‘لفظ‘ پاکستان کے خالق کو جناح کہتے تھے’غداراعظم’

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-03-2021
اگاگا
اگاگا

 

 

لیا قت علی خان نے کیا تھا ملک بدر

جائداد اور املاک کرلی گئی تھیں ضبط

کیمریج کے مردہ گھر میں پڑی رہی تھی لاش17 دنوں تک

آخر کار فروری 1951 کو لاوارث کی حیثیت سے ہوئی تھی تدفین

لاواراث قبروں کے درمیان آج بھی ایک قبرمیں امانتاً دفن ہے

 

منصورالدین فریدی ۔ نئی دہلی

لفظ ’پاکستان‘کا خالق لفظ ’پاکستان’کا خالق جب اللہ کو پیارا ہوا تو اس کا کوئی پیارا نہیں تھا۔ وہ بے وطن تھا اور بے سہارا تھا۔کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ یہی نہیں ان کی جسد خاکی سات سمندر پار برطانیہ کے کیمبرج میں سترہ دنوں تک کولڈاسٹوریج میں اپنوں کا کا انتظار کرتی رہی۔ مگر کوئی نہیں آیا۔ایسا نہیں تھا کہ پاکستان کی تشکیل کو لمبا عرصہ گزر چکا تھا تو ’ چوہدری رحمت علی‘ انہیں بھول گئے تھے۔ یہ واقعہ تشکیل پاکستان کے صرف تین سال بعد1951 کا تھا۔حد تو یہ ہوئی تھی کہ جب جنازہ اٹھنے کا وقت آیا تو کفن دفن کیلئے پیسہ بھی نہیں تھے۔ 20 فروری، 1951 کو دو مصری طلبہ کے ہاتھوں اس لاچار پاکستانی کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر بی - 8330 میں لا وارث کے طور پر امانتاً دفن کر دیا گیا جو کہ کیمبرج سمیٹری، مارکٹ روڈ پر ہے۔اب ان کی باقیات یعنی قبر کو پاکستان منتقل کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔جس کیلئے برطانیہ میں بھی مہم چھیڑ دی گئی ہے۔

کہانی لفظ پاکستان کی

دراصل چوہدری رحمت علی نے1933ء میں برصغیر کے طلبائپر مشتمل ایک تنظیم پاکستان نیشنل لبریشن موومنٹ کے نام سے قائم کی۔ اسی سال رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘شائع کیاتھا۔جس میں پہلی بار لفظ ’پاکستان’کا استعمال کیا گیا تھا۔ پاکستا ن دراصل پنجاب کے’پ‘کشمیر کے ’ک‘ اور سندھ کے ’س‘کے ساتھ بلوچستان کے ’تان’کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ 1935 میں انہوں نے کیمبرج سے ایک ہفت روزہ اخبار نکالا جس کا نام بھی پاکستان تھا۔ رحمت علی 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے چونتیسویں سالانہ اجلاس میں لاہورواپس آنا چاہتے تھے لیکن چند روز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب جناب سکندر حیات نے رحمت علی کے پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ تصور پاکستان کے حوالے سے رحمت علی اگرچہ ایک بڑا نام تھے لیکن انہوں نے بلوغت کے بعد اپنی زندگی کازیادہ تر حصہ برطانیہ میں گزارا۔

جناح نے کہا تھا ’غدار پاکستان

سال 1947میں قیام پاکستان کے بعد وہ 6 اپریل 1948ء کو لاہور واپس آئے۔لاہور آنے کے بعد وہ قیام پاکستان پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے۔ تشکیل پانے والے چھوٹے سے پاکستان سے ناخوش تھے۔جس کیلئے انہوں نے ’قائد اعظم’بننے محمد علی جناح کی مذمت شروع کردی تھی۔

یہ اختلاف اور ٹکراو اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ جناح ان کو ’غدار اعظم’کہنے لگے. رحمت علی پاکستان میں رہنا چاہتے تھے لیکن وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انہیں ملک بدر کر دیا۔ان کی جائداد و املاک ضبط کر لی گئیں۔ اکتوبر 1948 میں انہیں خالی ہاتھ برطانیہ جانا پڑا۔

awazthevoice

چوہدری رحمت علی کی شاعر مشرق علامہ اقبال کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔۔اقبال کی دائیں جانب بیٹھے ہیں  رحمت علی ۔

