڑا ہے تو اس کا سبب وہ بنیادیں ہیں جن میں بڑے حکیم صاحب کی دور اندیشی، سادگی ،شائستگی،دانشمندی،ایمانداری اور جذبہ شامل ہے۔