بریانی ڈے اسپیشل ۔ بریانی دستر خوان کی ملکہ

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-07-2025
بریانی ڈے اسپیشل ۔ بریانی کیوں بنی دستر خوان کی ملکہ
بریانی ڈے اسپیشل ۔ بریانی کیوں بنی دستر خوان کی ملکہ

 



بریانی ڈے اسپیشل

منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

بریانی ۔  غلامی کی زنجیر بن گئی ہے بریانی، پھر بھی ایک شان ہے ،شاہی پسند کا گمان ہے ،جس کے نام پر دنیا  میں کہیں بھی بھیڑ لگ سکتی ہے ،خوشی اور غم  یعنی ہر موقع پر بریانی کی ہی حکمرانی ہوتی ہے کیونکہ کھانے کا مطلب بریانی اور بریانی کا مطلب کھانا  ہے ۔ یہ ایک ایسی غلامی کی زنجیر ہے ،جسے دنیا میں بریانی کا ہر شوقین خوشی کے ساتھ اپنے  گلے میں ڈالنے کو تیار رہتا ہے ،بس شرط یہ ہے کہ  بریانی کی شرط پوری ہو۔ بریانی خواہ مہنگے  ریستوراں میں کھائیں یا پھر سڑک کے کنارے کسی ٹھیلے پر۔ یہ ایک احساس برتری کا ضامن ہوتی ہے ۔دلی تسکین کا ذائقہ  کہہ سکتے ہیں ،روحانی  سکون کی خوشبو  بھی مان سکتے ہیں ۔ کیونکہ بریانی ،بریانی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال 6 جولائی کو  دنیا  بریانی ڈے منا تی ہے  

 یہ محض چاول اور گوشت کا امتزاج نہیں، بلکہ تہذیب ہے، روایت ہے، جذبات ہیں، اور ذائقے کا وہ جنون ہے جو نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ یہ کھانے کی ایسی دیوانگی ہے کہ پیٹ بھرنے کے باوجود انسان پلیٹ میں پڑی آخری چمچ تک ختم کرنے کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ یہی تو اس عشق کا ثبوت ہے، یہی بریانی سے آپ کی وفاداری ہے، اور اپنی وراثت سے جڑے رہنے کی گواہی بھی۔یہ حقیقت ہے کہ اب بریانی خوشی اور غم دونوں کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ بزرگ ہوں یا نوجوان، امیر ہوں یا غریب، سبھی اس کے ذائقے اور خوشبو کے سحر میں گرفتار ہیں۔ آج کھانے کا مطلب ہی بریانی بن گیا ہے۔ اس کی مقبولیت ایسی ہے کہ دسترخوان سے اٹھنے والا ہر فرد اس کے ذائقے کی تعریف کیے بنا نہیں رہ پاتا۔