لاچاری اور مفلسی میں موت

 چوہدری رحمت علی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا ذکر تاریخ میں موجود ہے۔جناح کی انا اور مفاد پرستی کا شکار بنے تھے رحمت علی۔ کیمبرج میں ان کا آخری پتہ 114 ہیری ہٹن روڈ تھا،جہاں وہ ایم سی کرین کے کرائے دار تھے۔ کرین کی بیوہ کے مطابق رحمت علی اپنا خیال ٹھیک سے نہیں رکھتے تھے۔ نمونیہ میں مبتلا ہو کر شدید بیماری کی حالت میں آپ کو ایولائن نرسنگ ہوم میں داخل کرایا گیا لیکن صحت یاب نہ ہو سکے اور وہیں پر 3 فروری1951ء ہفتے کی صبح انتقال ہوا۔

قرض کا بوجھ لے گئے

مگر ان کی موت کے بعد بھی درد بھری کہانی ختم نہیں ہوئی۔کیونکہ ان کی تدفین کیلئے کوئی نہیں تھا۔ نرسنگ ہوم میں لاش سترہ دنوں تک پڑی رہی تھی۔مصری طلبہ نے ان کی تدفین کی۔ جس پر 200 پونڈ کا خرچ آیا تھا۔لفظ پاکستان کا خالق اس قرض کا بوجھ اپنے کندھوں پر لے کرچلاگیا-جسے دو سال بعد پاکستانی حکومت نے ادا کردیا تھا۔

سات دہائیوں کے بعد بھی لفظ پاکستان کا خالق دیارغیرمیں چند گمنام مقبروں کے درمیان ابھی تک امانتاً دفن ہے۔ایک تحریک پھر اٹھی ہے کہ ان کے باقیات کو پاکستان پہنچایا جائے مگر ماضی میں بھی ایسی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔اب کیا ہوگا آنے والا وقت بتائے گا۔

اب نئے ’خالق‘کی تلاش

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب تو رحمت علی کے باقیات کو برطانیہ سے پاکستان منتقل کرنے کی بات ہورہی ہے تو دوسری جانب پاکستان میں اس پر بحث چھڑ چکی ہے کہ لفظ ’پاکستان‘کا اصل خالق کون ہے۔یعنی چوہدری رحمت علی کو اس اعزاز سے محروم کیا جارہا ہے کہ لفظ ’پاکستان ‘کے وہ خْالق ہیں۔

پاکستان کے ممتاز محقیق عقیل عباس جعفری کے مطابق اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔

’’ مشہور صحافی اور ماہرِ لسانیات خالد احمد نے اپنی کتاب ’دی برج آف ورڈز‘ میں بھی لفظ پاکستان کی شروعات کے حوالے سے 2 ابواب تحریر کیے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا لفظ سب سے پہلے خواجہ عبدالرحیم نے اختراع کیا تھا جو’سابق گورنر پنجاب، خواجہ طارق رحیم کے والد تھے۔ خالد احمد کا کہنا ہے کہ انہیں یہ بات سید افضل حسین کے صاحبزادے عظیم حسین نے بتائی تھی۔

خالد احمد کے مطابق عظیم حسین کا کہنا تھا جب خواجہ عبدالرحیم لندن میں مقیم تھے تو ایک دن سر اولاف کیرو کی کتاب ’سوویت سلطنت‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی نظریں ایک نقشے پر ٹک گئیں جس میں وسطی ایشیاء کی ایک ریاست کا نام قراقل پاک ستان تحریر تھا۔ یہیں سے انہوں نے لفظ پاکستان اخذ کیا۔ خالد احمد نے اس بات کی تصدیق کے لیے سر اولاف کیرو کی محولہ بالا کتاب تلاش کی۔ انہیں اس کتاب کا 1950ء کا ایڈیشن دستیاب ہوا۔ خالد احمد کہتے ہیں کہ اس کتاب میں وہ نقشہ بھی موجود تھا اور اس نقشہ میں وہ نام بھی موجود تھا۔