'جنم اشٹمی اسپیشل : 'ببن میاں' کا 'مدھوسودن گوشالہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-08-2021
 اپنے مدھو سودن گوشالہ میں ببن میاں
اپنے مدھو سودن گوشالہ میں ببن میاں

 

 

منصور الدین فریدی: نئی دہلی 

آج  ہندوستان ‘جنم اشٹمی ’کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے،اس تہوار سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنگا جمنی  تہذیب کی لاتعداد کہانیاں جڑی ہیں ،جو اس ملک کی عظمت کو چار چاند لگا دتی ہیں۔

آج ہم آپ کو ہندوستان کی اس گنگا جمنی تہذیب کی روایتی خوبصورتی کا دیدار کراتے ہیں جو بلاشبہ اس سرزمین کی سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ جس کی بنیاد پر ہے ہم یہ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں کہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘۔

 آپ سوچئے کہ نام ہے ‘مدھوسودن گوشالہ’۔ یاد رہے کہ مدھوسودن ’بھگوان کرشنا‘ کا ایک نام ہے۔ یعنی کہ گو شالہ کو بھگوان کرشن کے نام پر آباد کیا گیا ہے۔جس میں اس وقت 90 گائے اور 16 بچھڑے پرورش اور پروان پا ’رہے ہیں ،جبکہ اس گوشالہ کا واحد مقصد ’خدمت‘ ہے کاروبار نہیں ۔

 اب اس کہانی کا وہ کردار سامنے آتا ہے جو اس کو ’خالص ہندوستانی‘ بناتا ہے۔اس کا نام ہے زبیدالرحمان عرف ببن میاں۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بلند تصویردراصل اتر پردیش کے بلند شہر کی ہے جو پورے ہندوستان کو اس کی نزاکت اور نفاست کے ساتھ مذہبی رواداری،بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا آئینہ دکھا رہی ہے۔ 

awaz

گوشالہ میں ببن میاں گائیوں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے نہیں 

بلند شہر کی بلند تصویر

 یہ مثالی گو شالہ بلند شہر کےچاندیانہ گاؤں کو رونق بخش رہا ہے۔جہاں ’ببن خان‘ نے سڑکوں پربھٹکنے والی آوارہ گائوں کے لئے ایک سائبان تیار کیا جس کو کرشن بھگوان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ’مدھوسودن گوشالہ’ رکھا۔ گائے کے ساتھ ان کے لگاو اور احترام کے جذبے نے انہیں بلند شہرایک نئی پہچان دی ہے۔ جو نہ صرف ان کی بلکہ ان کے خاندان کی پہچان بن گیا ہے۔

۔’آواز دی وائس‘ سے بات کرتے ہوئے ’ببن میاں‘ نے کہا کہ یوں تو کسی چیز کی کمی نہیں رہی۔ کھیتی کی زمین ہے،44 ایکٹر میں پھیلے آم کے باغات ہیں ،برتنوں کی فیکٹریاں ہیں اور ملک کی راجدھانی دہلی میں رئیل اسٹیٹ ’کا کاروبار ہے۔

لیکن جوعزت،احترام اور پہچان انہیں’مدھو سودن گوشالہ‘ نے دی ،وہ ناقابل بیان ہے۔ اس مشن یا جذبہ کے سبب اب گائے کی خدمت کرنا ان کے خاندان کی پہچان بن گئی ہے۔ کروڑوں روپے کی آمدنی ہونے کے باوجود،زبیرالرحمن ہفتے کے آخر میں مدھوسودن گوشالہ میں خود گایوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

awaz

گوشالہ میں بچھڑوں کی بھی پرورش کی کارہی ہے

 ماں سے ماں تک

آواز دی وائس‘سے بات کرتے ہوئے ببن میاں نے کہا کہ ۔’’ گائے کی خدمت کا جذبہ والدہ مرحومہ حمیدالنسا سےملا ہے،جو گھر میں چار یا پانچ گائے رکھتی تھیں۔خدمت کے جذبے سے گائوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ کہا کرتی تھیں کہ میری خواہش ہے کہ یہ کام ہمیشہ جاری رہے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ ایسا ہوسکے گا یا نہیں۔انہیں ‘گنگا‘ سے بھی محبت اور لگاو تھا‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ جب 2015میں والدہ کا انتقال ہوا تو'ببن میاں' نے ماں کے اس خواب اور خواہش کو پورا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے باقاعدہ ایک گو شالہ قائم کیا ۔جس کو ’کرشن جی‘ کے نام سے منسوب کیا۔ جس میں آغاز کے وقت تو صرف 20 یا 25 گائے تھیں لیکن اب ان کی تعداد 90 ہوچکی ہے جبکہ 16 بچھڑے بھی موجود ہیں۔

awaz

ببن میاں کی دلچسپی کے سبب آج گوشالہ کو چار چاند لگ گئے ہیں

چاندیانہ اورگاوں کی تاریخ

دلچسپ بات یہ ہے کہ بلندشہر کےاس گاوں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ دراصل چاندیانہ ان 12 گاؤں میں سے ایک ہے،جسے بارہ باسی (12 بستی) پٹھانوں کی بستی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو کہ بلندشہر کے سائنا تحصیل میں آتی ہے ۔

 شیر شاہ سوری کے دورِحکومت میں، عیسی خان نیازی کے ساتھ کچھ پٹھان خاندان ہندوستان آئےاور یہیں مقیم ہوگئے تھے۔ یاد رہے کہ شیر شاہ سوری نے 16 ویں صدی میں شمالی ہندوستان میں سوری سلطنت قائم کی تھی۔

