خاندان : کشمیر کے ’حکیم لقمان‘ تھے ڈاکٹرعلی جان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
 ڈاکٹر علی جان: کشمیر کے’حکیم لقمان ‘ایک روحانی خاندان کا چراغ تھے
ڈاکٹر علی جان: کشمیر کے’حکیم لقمان ‘ایک روحانی خاندان کا چراغ تھے

 


احسان فاضلی ۔سری نگر 

ڈاکٹر علی جان ،یہ نام کشمیریوں کو کسی جادوگر کے طور پر یاد رہتا ہے،ایک ایسے معالج جو تشخیص اور علاج کے انوکھے طریقوں اور اندازکے سبب ’’حکیم لقمان‘ کے نام سے مشہور تھے۔ڈاکٹر علی جان کے اس دنیا سے گزرے 33 سال ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود کشمیر کے عوام انہیں نہیں بھول سکے ہیں۔ نئی نسل ان کے علاج کے طریقوں کے قصے سن رہی ہے۔کشمیر والوں کا ماننا ہے کہ ان کا بیماری کا پتہ لگانے کی انوکھی تشخیصی مہارت خداداد تھی۔یہی وجہ تھی کہ بغیر کسی جانج وہ علاج کیا کرتے تھے۔آج کے دور میں مریضوں کو مہنگے طبی ٹیسٹ سے بھی گزرنا پڑتا ہے جس کے آج ہم اتنے عادی ہیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ اس دور کا شاید ہی کوئی کشمیر ی ہو جسے ڈاکٹر علی جان فاضلی کے جادوگری کا تجربہ نہ ہو۔ان کی یادیں اب وادی میں لوک کہانیاں ہیں ۔ڈاکٹر علی جان 3 ستمبر 1914 کو سری نگر کے گوجواڑہ میں ایک مشہور تعلیم یافتہ اور روحانی فاضلی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔

انہوں نے کنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج، لاہور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور 1937 میں کورس میں سرفہرست رہے۔کالج میں اب بھی علی محمد فاضلی کا نام کالج کے آنرز بورڈ میں ٹاپر کے طور پر موجود ہے۔

وہ بہت ہی ذہن تھے، ڈاکٹر فضیلی نے صرف نو ماہ میں ایڈنبرا، برطانیہ سے ڈی سی ایچ اور ایم آر سی پی پاس کیا۔ لیکن ۳۱اکتوبر 1988 کو ان کی موت نے کشمیر کو غم زدہ کردیا تھا کیونکہ ان کا بحیثیت ایک معالج لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤان کی انسانی خدمت کا ہی نمونہ تھا۔

علی جان، جنہیں لوگ حکیم لقمان کہتے تھے، نے ڈاکٹروں اور ان کے کام کے لئے ایک نیا معیار قائم کیا تھا اور ان کی مہارت اور ہمدردی سے میل کھانے والا کوئی بھی دوبارہ پیدا نہیں ہوا۔ برطانیہ سے واپسی کے بعد ڈاکٹر فاضلی نے حکومت میں شمولیت اختیار کی اور گورنمنٹ میڈیکل کالج سری نگر کے پرنسپل بن گئے۔ اس نے مریضوں کی خدمت کے لئے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔

awazurdu

ڈاکٹر علی جان فاضلی جنہیں حکیم لقمان کہا جاتا تھا


ڈاکٹر علی جان کا تعلق مشہور فاضلی قبیلے سےتھا، اس خاندان کی ایک مکمل تاریخ ہے۔تحریری شجرہ ہے۔ جو اپنے ہندو آباؤ اجداد دترتریا گنیش کول سے مل جاتا ہے۔وہ اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے – جن میں چھ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ان کے والد غلام رسول فاضلی عربی، فارسی، اردو اور مقدس صحیفوں کے معروف عالم تھے۔

ان کے ایک بھائی عبدالغنی فاضلی معروف شاعر ہیں۔ ان کے تین بھائی اے اے فاضلی، محمد خلیل اور عمر جان انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ایک اور بھائی احسان الحق فاضلی جموں و کشمیر حکومت میں چیف انجینئر اور ڈاکٹر علی جان کے واحد زندہ بہن بھائی کے طور پر ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر علی جان کی وراثت کو ان کے پانچ بچے یعنی تین بیٹے اور دو بیٹیاں اور پوتے پوتیاں آگے بڑھا رہے ہیں۔

