ایر گن سے دوربین تک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-03-2021
یا د رکھے گی دنیا
یا د رکھے گی دنیا

 

یوم گوریا‘ پر خاص خراج عقیدت’

منصورالدین فریدی/ نئی دہلی

کوئی آپ سے دریافت کرے کہ ’میزائیل مین‘کون؟تو فورا کہیں گے کہ ’کلام‘۔ لیکن اگر کوئی آپ سے دریافت کرے گا کہ ’برڈ مین‘کون؟تو آپ یقینا سوچ میں پڑ جائیں گے۔دماغ پر زوردیں گے۔آپ کے دماغ میں ’ڈاکٹر سالم علی‘ کا نام جلدی نہیں آئے گا،شاید آئے بھی نہیں۔ یا آپ کو ’گوگل بابا‘کی مدد لینی پڑ جائے۔۔یہ وہ نام ہے جس کو پرندوں کا ماہر۔آسان زبان میں کہیں تو اڑتی چڑیا کے پر گننے والامانا جاتا تھا۔ جس نے ہندوستان میں پرندوں کی سائنس کو ایک نئی بلندی دی۔ دنیا میں اپنی پہچان بنائی بلکہ دنیا کو سلام کرنے پر مجبور کیا۔ جو باتیں ایک وقت تک کسی پہیلی کی طرح تھیں،قدرت کے راز مانی جاتی تھیں،جن پر صرف قیاس آرائیوں کا دور چل پاتا تھا۔ان پر سے پردہ اٹھانے کا کام کیا تھا ڈاکٹر سالم علی نے۔یہی ہیں ’برڈ مین‘جنہوں نے اڑتی چڑیا کے پر گننے کا کام حقیقت میں کر دکھایا تھا۔انہوں نے چڑیا یا پرندوں ایسے ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا کہ سب دنگ رہ گئے۔

دراصل اب دنیا میں بات چڑیا کی ہو یا کسی بھی پرندے کی ،سالم علی کا نام آنا ضروری ہے،کیونکہ انہوں نے چڑیوں کی دنیا کے بارے میں جو انکشافات کلے وہ پرندوں سے محبت کرنے والوں کےلئےکسی خزانہ سے کم نہیں ہیں۔ان کی یاد میں 12 نومبر کوعالمی  یوم چڑیا بھی منایا جاتا ہے۔۔آج یوم گوریا پر بھی ہم ان کی خدمات کو سلام کررہے ہیں کیونکہ سالم علی کی زندگی کا ہر دن پرندوں کی خدمت میں گزرا۔ ان کی پیدائش12 نومبر 1896کو ممبئی میں ہوئی تھی ان کا تعلق سلیمانی بوہرا برادری سے تھا۔وہ اپنے والد معیز الدین اور والدہ زینت النسا کی نویں اولاد تھے۔ان کے والد کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب ان کی عمر صرف ایک سال تھی۔چند سال کے بعد والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا تھا۔جس کے بعد ان کی پرورش بے اولاد ماما اور ماموں نے کی تھی۔اس یتیم بچے نے اپنی بکھری ہوئی زندگی میں ایساکچھ کیا جس کی کسی کو امید نہیں تھی۔

شکار سے ریسرچ تک

کہتے ہیں کہ کبھی کبھی شکاری بھی شکار ہو جاتا ہے،سالم علی کے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا۔وہ چڑیوں کا شکار کرنے کے شوقین تھے،ان میں پرندوں کے تئیں یہ دلچسپی بھی ایک شکار کے سبب ہی پیدا ہوئی تھی۔دراصل ان کے ماموں امیر الدین طیب جی ایک اچھے شکاری تھے جن کے ساتھ رہ کر انہیں بھی شکار کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ مگر ایک شکار نے ہی ان کی زندگی بدل دی تھی۔،چڑیوں کو نشانہ بنانے میں جس کو لطف آتا تھا وہی شخص چڑیوں کی زندگی میں الجھ گی،ان کی زندگی کی ایک ایک پرت کھولنے میں جٹ گیا۔

قصہ یہ تھا کہ سالم علی نے اپنی ایر گن سے ایک چڑیا کاشکار کیا جو دوسری چڑیوں سے مختلف تھی۔انہیں وہ چڑیا بہت اچھی لگی۔ ماموں سے اس چڑیا کے بارے میں پوچھا۔ ماموں ممبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی کے ممبر تھے لیکن چڑیا کے بارے میں کچھ بتا نہیں سکے۔سالم علی نے ہمت نہیں ہاری،وہ ماموں کے ساتھ سوسائٹی کے عجائب گھر گئے۔ اپنے ساتھ اس مری ہوئی چڑیا کو بھی کاغذ میں لپیٹ کر لے گئے تھے۔ وہاں اس چڑیا کے بارے میں بھی جانکاری دی گئی۔ اسی وقت سے ان کے دل میں چڑیوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی خواہش پیدا جس کے بعد ان کی کھوج رکی نہیں ۔ہر دن ان کی نظریں چڑیوں پر رہیں۔انہیں پڑھتی رہیں اور دنیا کو ان کی باریکیوں سے واقف کراتی رہیں۔

aaa

 

دراصل جب وہ اپنے ماموں کے ساتھ سوسائٹی گئے تھے تواس کے سکریٹری ڈبلیو ایس ملیلارڈ بہت متاثر ہوئے تھے،انہیں ایسا لگا کہ اس لڑکے میں کچھ بے چینی ہے۔ کچھ جاننے کی بے چینی اور کچھ کھنگالنے کی بےچینی۔ جس کے بعد انہوں نے سالم علی کو پرندوں کے تعلق سے تربیت دینے کی پیشکش کی تھی۔