اٹل رہے ببن میاں

 گو شالہ کو قائم کرنا اور اس کو منظم طریقہ سے چلانا کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ اس کے ساتھ ببن میاں کو کہیں نہ کہیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔مگر ان کا کہنا ہے کہ ہم گنگا – جمنی تہذیب پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے گوشالہ کا نام بھگوان کرشن کے نام پر رکھا ہے۔

 کچھ خوش ہوئے تو کچھ ناراض بھی ہوگئے۔ لیکن مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ ہماری سوچ مختلف ہے۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ میں کچھ ایسا کرتا ہوں جو ہندو کرتے ہیں مجھے کچھ رشتہ داروں کی طرف سے بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے ، لیکن زیادہ تر لوگوں نے اس کام کی تعریف کی۔

 ببن میاں کا کہنا ہے کہ ہمارا یہ بھی یقین ہے کہ ہم گائے کی خدمت کرتے ہیں ،لہذا اللہ نے ہمیں سب کچھ دیا۔ ابتدا میں 5-10 گائیں تھیں اوراب 90 گائیں ہیں ۔

 

awazurdu

 دیکھ ریکھ ،خرچ اور آمدنی

 اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ساتھ تقریبا سو سے زیادہ گائے کو پالنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ بڑے اخراجات برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ کچھ دوستوں نے یہ قیمتی مشورہ دیا تھا کہ لاوارث گائوں کی دیکھ ریکھ اور خدمت کے ساتھ ڈیری والی کچھ گائے لےلوں تاکہ اس سے اخراجات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ تجربہ بہت کمیاب رہا ہے ۔

 بقول ببن میاں اب گائے کا دودھ بیچ کر ایک لاکھ روپے مل جاتے ہیں جب کہ باقی رقم میں اپنی جیب سےدیتا ہوں۔

 گوشت نہیں دودھ

 آج کے دور میں ببن میاں ایک مثال بن کرابھرے ہیں،وہ سب کے مذہبی جذبات کا احترام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ان کی مذہبی رواداری بھی قابل ستائش ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ اسلام گائے کے گوشت کے استعمال کی ممانعت نہیں کرتا ہے۔ لیکن ہم گائے کا دودھ پیتے ہیں،ہم اسے کھانے کے لئے کیسے مار سکتے ہیں اور اس کے خلاف قانون بھی ہے اور ہمیں قانون پر عمل کرنا چاہئے۔

ببن میا ں نے آواز دی وائس ‘کو بتایا کہ ہر تہوار میں ہم ضرورت مندوں کو دودھ مفت میں دیتے ہیں ۔یہی نہیں علاقے میں کسی بھی غریب کی شادی کے لئے دودھ مفت دیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارا مقصد کاروباری نہیں ۔ہم گائوں کو پال رہے ہیں اور ڈیری کے آئٹم سے ان کے اخراجات پورے کررہے ہیں-

بین الاقوامی سطح پر ستائش

بلند شہر کے ایک گاوں کا یہ مثالی مشن نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک بھی توجہ کا مرکز بنا۔ ببن میاں کی خدمات اور جذبہ کو سراہا گیا ہے ۔

یورپی ملک کنگڈم آف ٹینگو کی کامن ویلتھ ووکیشنل یونیورسٹی نے ان کی سماجی خدمات خاص طور پر گائے کے تحفظ کے لئے کام کرنے کے اعتراف میں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا ہے۔

اس کو ببن میا ں اپنی بڑی کامیابی مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ والدہ کی دکھائی راہ تھی جس پر چل کر مجھے عزت اور دولت سب کچھ ملا ہے۔

awazurdu

ببن میاں کی خدمات کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا 

اس گوشالہ کی دھوم اب دور دور تک ہے۔ کیا سیاستداں اور کیاسماجی شخصیات اور کیا فلمی ستارے۔ سب کی توجہ اور دلچسپی کے سبب گاوں اہم شخصیات کی میزبانی کرتا رہتا ہے۔

فلمی اداکاررضا مراد ہوں یا پھر مشہور ٹی وی سیریل ’بھا بھی جی گھرپر ہیں‘ کی یونٹ ۔ شہرت یافتہ پہلوان سوشل کمار ہوں یا باکسر سنگرام،یہ سب گو شالہ کا دورہ کرچکے ہیں۔

جب انہوں نے مدھو سودن گو شالہ پر ایک میگزین جاری کیا تو اس فنکشن میں اتراکھنڈ کے وزیر اعلی تریویندرا سنگھ کے ساتھ مینکا گاندھی ،سنگر انوردھا پوڈوال اور باکسر سنگرام سنگھ نے شرکت کی تھی۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے ببن میاں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ ہم صرف دو دہائیوں سے گائے پال رہے ہیں بلکہ ہمارے خاندان میں تقریبا پچاس سال سے یہ کام ہورہا ہے۔ لیکن والدہ مرحومہ کے جذبہ نے ہمیں ’گو پالک ‘ بنا دیا ہے۔

ہم نے اس کے لئے کبھی نہ تو کسی این جی او کا بینر اٹھایا ہے اوبر نہ ہی کسی سرکاری مدد کی امید یا آس لگائی۔ کیونکہ اس خدمت کے سبب ہمیں اللہ نے اتنا نواز دیا ہے کہ ہمیں اب اس کام کے لئے کسی سے کچھ نہیں چاہیے۔ 

ببن میاں کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ نے ایک نیک کام کے لئے چنا ہے۔ ہم اس کو انجام دے رہے ہیں ۔یہ خدمت ہے ،اس کے لئے کسی مالی امداد کی ضرورت نہیں ۔