بریانی کی ابتدا
تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس کے حوالے سے کئی روایات اور دعوے موجود ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں قصوں اور کہانیوں کی سرزمین پر بریانی نے بھی اپنی دلکش داستانیں رقم کر رکھی ہیں۔ یہ کہانیاں سرحد کے اِس پار بھی سنائی دیتی ہیں اور اُس پار بھی۔ لکھنؤ کے نواب ہوں یا حیدرآباد کے نظام، سب نے صدیوں تک اس کے ذائقے کو اپنی محفلوں کی شان بنائے رکھا۔ بریانی کا اصل وطن مغربی ایشیا کو مانا جاتا ہے۔ مغل کھانوں کی ماہر سلمیٰ حسین بتاتی ہیں کہ دور حاضر کے ایران میں سڑکوں پر فروخت ہونے والی بریانی میں اب چاول کا استعمال نہیں ہوتا ہے۔ اب اس کی جگہ پر گوشت کے ٹکڑوں کو رومالی روٹی میں لپیٹ کر پکایا جانے لگا ہے۔لیکن یہ ڈش دراصل ہندوستان میں پروان چڑھی جہاں اس کی رنگ برنگی اور متنوع تاریخ ہے۔
ہندوستان میں بریانی کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ پرتیبھا کرن نے اپنی 2017 کی پکوانوں کی تراکیب کی کتاب بریانی میں لکھا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پکوان فارس سے مسلمان فاتحین نے لایا تھا جنھوں نے سولہویں صدی سے ہندوستان میں سکونت اختیار کی اور حکومت کی۔
اگرچہ اس کے آغاز پر مختلف نظریات موجود ہیں، تاہم اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ پکوان مشرق وسطیٰ کی دین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1398 میں ترک و منگول فاتح تیمور جب اپنے لشکر کے ہمراہ ہندوستان آیا تو اس کے ساز و سامان میں بریانی بھی شامل تھی۔ اس زمانے میں چاول، گوشت اور مصالحے مٹی کے برتن میں ڈال کر زمین میں گڑھا کھود کر دفن کر دیے جاتے اور تندور کی طرح دہکائی گئی مٹی کی آنچ پر یہ خوراک تیار ہوتی۔ بعد میں یہ پکوان نکال کر سپاہیوں میں بانٹا جاتا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ مالابار کے ساحلی علاقوں میں آنے والے عرب تاجروں نے ہندوستانیوں کو بریانی کے ذائقے سے متعارف کروایا۔ اسی دور کی قدیم تحریروں میں تامل ادب میں ایک پکوان ’اون سورو‘ کا ذکر بھی ملتا ہے، جو دو ہزار سال قبل گھی، چاول، گوشت، ہلدی اور مصالحے ملا کر تیار کیا جاتا تھا اور سپاہیوں کی خوراک بنتا تھا۔
سب سے دلچسپ اور مشہور کہانی شاہجہاں کی ملکہ ممتاز محل سے منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ممتاز محل نے سپاہیوں کی بیرکوں کا دورہ کیا تو انہیں کمزور پایا۔ اس نے شاہی باورچیوں کو حکم دیا کہ چاول اور گوشت سے متوازن غذا تیار کی جائے۔ یوں شاہی کچن سے بریانی کی ابتدا ہوئی۔ ابتدا میں چاول کو دھوئے بغیر بھون کر پکایا جاتا تھا، پھر گوشت اور مصالحے شامل کیے جاتے اور لکڑیاں جلا کر آگ پر اسے تیار کیا جاتا۔
رفتہ رفتہ بریانی شاہی دسترخوان کی شان بن گئی اور پھر نوابوں اور امراء کی محفلوں میں اس کی مختلف اقسام نے جنم لیا۔ حیدرآباد کے نظام اور لکھنؤ کے نوابین نے اس پکوان کو اپنی پسند اور مقامی ذائقے کے مطابق ڈھالا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بریانی صرف کھانا نہیں بلکہ تہذیبی ورثہ سمجھی جاتی ہے۔
 
