اسلامی روایت کی پاسبانی :سحری میں ڈھول اور دف کی گونج

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-04-2021
اسلامی روایات کے پاسبان
اسلامی روایات کے پاسبان

 

 

 منصور الدین فریدی/ نئی دہلی

رمضان المبارک کی آمد جہاں زندگی میں عبادت کو پہلی صف میں لادیتی ہے ،وہیں اسلامی روایات کو بھی زندہ کر دیتی ہے۔ جدید زندگی میں جب رمضان المبارک ان روایات کی جھلک دکھاتا ہے۔ تو کہیں نہ کہیں ہم ماضی اور تاریخ کے جھروکوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ان روایات اورکہانیوں کا پس منظر کی معلومات بھی کسی خزانہ سے کم نہیں ہوتی ہے۔ کسی کے تارمذہب کی بنیادوں تک ہیں تو کسی سماجی گہرائیوں تک۔ کسی روایت سے کسی ملک و قوم کی تہذیب کی جھلک ملتی ہے تو کسی سے مذہب کی۔انہیں میں سے ایک روایت ہے’’مساہراتی’’یعنی کہ سحری میں روزہ داروں کو بیدار کرنے والے فقیر یا درویش ۔ضروری نہیں کہ وہ داڑھی والے ہوں ۔ دراصل عربی میں سحری جگانے والوں کو’مساہراتی‘کہتے ہیں،ہندوستان اور برصغیر میں انہیں ’سحر خوان‘ کہا جاتا ہے ۔

 وہ رمضان المبارک کے دوران ہر رات سحری میں اپنے ڈھول کی تھاپ پر کچھ ایسے علاقائی گیت یا بول سناتے ہیں جو روزہ دارو ں کو اپنے بستروں سے نکل کر سحری کی تیاری پر مجبور کردیتے ہیں۔انہیں کسی الارم کے بجائے ان فقیروں یا درویشوں کی آوازوں کا انتظار رہتا ہے۔انہیں کچھ ممالک میں ڈھولئے بھی کہا جاتا ہے۔ آج کے دور میں جب ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل ہے اور ہر کوئی الارم کا عادی ہے ان روایات کو زندہ رکھنا بہت بڑا کام ہے،جس کو مشرق وسطی میں ہی سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔جس کےلئے ترکی اور مصر کے ساتھ اور بھی کئی ممالک میں اس کا خاص انتظام کیا جاتا ہے۔ 

awazurdu

مدینہ سے ہوا تھا آغاز

ااسلامی دنیا میں سحری کے وقت روزے داروں کو بیدار کرنے کی روایت کئی صدیوں سے چلی آرہی ہے۔سن 2 ہجری میں صوم ( روزے ) فرض ہونے کے بعد یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ اہل مدینہ کو سحری میں جگانے کے لئے کونسا طریقہ اختیار کیا جائے۔ بات اگر تاریخ کی کریں توعلم ہوتا ہے کہ اولین مساحراتی حضرت بلال حبشیؓ تھے۔ جو اسلام کے پہلے مؤذن بھی تھے، حضوراکرمؐ نے حضرت بلال کی ذمے داری لگائی کہ وہ اہل ایمان کو سحری کی لئے بیدار کریں گے۔وہ پہلے شخص تھے جو روزوں کی فرضیت کے بعد مدینہ کی گلیوں میں سحری کے وقت آوازیں لگا لگا روحانیت کا سماں باندھ دیتے تھے اور لوگوں کو سحری کے لئے جگایا کرتے تھے۔مدینہ میں یہ طریقہ زور پکڑتا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بہت سے دوسرےلوگ بھی یہ خدمت انجام دینے کہتے ہیں۔مدینہ کے بعد عرب کے دوسرے شہروں میں بھی سحری جگانے والے اس روایت کی پیروی کرنے لگے اور پھر یہ رواج پوری اسلامی دنیا میں پھیل گیا۔مکہ میں مساہراتی کو زمزمی کہتے ہیں۔ وہ فانوس اٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں کے چکر لگاتا ہے تاکہ اگر کوئی شخص آواز سے بیدار نہیں ہوتا تو وہ روشنی سے جاگ جائے۔

