بریگیڈیئر محمد عثمان ۔'نوشیرہ کا شیر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-07-2021
بریگیڈیئر محمد عثمان
بریگیڈیئر محمد عثمان

 

 

 بریگیڈیئر محمد عثمان کے بارے میں فوجی مؤرخین کہتے ہیں کہ اگر وہ زندہ رہتے توہندوستان کے پہلے مسلم آرمی چیف بھی بن سکتے تھے۔ حکومت پاکستان نے بھی انہیں ملکی فوج کا سربراہ بننے کی پیش کش کی تھی لیکن انہوں نے اپنی جان مادر وطن ہندوستان پر ہی نچھاور کرنے کو ترجیح دی تھی۔

 بریگیڈیئر محمد عثمان 1948 کی ہند۔پاک جنگ کے دوران شہید ہوئے ہندوستانی فوج کے اعلیٰ ترین افسر تھے۔ انہیں ہندوستان میں سیکولرزم کی زندہ مثال قرار دیا گیا تھا۔ وہ جموں و کشمیر میں جنگ کے دوران 3 جولائی 1948ء کو جھانگر کے مقام پر پاکستان کے خلاف جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ انہیں بعد از موت ملک کا دوسرا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز مہاویر چکر بھی دیا گیا تھا۔

 نہرو نے دیا تھا کندھا

 شہادت کے بعد جب ان کی میت کشمیر سے دہلی لائی گئی تھی تو اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ہر قسم کے پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے خود ان کا تابوت وصول کیا تھا۔ ان کی نماز جنازہ کے وقت گورنر جنرل سی راج گوپال آچاری، پہلے صدرجمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد،جواہر لا ل نہرو، ملکی کابینہ کے متعدد وزراء اور آرمی چیف بھی ذاتی طور پر موجود تھے۔ ان کی نماز جنازہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے پڑھائی تھی۔

پاکستانی آرمی چیف کے ہم جماعت

 دلچسپ بات یہ ہے کہ جولائی 1912کو اس وقت کے متحدہ صوبہ جات (اب اتر پردیش) میں اعظم گڑھ کے بی بی پورگاؤں میں پیدا ہونے والے محمد عثمان، انگلینڈ کی سینڈ ہرسٹ رائل ملٹری اکیڈمی میں سن 1932ء میں داخلہ حاصل کرنے والے آخری ہندوستانی بیچ کے دس نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف محمد موسیٰ خان اور ہندوستانی آرمی چیف سیم مانک شا ان کے بیچ میٹ تھے۔سن 1935میں 23 برس کی عمر میں انہیں بلوچ رجمنٹ میں کمیشن ملا تھا۔

 پاکستان کی پیشکش کو کیا انکار

تقسیم ہند کے بعد جب بلوچ رجمنٹ پاکستانی فوج کا حصہ بن گئی، تو پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے بریگیڈیئر محمد عثمان کو پاکستانی فوج میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے ہندوستانی آرمی کو ترجیح دی جس کے بعد انہیں ہندوستانی فوج کی ڈوگرا رجمنٹ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

 جناح اور لیاقت خان نے ڈالا تھا دباو

ہندوستان کے سابق آرمی چیف اور مودی حکومت میں وفاقی وزیر جنرل وی کے سنگھ نے اپنی کتاب 'لیڈرشپ ان دی انڈین آرمی‘ میں بریگیڈیئر محمد عثمان کے بارے میں لکھا ہے، ”محمد علی جناح اور لیاقت علی دونوں نے کوشش کی تھی کہ عثمان ہندوستان میں رہنے کا اپنا فیصلہ تبدیل کر دیں۔ انہوں نے انہیں فوراً ترقی کا لالچ بھی دیا۔ لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے تھے۔ بہ طور مسلمان ان میں کسی قسم کا مذہبی تعصب نہیں تھا۔ اپنی غیر جانبداری، ایمانداری اور مساوی رویوں جیسی خوبیو ں سے انہوں نے اپنے ماتحت سپاہیوں کا دل جیت لیے تھے۔ انہوں نے بریگیڈ میں ایک دوسرے سے بات چیت کے دوران 'جے ہند‘ کہنے کی رویت بھی شروع کی تھی۔

'نوشیرہ کا شیر‘

سن 1947 میں جب پاکستان نے قبائیلوں کی شکل میں مبینہ طور پر اپنے فوجیوں کوجموں و کشمیر میں داخل کیا اور انہوں نے جھانگر اور نوشیرہ نامی علاقوں پر قبضہ کر لیا، تو بریگیڈیئر محمد عثمان کی قیادت میں ہندوستانی فوج نے بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے یہ مقبوضہ علاقے دوبارہ حاصل کر لئے تھے۔جب انہوں نے نوشیرہ کو دوبارہ واپس لے لیا، تو انہیں 'نوشیرہ کا شیر‘ کے نام سے پکارا جانے لگا اور وہ قومی ہیرو قرار پائے تھے

عثمان راتوں و رات قومی ہیرو بن گئے

نوشہرہ کی جنگ کے بعد بریگیڈیئر عثمان کا ہر جگہ نام ہو گیا اور رات و رات وہ قومی ہیرو بن گئے۔ اس خطے کے کمانڈنگ افسر، میجر جنرل کلونت سنگھ نے ایک پریس کانفرنس کر کے نوشہرہ کی کامیابی کا پورا سہرا کمانڈر بریگیڈیئر محمد عثمان کے سر باندھا۔ جب عثمان کو اس بارے میں پتا چلا تو انھوں نے کلونت سنگھ کو ایک خط لکھ کر اعتراض کا اظہار کیا۔انھوں نے لکھا کہ 'اس جیت کے لیے فوجیوں کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے جنھوں نے اتنی بہادری سے لڑتے ہوئے ملک کے لیے اپنی جان تک دے دی۔

 دس مارچ 1948 کو میجر جنرل کلونت سنگھ نے جھنگڑ پر دوبارہ قبضہ کرنے کا حکم دیا۔ اور بریگیڈیئر عثمان نے اپنے فوجیوں تک وہ مشہور حکم پہنچایا جس میں لکھا تھا 'پوری دنیا کی نگاہیں آپ کے اوپر ہیں۔ ہمارے ملک کے لوگوں کو آپ سے امیدیں ہیں اور ہماری کوششوں سے ان کی توقعات وابستہ ہیں۔ ہمیں انہیں ناامید نہیں کرنا چاہیے۔ ہم بنا خوف کے جھنگڑ پر قبضہ کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے۔ ملک آپ سے امید کرتا ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔

 پچاس ہزار روپے انعام

 پاکستان نے اس کے بعد ان کے سر پر 50 ہزار روپے کے انعام کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بریگیڈیئر محمد عثمان غالباً واحد ہندوستانی فوجی ہیں، جن کے سر کی اس دور میں پاکستانی فوج نے اتنی بڑی قیمت رکھی تھی۔

 بریگیڈیئر محمد عثمان جھانگر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے دوران پاکستانی فوج کی ایک توپ کے گولے کا نشانہ بنے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 36 برس سے بھی کم تھی۔