بھارت کا انمول رتن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-03-2021
 استاد بسم اللہ خان ۔ گنگاجمنی تہذیب کا علمبردار
استاد بسم اللہ خان ۔ گنگاجمنی تہذیب کا علمبردار

 

 

استاد بسم اللہ خان  کے یوم پیدائش پر 

۔۔  آزادی کے پہلے جشن پر بجائی تھی بسم اللہ خان نے شہنائی

۔۔ بالاجی کے مندر کی سیڑھیوں پر شروع کیا تھا ریاض

 ۔۔  شہنائی کو تھیٹر میں پس پردہ سے اٹھا کر منظر عام پر روشناس کروایا

۔۔ شہنائی کے فن کو بسم اللہ خان نے دی ایک نئی زندگی 

منصور الدین فریدی۔ نئی دہلی

استاد بسم اللہ خان یہ نام زبان پر آتے ہی آپ کے ذہین میں ایک ایسے سیدھے سادے انسان کا چہرہ آجائے گا جوہندوستان کی آزادی کے جشن میں شہنائی بجاتا نظر آیا تھا۔ جس نے ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب کی ایسی مثال پیش کی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔بنارس کی شان اور ہندوستان کی جان۔ملک کےلئے فرقہ وارانے ہم آہنگی کی ایک ایسی مثال تھے جسے یہ ملک کبھی نہیں بھلا پائے گا۔ دراصل شہنائی کا مطلب بسمہ اللہ خان بن گیا اور بسم اللہ خان کا مطلب شہنائی۔

حقیقت یہی ہے کہ موسیقی کے آلات کا جب ذکر ہو اور بات شہنائی پہ آئے تو شہنائی کا ذکر بسم اللہ خان کے ذکر کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ شہنائی کے فن کو بسم اللہ خان نے ایک نئ زندگی دی تو غلط نہ ہوگا ورنہ یہ فن بھی کئ دوسرے فن کے ساتھ اب تک ماضی کا قصہ بن چکا ہوتا ۔یہ ان کی عظیم خدمات تھیں جو شہنائی آج بھی گونج رہی ہے۔

آج بھی بان کا کوئی ثانی نہیں ۔شہنائی ان کی پہلی اور آخری محبت تھی۔ بسم اللہ خان نے شہنائی سے ایسا عشق کیا کہ سراپا شہنائی بن گئے ۔اور آج تک ان کے پائے کا دوسرا شہنائی نواز پورے برصغیر میں کوئی پیدا نہیں ہوا ۔ ہندوستان میں وہ سبو لکشمی اور روی شنکر کے بعد تیسرے بڑے موسیقار شمار کئے جاتے ہیں ۔

بسم اللہ خان ہندوستان میں شہنائی کی تعلیم اور اِس کے فروغ کے لئے فرد واحد کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ انہوں نے شہنائی کو تھیٹر میں پس پردہ سے اٹھا کر منظر عام پر روشناس کروایا۔ 1937ء میں کلکتہ میں کل ہند مجلس موسیقی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں بسم اللہ خان شہنائی میں مہارت رکھتے تھے۔ شہنائی کو ہندوستان سے باہر یورپ تک پہنچانے میں ان کا بڑا نمایاں کردار رہا۔ بسم اللہ خان کی بیوی کے انتقال کے بعد وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ: شہنائی ہی میری بیوی ہے ۔

