تعلیمی اداروں سے دور بچے، مگر کیوں؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-08-2021
علامتی تصویر
علامتی تصویر

 


آواز دی وائس، نئی دہلی

کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے تقریباً دو برسوں سے سے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔ حالات اشارے اور حکومتی اہلکار عندیہ دے رہے ہیں کہ شاید یہ سلسلہ مزید کئی مہینوں تک چلے۔

اب سوال یہ ہے کہ اتنے طویل عرصے تک کروڑوں بچے اور لاکھوں نوجوان اپنا تعلیمی سلسلہ کیسے جاری رکھیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح نائن الیون سے پہلے اور نائن الیون کے بعد کی دنیا میں تبدیلی آئی تھی اسی طرح کورونا سے پہلے اور کورونا کے بعد کی دنیا بھی بہت مختلف ہوگی۔

ملک میں دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی واضح تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ پہلی تبدیلی فاصلاتی تعلیم ہوگی۔ ترقی یافتہ دنیا میں تو کافی عرصے سے فاصلاتی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے اب ملک میں بھی ایسا ہی ہوگا۔

اس دور میں جبکہ لوگوں کے پاس وقت بہت کم ہے، وسائل محدود ہیں، نت نئی ٹیکنالوجی اور جدید ترین آلات آ رہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہونے سے مختلف موبائل ایپس پر کلاسیں ہونے لگی ہیں، گویا اب طریقۂ تعلیم بدل رہا ہے۔

کورونا کے بعد اس بات کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جائے گا کہ لوگوں کو کلاسوں میں فزیکلی بٹھا کر پڑھانے کے بجائے ایسا سسٹم لایا جائے کہ لوگ اپنے گھر میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں، کلاسیں اٹینڈ کر سکیں، کوئی لیکچر دے اور سن سکیں، تعلیمی نظام میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔

جب سے یہ وبائی سلسلہ شروع ہوا ہے تعلیم و تحقیق کے میدان میں سب سے بڑا سوال یہ سامنے آیا ہے کہ انسانیت کی تباہی کے جتنے آلات و ہتھیار اور وسائل عالمی طاقتوں نے پیدا کئے ہیں، ان کے مقابلے میں انسانیت کو بیماری اور وبائوں سے بچانے کے لئے بڑی بڑی ایٹمی و معاشی طاقتیں اس کورونا کے سامنے ڈھیر کیوں ہوگئی ہیں۔

اس ضرورت کو بھی تعلیم کے شعبے میں خاص طور پر محسوس کیا جائے گا کہ انسانیت کی فلاح، بقا، صحت اور اس کو بیماریوں اور وبائوں سے محفوظ کرنے کے شعبے میں تعلیم اور سائنس کہاں کھڑی ہے اور اس کو کتنی ترقی کرنی چاہئے۔

اس شعبے پر توجہ دینے کے مواقع بڑھیں گے۔ تعلیم کے حوالے سے ابھی بظاہر ایسا لگ رہا ہے جب تک وبا قائم ہے تعلیم کے لئے لوگوں کو کلاسوں میں لاکر بٹھانا شاید ممکن نہ ہو، اس کے لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔

اس بارے میں تعلیمی اداروں کو سوچنا ہے کہ وہ کس طرح تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں، طلبہ کے تعلیمی سال کو بچا سکیں اور جو حفاظتی تدابیر ہیں ان کو بھی اپنایا اور ان پر عمل کیا جائے۔ یہ بھی اس موضوع کا ایک پہلو ہے۔ مثلاً عبادت گاہوں میں فاصلوں پر کھڑے رہ کر عبادت کرنا مثلاً نمازوں میں صفوں میں فاصلہ رکھنے کی پوری اسلامی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، یہ ایک نئی چیز اور نیا رجحان سامنے آیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں بھی ایسا نظام قائم کرنا ہے کہ جس میں لوگوں کا آپس میں جسمانی فاصلہ زیادہ سے زیادہ اور رابطہ کم سے کم ہو۔ اس طریقے سے تعلیم کے نظام کو منظم کرنا بھی تعلیمی شعبے کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو فوری طور پر درپیش ہے۔ موجودہ وبا کا تعلق صفائی ستھرائی سے بھی ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام میں خاص طور پر ہمارے غریب اور ترقی پذیر معاشروں میں اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، ہاتھ دھونا، اپنے آپ کو مستقل صاف ستھرا رکھنا، اس چیز کی ضرورت بھی تعلیمی نظم و ضبط میں شامل ہے، اس کو بھی بہت زیادہ محسوس کیا جائے گا اور اس کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے کہ تعلیم حاصل کرنے والے ہمارے بچے اس کا اہتمام کریں۔