ان کے دو بیٹے گوہر علی جان جو جموں و کشمیر کی سول سروسز میں تھے اور علی اکبر جان جو ایئر انڈیا کے لیے کام کرتے تھے اور دارجلنگ میں رہتے تھے، حال ہی میں انتقال کر گئے ہیں۔ان کا چھوٹا بھائی ڈاکٹر علی احمد فاضلی، جس کی اہلیہ بھی ڈاکٹر ہیں، امریکہ کی ریاست اتہ میں آباد ہے۔ ڈاکٹر علی جان کی بیٹیوں میں سے رضیہ فاضلی نے اپنے ایک کزن سے شادی کی، خورشید انور فاضلی سری نگر کے راولپنڈی میں آباد ہیں جبکہ ڈاکٹر آمنہ، جن کی شادی ایک سینئر ڈاکٹر کے بیٹے اور ڈاکٹر علی جان کے ساتھی سے ہوئی ہے، نیویارک (امریکہ) میں آباد ہیں۔

سری نگر کے مگھرمل باغ میں ڈاکٹر علی جان کے گھر کی دیکھ بھال علی محمد فاضلی کے مقرر کردہ نگران کر رہے ہیں۔ اس گھر میں ایک علیحدہ ایک منزلہ ڈھانچہ ہے جو ڈاکٹر علی جان کے کلینک کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر علی جان اور پھر ان کی دوسری اہلیہ ڈاکٹر تاجور کے انتقال کے بعد لاکھوں مریضوں میں جس جگہ سے امید پیدا ہوئی وہ اب ویران ہے۔

awaz

کشمیریوں کے مسیحا ڈاکٹر علی جان ایک مریضہ کا معائنہ کرتے ہوئے 


خاندان بہت بڑا تھا اور ان کے گھر میں خوب رونق رہا کرتتی تھی۔ بہت سے لوگ اس گھر میں تھے، جو 1958 میں تعمیر کیا گیا تھا، اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپسی کے پانچ سال بعد ڈاکٹر علی جان مریضوں کو دیکھتے رہے۔

ان کے سب سے چھوٹے اور واحد با حیات بھائی احسان الحق فاضلی انہیں یاد کرتے ہیں۔ وہ سری نگر میں ایک ریٹائرڈ چیف انجینئر ہیں۔ احسان الحق ماضی کے جھروکے میں جھانکتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ زندگی کے تمام معاملات سے گہرے طور پر وابستہ تھے۔ہم خاندان کا حصہ تھے۔ جہاں وہ (ڈاکٹر جان) ہم سب کے ساتھ زبردست بات چیت ک تے تھے۔

ڈاکٹر جان نے ہفتے کےپانچ دن اپنے مریضوں کے لئے وقف کر رکھے تھے اور باقی دو دن وہ یا تو پہلگام اور کوکرناگ جیسے سیاحتی تفریح گاہوں کا دورہ کرتے تھے - جہاں وہ مچھلیاں پکڑنے میں بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔اس کے ساتھ وہ مرزا غالب، علامہ اقبال، حالی کی شاعری اور طبی جریدوں، اخبارات، ادب پڑھنے میں وقت گزارا کرتے تھے۔

احسان الحق نے کہا کہ ہفتے کے دنوں میں وہ کلینک سے واپسی کے بعد رات گئے تک پڑھتے رہتے تھے۔ ان کے پاس کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر علی جان کی بطور ڈاکٹر شہرت شمالی ہندوستان کے تمام علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی ۔ اان کے نسخہ سے صحت یاب ہونے والے بہت فخر محسوں کیا کرتے تھے۔ان کا خیال تھاکہ اس کے پاس 'دست شفا' (مریضوں کے علاج کی طاقت) ہے۔

awazurdu

ڈاکٹر علی جان ہزاروں افراد کی امید کی کرن تھے۔


جہاں ڈاکٹر فضیلی کے آباؤ اجداد نے لوگوں کو روحانیت سے شفا دی وہیں ان کے مداح بھی ان کی طبی تشخیص کے معجزوں کو منسوب کرتے ہیں۔ ڈاکٹر واحد نے کہا کہ "ڈاکٹر جان نے جدید طبی سائنسز کے سائنسی طریقوں کے ذریعے معجزے پیش کیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی طبی تشخیص شاندار تھی۔ڈاکٹر منظور فاضلی نے اپنی کتاب حسن: کشمیر ہسٹوریوگرافر (1983ء) میں جو شمالی کشمیر کے بانڈی پور میں رہنے والے فاضلی خاندان سے بھی تعلق رکھتے تھے کہتے ہیں کہ "ڈاکٹر علی محمد (جان) فاضلی نہ صرف ایک نام بلکہ ایک داستان تھے ۔

