بیل گچھیا مسلم لائبریری:اندھیرے میں امید کی کرن

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 06-09-2021
بیل گچھیا مسلم لائبریری:اندھیرے میں امید کی کرن
بیل گچھیا مسلم لائبریری:اندھیرے میں امید کی کرن

 


نوراللہ جاوید، کولکاتہ

بیل گچھیا ملسم لائبریری کولکاتہ شہر کے شمال میں واقع ہے۔یہاں مسلمانوں کی آبادی 40 ہزار کے قریب ہے،یہاں کی تنگ و تاریک گلیاں، گھنی آبادی ، نکاسی کا ناقص نظام اس علاقے کی پستی اور پسماندگی کی الگ کہانی بیان کرتی ہے۔،تاہم حالیہ برسوں میں بڑی تعداد میں یہاں کے نوجوان سول سروس، ٹیچرس اور دیگر سرکاری ملازمت حاصل کرکے اس بستی کی الگ پہنچان بنارہے ہیں۔

کامیابی کی یہ شرح کلکتہ شہر کے دیگر مسلم بستیوں کے مقابلے کہیں زیادہ بہتر ہے۔اس وقت مغربی بنگال سول سروس امتحانات میں جتنے یہاں کے مسلم نوجوان کامیابی حاصل کررہے ہیں کلکتہ شہر کے کسی بھی دوسرے مسلم بستی کے نوجوان اتنی بڑی تعداد میں کامیابی حاصل نہیں کررہے ہیں۔

کولکاتہ شہر میں مسلم آبادی مرکزی کلکتہ میں واقع ہے۔بیل گچھیا بستی کلکتہ شہرکے مسلم لیڈر شپ اور مسلم سیاست سے کٹی ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کے مسلم اداروں اور تنظیموں میں یہاں کی نمائندگی صفر ہے ۔مگر اس کے باوجود حالیہ برسوں میں جو تعلیمی تبدیلی آئی ہے اور یہاں کے نوجوانوں اور لڑکیوں میں تعلیم کے رجحان میں جواضافہ ہوا ہے وہ بہت ہی قابل قدر ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی کیوں کر آئی ہے۔ایک پسماندہ اور نظر انداز کردی گئی بستی کے نوجوان آگے کیوں بڑھ رہے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں یہاں کے مقامی لوگ بتاتےہیں اس میں’’ بیل گچھیا مسلم لائبریری‘‘ کا ایک بڑا کردار ہے۔

بیل گچھیا مسلم لائبریری

بیل گچھیا مسلم لائبریری کا قیام 1930میں ہوا۔لائبریری مذہبی کتابوں اور جاسوسی ناولوں اور ادبی کتابوں کا مرکز رہا ہے۔ شاہراہ کے قریب ہونے کی وجہ سے 80کی دہائی میں زیر زمین میٹرو ریلوے کےلئے بڑے پیمانے پر زمین کی کھدائی کی وجہ سے لائبریری کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور یہ عمارت زمین بوس ہوگئی۔ایک عرصے تک لائبریری بند رہی ۔

قانونی جنگ اورتعمیرنو

طویل قانونی جنگ کے بعد میٹر و انتظامیہ کولائبریری کو عمارت کی تعمیر کرانی پڑی۔ دودہائیوں سے زاید عرصے تک عمارت کے زمین بوس رہنے وجہ سے تمام کتابیں دیمک زدہ ہوگئیں اور ریکارڈ بھی تلف ہوگئے۔ریکارڈ کے تلف ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ لائبریری کے ذمہ داروں کو لائبریری کے بانیوں کے ناموں کا علم نہیں ہے۔2002میں لائبری کی جدید عمارت کی تعمیر ہوئی ۔اس کے بعد لائبریری کمیٹی نے لائبریری کے اسٹکچر اور طریقہ کار میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ۔لائبری میں مذہبی کتابوں ، جاسوسی ناولوںاور ادبی کتابوں کے علاوہ نصاب کی ٹیکسٹ بک،اور دیگر معاون کتابیں بڑی تعداد میں کا فیصلہ کیا گیا۔