 
بریانی ۔  نام اور ذائقہ 
 یوں تو کہا جاتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے، مگر جب بات بریانی کی ہو تو سب کچھ اسی نام سے جڑا محسوس ہوتا ہے۔ اگر کسی ڈش کے ساتھ لفظ بریانی لگا دیا جائے تو بس سن کر ہی ہر کسی کے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔بریانی کے بارے میں مشہور ماہرِ کھاناجات سلمیٰ یوسف حسین لکھتی ہیں کہ اس لفظ کی جڑ فارسی زبان کا لفظ بریان ہے، جس کا مفہوم ہوتا ہے ’بھنا ہوا یا تلا ہوا‘۔وقت کے ساتھ بریانی نے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ سے نکل کر امریکہ اور یورپ تک کا سفر طے کیا۔ دنیا بھر میں اس کے ذائقے اور رنگ بدلتے گئے، کچھ مقامی ناموں کا اضافہ ہوا، لیکن بریانی کی پہچان اپنی اصل صورت میں برقرار رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جہاں کہیں بریانی کا ذکر ہوتا ہے، لوگ فوری طور پر اس کے منفرد ذائقے کو یاد کرنے لگتے ہیں۔
اس پکوان نے جب شہرت کی منزلیں طے کیں تو اس کی کئی جغرافیائی شناختیں بھی وجود میں آئیں۔حیدرآبادی بریانی، سندھی بریانی، میمن بریانی، بمبئی بریانی، اور کولکتہ بریانی۔ ہر علاقے نے اپنے ذوق اور دستیاب مصالحوں کے مطابق بریانی کو ایک الگ پہچان دی، لیکن دل کی گہرائیوں میں سب کے لیے یہ بریانی ہی رہی۔دنیا بھر میں بریانی کو فوڈ فٹ فار کنگز یعنی بادشاہوں کے لائق کھانا کہا جاتا رہا ہے۔ اگر بریانی کے ذائقوں اور اس کے ناموں کی فہرست تیار کی جائے تو یہ اتنی طویل ہے کہ گنتی کرنا مشکل ہوجائے۔کہا جا سکتا ہے کہ بریانی ایک ہی ہے، مگر اس کے ذائقے، نام اور انداز ہزاروں ہیں۔
مغلئی بریانی مغل بادشاہوں کی شان دار ضیافتوں کا لازمی حصہ تھی۔ ان کے کچن میں تیار ہونے والی مغلئی بریانی میں نرم اور رسیلے مرغ کے ٹکڑے، خوشبو دار کیوڑہ اور طرح طرح کے مصالحے شامل ہوتے تھے۔ اس کی مہک ہی اشتہا بڑھا دیتی تھی۔
حیدرآبادی بریانی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اورنگزیب نے نظام الملک کو حیدرآباد کا حکمران بنایا۔ نظام الملک کے باورچی پچاس سے زائد اقسام کی بریانی پکانے میں ماہر تھے۔ ان میں ہرن، بٹیر، مچھلی اور جھینگے سمیت مختلف گوشت استعمال ہوتے اور زعفران سے خوشبو دوبالا کر دی جاتی تھی۔
کلکتہ بریانی نواب واجد علی شاہ کی اختراع تھی۔ ریاست کے خزانے کی کمی کے باعث روزانہ گوشت کی فراہمی مشکل ہوئی تو نواب کے حکم پر بریانی میں سنہری تلے آلو شامل کیے گئے، جو بعد میں اس کی پہچان بن گئے۔ اس بریانی میں مصالحے کم اور ہلکی سی مٹھاس بھی شامل کی جاتی ہے۔
سندھی بریانی اپنے منفرد اور تیکھے ذائقے کے لیے مشہور ہے۔ اس میں کھٹے دہی اور آلو بخارے کے ساتھ سبز مصالحے استعمال ہوتے ہیں جو اس کا ذائقہ سب سے الگ بنا دیتے ہیں۔
دودھ کی بریانی بھی حیدرآباد کی سوغات ہے۔ اس میں ملائی والا دودھ، بھنے ہوئے خشک میوے اور خوشبودار مصالحے شامل کیے جاتے ہیں، جو اسے نہایت مزیدار بناتے ہیں۔
 

 اس سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ بریانی خواہ کسی نے بھی ایجاد کی ہو مگر اس کا مقصد کسی کی نظر میں فوجیوں کا پیٹ بھرنا تھا اور کسی کی نظر میں شاہی دستر خوان کی زینت بنانا تھا نہ کہ باراتیوں اور سوگواروں کا۔ اس کو غذائیت کا مجموعہ کہا گیا جس کو کھانے کے بعد شاہجاں کے فوجی دمدار ہوجاتے تھے اور جنگ کے ساتھ محنت کرنے کے لائق ہوجاتے تھے۔ حالانکہ اب بریانی کی تاثیر ایسی بدلی ہے کہ لوگ اس ڈش کو کھانے کے بعد محنت کرنے کے بجائے پیٹ پر ہاتھ پھیر کرسو جاتے ہیں ۔یہ وقت اور ضرورت ہے جس نے بریانی بیرکوں سے محفلوں میں پہنچا دیا ہے۔ اگر آپ تھوڑی سی توجہ سے غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہر لذیذ کھانے کی شہرت کے پیچھے کوئی نہ کوئی دلچسپ داستان ضرور چھپی ہوتی ہے۔ چونکہ ہندوستان اور پاکستان قصے کہانیوں کی سرزمین ہیں، اس لیے یہاں کے تقریباً ہر مشہور پکوان کے ساتھ کوئی روایتی قصہ جڑا ہوا ہوتا ہے جو وقت اور سرحدوں کی قید سے بہت آگے تک پھیل چکا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بہت کم کھانے ایسے ہیں جن کی مقبولیت اور تاریخ بریانی جیسی طویل، پرکشش اور رنگا رنگ ہو۔ ہندوستان اور پاکستان میں بریانی نہ صرف ذائقے کی علامت بن چکی ہے بلکہ اس کے پس منظر میں چھپی کہانیاں اس کی انفرادیت کو اور بھی بڑھا دیتی ہیں۔