انہیں ہر کوئی جانتا تھا خواہ کسی بھی مسلک، ذات، رنگ اور نظریات کا ہو ۔ ڈاکٹر کی حیثیت سے ان کی شہرت شمالی ہندوستان کے تمام علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان کے نسخے رکھنے والوں کو اپنی صحت پر فخرہوتا تھا، جسے وہ ڈاکٹر جان کی "دست شفا" کی وجہ سمجھتے ہیں۔

ان کے مداح اور دیگر لوگ بھی ان کی طبی تشخیص اور علاج کے بہت سے معجزات کو یاد کرتے ہیں- اگر ان کے آباؤ اجداد روحانیت کے ذریعے معجزے پیش کرتے تھےتو ڈاکٹر جان جدید طبی علوم کے سائنسی طریقوں کے ذریعے معجزے پیش کرتےتھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی طبی تشخیص شاندار ہوتی تھی اور اب تک کم از کم وادی میں ان کی ٹکر کا کوئی ڈاکٹر نہیں آسکا ہے۔

 ڈاکٹر اے واحد، معالج اور سابق ایچ او ڈی میڈیسن، ایس کے آئی ایم ایس کہتے ہیں کہ "لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر علی جان معجزے کر تے تھے۔ کیونکہ وہ غیر معمولی درستگی کے ساتھ تشخیص کر تے تھے ۔ میں معجزوں پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ اب ایسا نہیں ہوتا۔ تو پھر ڈاکٹر جان کسیے معجزے کرتے ہوں گے؟ان کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر جان طب میں تازہ ترین پیش رفت سے خود کو اپ ڈیٹ رکھتے تھےاور اپنے علم کا سب سے زیادہ سائنسی طور پر اطلاق کرتے تھے۔ وہ اس بیماری کو پہچان لیتےتھے اور وہ جس کامیاب تشخیص تک پہنچتے تھے وہ ایک معجزے کی طرح نظر آتی ہوگی۔

ڈاکٹر جان نہ صرف ایک عظیم معالج تھے بلکہ انہوں نے قابل رشک سماجی قد بھی حاصل کیا تھا۔ وہ اب بھی ایک گھریلو نام تھے۔ کسی بھی ڈاکٹر کو اتنی وسیع شہرت اور مقبولیت نہیں ملی ہے۔ ان کی پیشہ ورانہ رائے کو حتمی قرار دیا جاتا تھا۔ اگرچہ فاضلی خاندان کا تعلق اصل میں سری نگر سے تھا جس میں پیر بھی شامل تھے، 400 سال سے زیادہ عرصے قبل غلام رسول شیوا شمالی کشمیر کے بانڈی پور کے گامرو گاؤں میں آباد ہوگئے تھے۔ ۔ چار بیٹوں میں ان کا سب سے بڑا بیٹا پیر حسن شاہ انیسویں صدی کے کشمیر ہسٹریو گرافر کے طور پر جانا جاتا ہے۔

 

انہوں نے تاریخ کشمیر کو فارسی میں چار جلدوں میں درج کیا ہے- جغرافیہ، سیاسی تاریخ، جبکہ بعد کی دو جلدیں "قرون وسطیٰ اور جدید دور کے سنتوں، رشیوں، علما اور شاعروں کے احوال کے لیے وقف کی گئی ہیں۔منظور فاضلی اپنی کتاب حسن: کشمیر ہسٹوریوگرافر میں لکھتے ہیں۔ مورخین نے حسن کو "ان 35 کھوئے ہوئے بادشاہوں کا ریکارڈ سامنے لانے کا سہرا بھی دیا ہے جو (کلہنا) اپنی تاریخ (کلہنا کی راجتارنگنی) میں شامل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔

آج بھی کشمیر ڈاکٹر علی جان کو ایک مسیحا کے طور پر یاد کرتا ہے جس نے ہزاروں افراد کا علاج کیا اور صحت مند کیا۔ اہم بات یہ تھی کہ ان کا رویہ بہت ہی مخلصانہ ہوتا تھا وہ  مریضوں کا دل جیت لیا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے عوام کے دلوں میں یادیں اور زبان پر ’حکیم لقمان ‘ کے قصے ہیں اور رہیں گے۔