آئندہ کے لئے اگر ایسی کوئی وبا یا وائرس آتا ہے تو اس سے اپنے بچائو کے لئے کون سے حفاظتی اقدامات کرنا چاہئیں، یہ بھی ایک پہلو ہے جس پر ہمارے تعلیمی نظام کو اہمیت دینا ہوگی۔

ان تمام پہلوؤں پر ہمارے اربابِ حل و عقد کو ابھی سے اور سنجیدگی سے غور و فکر کرنا ہوگا۔

اقوام متحدہ کا بین الاقوامی بچوں کا ایمرجنسی فنڈ(United Nations International Children’s Emergency Fund) اپنی حالیہ رپورٹ میں اس سلسلے میں انتہائی تشویشناک سروے پیش کیا ہے۔

یونیسف(UNICEF) کے مطابق 19 ممالک میں 156 ملین سے زائد طلباء کووڈ 19 کی وجہ سے ابھی تک مکمل اسکول بند ہونے سے متاثر ہیں۔

ان کی تعلیم میں رکاوٹ کا یہ دوسرا سال ہے، جس کا وہ مقابلہ کرنے لیے مجبور ہیں۔

یونیسف نے مزید کہا ہے کہ بچوں کے مستقبل کی حفاظت کے لیے ہمیں انہیں جلد از جلد سکول واپس لانا چاہیے۔

ماہرین تعلیم و مبصرین کا کہنا ہے کہ تعلیم کی کمی کے علاوہ ہر کمی کو پورا کر لیا گیا ہے۔ لوگوں کے تمام مسائل کا حل تو نظر آ رہا ہے ، لیکن تعلیم کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل گھر میں رہنے کے سبب بچوں میں ذہنی تناو اور دباو الگ پیدا ہوگیا ہے، ہر وقت گھر میں والدین کی نگرانی میں رہنے کے سبب بچوں کی پرائویسی اور دوستوں سے دوری نے ان کی نشو و نما پر بھی بڑے بُرے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔

اس لیے یونیسف کا کہنا ہے کہ ہمیں جلد از ان تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنا ہوگا تاکہ ہم بچوں کے مستقبل مزید تاریک وادیوں میں جانے سے روک سکیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ دنیا تعلیمی بحران سے گزر رہی ہے کیونکہ لاکھوں بچے کووڈ 19 کے وبائی امراض کی وجہ سے اسکولوں سے باہر ہیں۔

ایک ٹویٹ میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ہم تعلیمی بحران کے درمیان ہیں اور 156 ملین طلباء کووڈ 19 کی وجہ سے اسکول بند ہونے سے ابھی تک متاثر ہیں ، جب کہ ایسا مانا جا رہا ہے کہ ان میں سے 25 ملین سے زائد واپس کبھی اسکول نہیں آ پائیں گے۔

 

We are in the middle of an education crisis.

جب کہ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر عالمی وبا کورونا وائرس سے متاثرین تعداد فی الوقت 198.1 ملین سے زائد ہے ، جب کہ اموات 4.22 ملین سے زیادہ ہوچکی ہیں اور وہیں ویکسینیشن اگر بات کی جائے تو 4.11 بلین سے زیادہ لوگوں کی یہ خوراک دی جا چکی ہے۔