بس یہی سے ان کی زندگی بدل گئی۔لیکن ان کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہوا تھا کہ سر میں سخت درد کی شکایت کے سبب ان کی تعلیم متاثر پوئی ۔بڑی مشکل سے انہوں نے 1913 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔وہ کچھ سال برما میں گزار کر بھی آئے تھے۔ 1917 میں وہ ممبئی واپس آئے تھے اور پھر کامرس کالج کا رخ کیا تھا لیکن فادر البرٹ بلاٹر نے ان کے اندرکی دلچسپی کو پڑھ لیا تھا۔۔جس کے بعد انہیں’زولوجی‘ میں تعلیم حاصل کرنے پر راضی کیا تھا۔سالم علی نے ایسا ہی کیا۔

شوق جو جنون بن گیا

ایک وقت ایسا آیا جب زولوجیکل سروے آف انڈیا میں ماہرِ طیّوریات کی پوسٹ حاصل کرنے کےلئے بے چین تھے مگر یونیورسٹی کی کوئی خاص ڈگری نہ ہونے کے سبب کامیاب نہ ہوسکے۔1926 میں ممبئی میں پرنس آف والس میوزیم کے نیچرل ہیسٹری سیکشن میں انہیں لیکچررکےلئے مدعو کیا گیا تھا۔دو سال بعد انہوں نے تعلیمی چھٹی لی اور جرمنی چلے گئے تھے۔جہاں انہوں نے ڈاکٹر ارون اسٹریسمین کے ساتھ تقریباً ایک سال تک رہ کر پرندوں پر مطالعہ کیا تھا۔ ڈاکٹر ارون دنیا کے مشہور برڈ سائنٹسٹ رہ چکے ہیں اورانہوں نے سالم علی کی پرندوں میں دلچسپی دیکھ کر ان کا بہت تعاون کیا۔

جب 1930 میں سالم علی واپس آئے تو اس وقت تک کالج میں ان کی پوسٹ ختم ہوچکی تھی،جس کے بعد ممبئی کےقریب ایک ساحلی گاوں کہیم میں منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ چڑیوں پر تحقیق کرتے رہے۔انہیں مختلف ریاستوں کے حکمراں بلاتے رہے ان کی خدمات حاصل کرتے رہے۔جن میں حیدرآباد گوالیار اوربھوپال بھی شامل ہیں۔اس کے بعد ان کی کتابوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

aaa

ایر گن کے بجائے دوربین

جو انسان ایر گن کے ساتھ شکار کیا کرتا تھا،اس نے ایک وقت اپنی ریسرچ کو کتابی شکل دینے کا سلسلہ شروع کیا تو دنیا کے سامنے کئی کتابیں آئیں جنہیں پرندوں کی فطرت اور مزاج کو سمجھنے کا سب سے خوبصورت ذریعہ مانا گیا۔ یوں تو سالم علی کا پہلا ریسرچ پیپر ’ویور برڈس‘ پر 1930 میں شائع ہوا تھا۔مگران کی پہلی تخلیق''دی بک آف انڈین برڈس'' 1941میں شائع ہوئی۔ جو پرندوں کے علم پر شائع ہونے والی ہندوستانی اشاعتوں میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف انڈین ہل برڈس، دی برڈس آف کیرالا، دی برڈس آف سکم ہیں۔سالم علی نے سڈنی ڈیلن ریپلے کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے پرندوں کی تاریخی دس-باب کی ہینڈ بک لکھی، جس کی دوسری جلد ان کی موت کے بعد مکمل ہوئی۔ سالم علی نے بھرت پور برڈ سینکچوئری (کیولادیو قومی پارک) قائم کرنے میں اہم کردار نبھایا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سائلنٹ ویلی نیشنل پارک کو پوری طرح ختم ہونے سے بھی بچایا۔۔

اعزازات کے بنے حقدار

سب سے پہلے 1953 میں اشیاٹک سوسائٹی آف بنگال نے’طلائی تمغا‘ سے نوازا۔حا صل شدہ انعامات میں بین الاقوامی ایوارڈجے پال گٹّی‘بھی شامل ہے۔ سال 1967 میں ایک ایسے غیر برٹش شہری بنے تھے جنہیں ’برٹش ماہرطیوریات یونئین کا طلائی تمغہ حاصل کیا۔اسی سال ڈاکٹرسالم علی نے ایک لاکھ ڈالروالا جے.پول گِٹّی وائلڈ لائف کنزرویشن انعام حاصل کیا۔ سال1967 سی.فلپس مموریل مڈل‘ حاصل کیا۔1973 میں یو.ایس.ایس.آر.اکاڈمی آف میڈکل سائنس نے انہیں پاؤلووسکی سینیٹری مموریل مڈل سے نوازا گیا اور اسی سال میں ہی نیدر لینڈکے’آرڈر آف دی گولڈن آرک کا کمانڈر‘ بنایا گیا تھا۔ ہندوستانی حکومت نے سالم علی کو 1958 میں پدم بھوشن اور 1976 میں پدم وبھوشن سے نوازا تھا اور راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا۔

حکومت برطانیہ نے گولڈ میڈل، حکومت ہالینڈ نے گولڈ آرک اور عالمی ادارہ وائلڈ لائف نے 50 ہزار ڈالر انعام دیا۔ ڈاکٹر سالم علی کا انتقال 21 جون 1987میں ہوا۔آج بھی دنیا ان کی خدمات کو سلام کرتی ہے،انہوں نے چڑیوں کیلئے جتنا کام کیا شاید ہی کوئی سوچ سکتا ہے۔ان سے قبل بس اندازے تھے اور کہانیاں تھیں لیکن سالم علی نے چڑیوں کی فطرت اور مزاج سے نفسیات اور قوت ارادی تک ایسے ایسے پہلووں کو اجاگر کیا۔