اسٹڈیز سینٹر کا قیام

اس کے ساتھ ہی لائبریر ی اسٹڈی سنٹر بنایا گیاتاکہ بچے اور بچیاں یہاں آکر مطالعہ اور امتحانات کی تیاریاں کریں۔ بیل گچھیا میں زیادہ تر خاندانوں کے پاس چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں جس میں کئی ؤکئی افراد پر مشتمل افراد رہتے ہیں۔گھر میں جگہ کی تنگی مطالعہ اور امتحانات کی تیاریوں میں رخنہ ڈالتی ہے ۔۔مگر 2014میںمسلم لائبریری کی انتظامیہ نے ’’اکیڈمک آف کمپٹی ٹیو ایگزامینشن ‘‘ کے اشتراک سےمغربی بنگال سول سروس کےلئے کوچنگ کرانے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ لائبریری کی کامیابی کےلئے سنگ میل ثابت ہوا۔

سات سال میں 86 امیدوار ہوئے کامیاب

گزشتہ 7سالوں میں 86 نوجوانوں نے کامیابی حاصل کرکے حکومت بنگال کے سول سروس، مختلف سروسیس، ریلوے، بینک اور دیگر اعلیٰ عہدوں سے وابستہ ہوچکے ہیں ۔ان میں سے کئی اسسٹنٹ کمشنر ہیں اور کئی بلاک ڈیولپمنٹ کے پوسٹ پر فائز ہیں ۔اس سال بھی یہاں سے کوچنگ کرنے والے10نوجوانوں نے کامیابی حاصل کی ہےان میں سے پانچ کا تعلق بیل گچھیاسے ہے۔یہ کارکردگی کلکتہ شہر کے دیگر تمام اداروں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

کون ہیں اس کے پیچھے

بیل گچھیا مسلم لائبریری کے سیکریٹری نصیرالدین خان جلیس جو خود بھی’’ کولکاتہ ٹرام وے ‘‘ میں ملازمت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لائبریری کو اس مقام تک پہنچانے کےلئے ہم لوگوں نے کافی محنت کی ہے،ہم نے طویل جدو جہد کے بعد لائبریری کی زمین بوس ہوچکی عمارت کی تعمیر میٹرو ریلوے سے کرانے میں کامیاب ہوئے۔اس کے بعد بڑی تعداد میں لائبریری کےلئے کتابوں کی خریداری اور انفراسٹکچرکو تیار کیا گیا۔

چوں کہ حکومت سے ہمیں نہ کوئی امداد نہیں ملتا ہے اور نہ ہی مقامی آبادی کی معاشی حالت اس قدر مستحکم ہے کہ وہ اپنے خرچ پر لائبریری کو چلاسکے۔اس لئے ہم نے لائبریری کی آمدنی میں اضافہ کےلئے دو منزل کو ایک اسکول کو کرایہ پردیدیا ۔تاکہ اس سے ہونے والی آمدنی سے لائبریری کے اخراجات کو چلایا جاسکے۔

پھر2014میں ہم نے ’’اکیڈمک آف کمپٹیٹو ایگزامینشن ‘‘ سے کہاکہ آپ دوسری جگہوں پر کوچنگ چلاتے ہیں اور آپ کا مقصدتجارت نہیں ہے بلکہ مسلم نوجوانوں کی رہنمائی کرنی ہے ۔کیوں نہ آپ لائبریری کا استعمال کریں ۔جگہ ہم فراہم کریں گے اور اساتذہ آپ لائیں۔چوں کہ ہم جگہ فراہم کررہے ہیں اس لئے بچوں سے کم فیس لیں۔وہ ہماری پیش کش پر تیار ہوگئے ۔چناں چہ نے ہم نے بہت ہی معمولی 8ہزار روپے سالانہ فیس پر کوچنگ شروع کی۔