awaz

کچھ نشانیاں جوملک کےلئے کسی خزانہ کم نہیں 

مندر سے کی تھی بسمہ اللہ

بنارس میں ان کی زندگی گزری ۔وہ زمین سے جڑے ہوئے فنکار تھے۔جنہوں نے ہمیشہ خود کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نمونہ بنایا۔وہ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس میں شہنائی کے بڑے بڑے فنکار موجود تھے۔ وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر شہنائی کو سنا کرتے تھے۔ بسم اللہ خان نے اپنے ماموں علی بحش سے شہنائی نوازی کی تعلیم حاصل کی اور پھر بعد میں بسم اللہ خان انہی کے ساتھ کاشی کے وشوناتھ مندر میں شہنائی بجانے لگے ۔چار یا پانچ برس کی عمر میں بنارس آ گئے تھے۔کسی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ بچہ بالاجی کے مندر میں ہی ریاض کرنے والے ماموں کے ہاتھوں سے ننھے ہاتھوں نے جب شہنائی تھامی تو مرتے دم تک خود سے جدا نہ ہونے دے گا۔ ۔ اور تاعمر ایسی تان چھوڑتے رہے جس سے انہوں نے شہنائی کو ایک بہت اونچے مقام تک پہنچا دیا ۔

امیر الدین سے بسم اللہ بنے

ماں باپ نے ان کانام امیرالدین خان رکھا تھا لیکن دادا نے امیرخان کو بسم اللہ میں بدل دیا اور ہاتھ میں شہنائی تھما دی۔ان کی پیدائش21 مارچ 1916 کو بہار کے گاؤں (دمراؤں) ضلع بکسر کے پیغمبربخش اور والدہ مٹھاں کے گھر ہوئی تھی۔ بسم اللہ خان کے آباؤ اجداد بھوج پور ضلع بہار کے شاہی دربار میں نقار خانہ میں ملازم بھی تھے ۔ان کے والد پیغمبر بخش خان مہاراجہ جودھ پور کے دربار میں شہنائی نواز تھے ۔اس سے پہلے ان کے پردادا استاد سالار حسین خان اور دادا رسول بخش خان بھی دومراؤں کے شاہی دربار میں گویے رہ چکے تھے ۔ چودہ سال میں ’واہ استاد‘ چونکہ موسیقی انہیں میراث میں ملی تھی، پہلی مرتبہ 14 برس کی عمر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو اہل فن نے ان کے کمالِ فن کی پیش گوئی کر دی تھی۔ جواہر لعل نہرو نے انہیں پہلی مرتبہ(استاد) کہہ کر پکارا تھا اور پھر تا حیات وہ استاد بسم اللہ کے نام سے ہی پکارے گئے ۔

سادگی کا پتلا 

اہم بات یہ ہے کہ جس انسان نے ملک کی آزادی کے پہلے جشن میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا وہ ہمیشہ خاکسار رہا۔ خستہ حال بھی رہا اور سادگی کے ساتھ زندگی گزارتا رہا۔انہیں سادگی کے سبب بھی جانا جاتا ہے ۔ استادکی سادگی کا یہ عالم تھا کہ کھانے میں صرف دال چاول پسند کرتے تھے۔زیادہ تر پیدل چلتے،کہیں دور جانا ہو تو سائیکل یا رکشہ استعمال کرتےتھے ۔انہوں نے اپنی پوری زندگی بنارس کے ایک چھوٹے سے گھر میں بسر کی جب کہ اگر وہ چاہتے تو آرام و آسائش بہت آسانی سے حاصل کر سکتے تھے ۔پوری زندگی ایسی سادگی سے گزاری کہ ایک مثال بن گئے۔

awaz

یہ ہے غریب خانہ ۔ پوری زندگی اسی میں گزار گئےاستاد

سارے جہاں سے اچھا

 ایک واقعہ کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے کہ ایک بار استاد بسم اللہ خان شکاگو یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم دینے گئے ۔ یونیورسٹی نے پیشکش کی کہ اگر استاد وہیں پہ رک جائیں تو انکے اس پاس بنارس جیسا ماحول پیدا کر دیا جائے گا ۔ وہ چاہیں تو اپنے قریبی لوگوں کو بھی شکاگو بلا سکتے ہیں ۔ وہاں مکمل انتظام کر دیا جائے گا ۔لیکن خان صاحب نے کورا جواب دے دیا ۔ بولے کہ "یہ سب تو کر لو گے میاں ۔ لیکن میری گنگا کہاں سے لاؤ گے "۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ استاد بسم اللہ خان فضائی سفر سے ڈرتے تھے۔1966 میں جب انہوں نے ایڈن برگ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی حامی بھری تو ان کی پہلی شرط یہ تھی کہ وہ ایڈن برگ جانے سے پہلے مکہ اور مدینہ جائیں گے۔