سچسںحردح

 

سوڈان میں بھی جگاتے ہیں مساہراتی

سوڈان میں مساہراتی گلیوں کے چکر لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک بچہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام افراد کی فہرست ہوتی ہے جن کو سحری کے لیے آواز دے کر اٹھانا مقصود ہوتا ہے۔سحری کے وقت دیہاتوں اور شہروں میں ایک شخص لالٹین تھامے ہر گھر کے سامنے کھڑا ہوکر اس کے رہائشی کا نام پکارتا ہے یا پھر گلی کے ایک کونے میں کھڑا ہوکر ڈرم کی تھاپ پر حمد پڑھتا ہے۔ان افراد کو اگرچہ کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی لیکن ماہ رمضان کے اختتام پر لوگ انہیں مختلف تحائف دیتے ہیں۔

ترکی اب بھی ہے محافظ

 وقت بدلا تو بہت کچھ بدل گیا۔کچھ تاریخی روایات پر مٹی پڑ گئی اورکچھ کو دنیا کے بدلتے انداز اور مزاج نے دفن کردیا ۔لیکن ’سحر خوانی‘ ہو یا پھر’’مساہراتی‘اس روایت کو ترو تازہ رکھنے میں ترکی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترکی میں سحری کے وقت ڈھول بجاکر روزے داروں کو جگانے کی روایت آب و تاب کے ساتھ برقرار ہے اور اسلامی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ رمضان کا چاند نظر آتے ہی ڈھول بجاکر بیدار کرنیوالے رضا کار روایتی لباس پہن کر مساجد کے احاطوں میں جمع ہوکر رمضان کی آمد کی خوشی میں ڈھول اور دف بجاتے ہیں۔

awazurdu

خصو صی انعام اور وظیفہ 

 ترکی میں ڈھول بجاکر سحری جگا نے کی روایت خلافت عثمانیہ کے وقت سے قائم ہے۔اس لئے ترکی میں سرکاری سطح پر قدیم روایات کی سرپرستی کی جاتی ہے۔جس کے سبب اب سحری میں ڈھول بجانے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ ڈھول بجاکر سحری میں بیدار کرنے والے ترک فنکار وں کو باضابطہ تنخواہ یا اجرت نہیں ملتی بلکہ لوگ خوش ہوکر انعام کے طور پر رقم دیتے ہیں جو بخشش کہلاتی ہے۔ رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی ترکی کے ڈھولیے عثمانی لباس زیب تن کئے ہوئے استنبول میں بھائی چارگی کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں۔ ترکی میں مسلمانوں کو سحری کے وقت جگانے کے لئے 2 ہزار سے زائد ڈھولیے اپنے کردار ادا کر تے ہیں۔

awazurdu

مصر کا بادشاہ بھی تھا سحر خوان

آپ حیران ہوں گے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مصر کا ایک بادشاہ ایسا تھا جو رات کو اپنی رعایا کو سحری کےلئے بیدار کرنے کےلئے نکلا کرتا تھا۔اس حکمران کو تاریخ میں ’عتبہ ابن اسحاق’کے نام سے جانا جاتا ہے۔جو رمضان کے دوران قاہرہ کی سڑکوں کا دورہ کرنے والے پہلا شخص تھا جو لوگوں کو شاعرانہ انداز میں یہ کہتہ ہوئےجگاتا تھاکہ ۔۔۔۔۔’ تم لوگوں میں جو سو رہے ہیں وہ اٹھیں اور اللہ کی عبادت کریں‘۔

سحری میں گیت اور نغمے گا کر جگانے والوں سے ہندوستان اور پاکستان کے کچھ شہراب بھی واقف ہیں لیکن ایسے لوگ اب برائے نام رہ گئے ہیں ۔گر کچھ ہیں تو وہ عید میں کچھ کمانے کی نیت سے کرتے ہیں لیکن مشرق وسطی میں اس روایت کے پیچھے ایک جنون ہے۔

awazurdu