اب یہ کوچنگ سنٹر صرف بیل گچھیا کےنوجوانوں کےلئے مرکز نگاہ نہیں ہے بلکہ کلکتہ شہر کے دیگر مسلم علاقے توپسیا، مٹیابرج ، خضر پور جیسے دوردراز علاقے یہاں تک کہ جنوبی بنگا ل مشرقی اور مغربی مدنی پور کے بھی مسلم لڑکے یہاں کوچنگ کرنے کےلئے آتے ہیں۔

awaz

مسلم بھی اور غیر مسلم بھی

اس کے علاوہ ہر سال کئی غیر مسلم طلبا بھی یہاں آتے ہیں۔جلیس کہتے ہیں کہ اتنی کم فیس پر کولکاتہ شہر کا کوئی بھی ادارہ کوچنگ نہیں کراتا ہے ۔علاوہ ازیں اسی فیس میں طلبا کو کتابیں ، نوٹ بک اور دیگر ضروری سامان فراہم کرتے ہیں ۔یہاں سے کوچنگ کرکے کامیابی حاصل کرنے والوں میں ڈی ایس پی احسان قادری اور اسسٹنٹ کمشنرآف ریونیوفرح سلیم جیسے ہونہار افسران شامل ہیں۔

جلیس انصاری کہتے ہیں کہ ہماری یہ کوشش ابھی بھی بہت معمولی ہے، یہاں کام کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے، ہمارے پاس اسباب کی قلت ہے،منصوبے اورارادوں کے باوجود صرف اس لئے کام نہیں کرپاتے ہیں کہ ہمارے پاس اسباب نہیں ہے۔آمدنی کے ذرائع محدود ہیں، کلکتہ شہر کے مسلم رہنمائوں اورسرکردہ لیڈروں کے تعاون سےہم محروم ہیں، وہ کہتے ہیں کہ لائبریری کےلئے فنڈ کے حصول کےلئے گزشتہ 6سالوں سے محکمہ لائبریری کے وزیر مولانا صدیق اللہ چودھری کے پاس جارہے ہیں ، مگر وہ صرف وعدہ فردا پر ہمیں ٹالتےآرہے ہیں،لائبریری کی عمارت مستحکم ہے، ایک فلور کی گنجائش ہے،اگر ایک فلور کی تعمیرہوجاتی تویہاں اسٹڈی سنٹر بنایا جاسکتا تھامگر پولس انتظامیہ رخنہ ڈال رہی ہے وہ اس کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔نہ مقامی ممبر اسمبلی اورکونسلر بھی ہماری مدد کررہے ہیں۔

اکیڈمک آف کمپٹٹیو ایگزامینشن ڈبلیو بی سی ایس (جی ایس ٹی)آفیسر رئیس احمد کئی سالوں کی جدو جہدکے بعد بنگال سروس امتحان کامیابی حاصل کی ۔انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعدپہلے بیل گچھیا اردو ہائی اسکول میں پارٹ ٹائم ٹیچرکے طور پر پڑھایا، اس کے بعد پارا ٹیچر ہوئے اور اس بعد اسکول سروس کمیشن پاس کرکے جگتدل اسکول میں ٹیچر ہوگئے۔مگر ان کا شروع سے مقصد سول سروس پاس کرنا تھا اور 2012میں آخر کا انہیں اپنی منزل مل ہی گئی اور وہ کامیاب ہوگئے۔

سول سروس کی تیاری کے دوران اپنے تجربات اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھی غلام افضل ڈپٹی کمشنر آف ریونیو (جی ایس ٹی )کے ساتھ مل کر’’اکیڈمی آف کمپٹٹیو ایگزامینشن ‘‘ قائم کیا۔رئیس احمد بتاتے ہیں کہ ہمارا تعلق اسی بستی سے ہے ، ہمیں سول سروس کی تیاری کے دوران کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ہم نے دیکھا کہ کئی اچھے قابل لڑکے صرف رہنمائی نہیں ملنے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔

سال 2012میں ہم نے کامیابی حاصل کی اس کے فوری بعد ہی ہم نے غلام افضل کے ساتھ مل کر اس ادارے کو قائم کرنے کافیصلہ کیا اور ہمارا مقصد صاف واضح تھا کہ بیل گچھیا کے نوجوانوں کی رہنمائی کرنا اور ان کی ہرممکن مدد کرنا۔ہم نے جگہ کرایہ پر لے کر اس کی شروعات کی مگر ایک سال بعد ہمیں بیل گچھیا مسلم لائبریری کی جانب سے پیش کش آئی اور ہم نے اس کو قبول کرلیا۔اس کی وجہ سے ہمیں اپنے عزائم کی تکمیل میں بہت ہی مدد ملی اور آج نتائج ہمارے سامنے ہے۔صرف اس سال Miscellaneous service Recruitment examination 2018میں دس طلبا نے کامیابی حاصل کی ہے۔اس طرح کے نتائج لاکھوں روپے فیس لینے والے ادارے بھی نہیں دیتے ہیں۔

رئیس احمد کہتے ہیں کہ یہاں کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہے، بالخصوص مسلم لڑکیوں میں جذبہ بہت ہے، مگر والدین کی خراب معاشی حالت اور صحیح رہنمائی نہیں ملنے کی وجہ سے یہ بچے پیچھے رہ جاتے ہیں،ہماری کوشش یہی ہے کہ کوئی بھی قابل نوجوان صرف معاشی عدم استحکام کی بنیادپر پیچھے نہ رہ جائیں۔

اس لئے ہم جو فیس لیتے ہیں اس میں بھی رعایت کردیتے ہیں اور یہ خوش آئند بات ہے کہ یہاں سے کوچنگ کرنے والے نوجوان اپنی خدمات پیش کررہے ہیں اور ان میں اپنی بستی کے نوجوانوں کو آگے لے جانے کا جذبہ ہے۔رئیس احمد کہتے ہی کہ کلکتہ مسلم لائبریری کا اشتراک ہمارے عزائم کےلئے سنگ میل ثابت ہوا ہے۔ہماری کوشش ہے کہ اس کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے مگر وسائل اور جگہ کی قلت مانع ہے۔

جنید عامر کی مثال

مغربی بنگال حکومت میں اسسٹنٹ کمشنر آف ریونیوجنید عامر کا تعلق بھی بیل گچھیا سے ہی ہے اور انہوں نے بھی مسلم لائبریری سے کوچنگ کرکے کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس وقت وہکلکتہ شہر سے 250کلومیٹر دور آسنسول شہر میںتعینات ہیں۔مگر اس کے باوجود وہ مسلم لائبریری سے وابستہ ہیں اور کلاسیس کرتے ہیں ۔یہ صرف جنید عامر ہی نہیں بلکہ بیل گچھیا کے نوجوانوں کا یہی وہ جذبہ ہے جو ایک زمانے پسماندہ کہی جانے والی بستی کلکتہ کے دیگر مسلم بستیوں کو راہ دکھارہی ہے۔

ایک طرف بیل گچھیا جیسی چھوٹی بستی کی کامیابی یہ کہانی ہے تو دوسری طرف کلکتہ کے دیگر مسلم اداروں کی کارکردگی ان کے مقابلے صفر ہے ۔ کلکتہ شہر میں مسلم انسٹی ٹیوٹ بھی ہے جس کی سالانہ آمدنی 30لاکھ سے زاید ہے۔اسی طرح مغربی بنگال اردو اکیڈمی جس کو حکومت سالانہ 15کروڑ روپے گرانٹ ملتے ہیں ۔مسلم انسٹی ٹیوٹ میں تعلیمی شعبے میں کوئی بھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہے جب کہ اردو اکیڈمی جس کے پاس وسائل کی بہتات ہے اور فضول خرچی اورلایعنی کاموں میں مصرف رہنے کے الزامات لگتے رہے ہیں وہاں بھی بنگال سروس کمیشن کےلئے کوچنگ ہوتے ہیں مگر وہ بھی بیل گچھیا مسلم لائبریری کی طرح نتائج دینے میں ناکام ہے۔