آزادی کے جشن سے

بسم اللہ خان کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ انہوں نے 1947میں ہندوستان کے یومِ آزادی کے موقع پر شہنائی بجائی تھی۔۔ اس وقت کا ایک مشہور قصہ ہے کہ ’’۔ جب ہندوستان آزاد ہونے لگا تو پنڈٹ جواہر لال نہرو کی خواہش ہوئی کہ اس موقع پہ استاد بسم اللہ خان شہنائی بجائیں گے ۔ بسم اللہ خان اس موقعے پہ شہنائی بجانے کو لے کر پرجوش ضرور تھے مگر انہوں نے پنڈت نہرو سے کہا کہ وہ لال قلعے پہ چلتے ہوئے شہنائی نہیں بجا پائیں گے ۔ نہرو جی نے ان سے کہا کہ "آپ لال قلعے پہ ایک عام فنکار کی طرح نہیں چلیں گے ۔آپ کے پیچھے میں اور پورا ملک چلے گا۔‘ اہم بات یہ رہی کہ میں جب آزادی کی پچاسویں سالگرہ منائی گئ تب بھی استاد بسم اللہ خان کو لال قلعے پہ شہنائی بجانے کی دعوت دی گئی۔

awaz

استادوں کے استاد ‘کےلئے ایک استاد کی آنکھوں میں احترام اور پیار دیکھئے

شہنائی کے ساتھ تدفین

 استاد بسم اللہ خان کو ہندوستان کے تمام بڑے اعزازات سے نوازا گیا ۔ پدم شری، پدم بھوشن، پدم ویبھوشن اور بھارت رتن سے عزت افزائی کی گئ ۔ اسکے علاوہ انہیں سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ، اور ایران کا قومی ایوارڈ کے ساتھ ہی کئ ملکوں میں اعزاز سے نوازا گیا ۔ وہ ہندوستانی موسیقی کی ایسی شخصیت ہیں جن پہ آدھا درجن سے زیادہ بہت اہم کتابیں لکھی گئ ہیں ۔ انہوں نے نوے سال کی طویل عمر پائی۔2006 میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی شہنائی بھی فاطمین قبرستان میں نیم کے درخت کے زیر سایہ ان کے ساتھ دفن کی گئی۔آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کے یہ الفاظ ہمارے کانوں میں ان کی شہنائی کی طرح گونج رہے ہے کہ  ۔۔۔۔

پوری دنیا گھومتا ہوں ۔بڑی بڑی سڑکیں اور اونچی عمارتیں دیکھتا ہوں ۔ مگرجب اپنے بنارس کا خیال آتا ہے تو گھاٹ کا منظر یاد آجاتا ہے ۔یہی یاد کھینچ کر لےواپس لے آتی ہے ہمیں۔عجیب و غریب آنند ملتا ہے۔ یہ جگہ ہی ایسی ہے۔ گنگا کے سامنے،یہاں آئیں،نہائیں اور مسجد جاکر نماز پڑھیں،میں یہی کرتا ہوں،اس کے بعد بالا جی مندر میں جاکر ریاض کرتا ہوں۔بالکل فقیر جیسی زندگی ہے ہماری۔ہندوستان کیا پوری دنیا میں گھوما ہوں مگر ایسا ماحول کہیں نہیں ملتا ہے۔

اس کو ضرور سن لیں۔۔۔۔ کیا ہے ہندوستان ۔۔ کیا کہتے تھے استاد بسم اللہ خان