اردوشاعری میں بسنت کی بہاریں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-02-2021
بنست پنچمی مناتی لڑکیاں
بنست پنچمی مناتی لڑکیاں

 

 
غوث سیوانی،نئی دہلی 

بسنت کا موسم کسے اچھا نہیں لگتا۔کھیت کھلیانوں میں ہریالی، پیڑپودوں پرنءی پتیاں اور دیدہ زیب پھولوں کی قطاریں کسے نہیں بھاتیں۔یہی سبب ہے کہ نۓ سال کی آمد کا جشن دنیا بھر میں پورے جوش وخروش سے منایاجاتاہے۔چین میں ابھی نۓ سال آغاز ہوا۔ یہ سال بھی موسم بہارکی آمد سے شروع ہوتاہے جب کہ ٹھیک اسی کے چند دن بعد ہندوستان میں بسنت پنچمی منایاجاتاہے۔
موسم بہار کی آمد پر جشن کا سماں دنیابھر میں دیکھا جاتا ہے۔خاص طور پر ایران اور سنٹرل ایشیاء میں اس کی پرانی روایت ہے جو اب بھی جاری ہے۔اصل میں نوروز ایران کا نیا سال ہے جس کی ابتدا موسم بہار سے ہوتی ہے۔ قبل اسلام سے ایران میں اس کی مقبولیت رہی ہے حالانکہ اسلامی نکتہ نظر سے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر پارسیوں کا تہوار ہے مگر ایرانیوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے جاری رکھا اورجب پارسی واہل ایران، بھارت آئے تو یہاں بھی اسے رائج کیا۔ حالانکہ یہ عام ہندوستانیوں کا تہوار نہیں بن پایا،مگر بسنت پنچمی کے روپ میں یہ یہاں بھی منایاجاتاہے۔
بسنت وبہاراور نوروز فارسی،اردواور ہندی کے شاعروں کا پسندیدہ موضوع رہاہے۔ذیل کے اشعارملاحظہ ہوں:
آئی بہار نکلے چمن میں ہزار گل
دل جو کھلا فسردہ تو جوں بے بہار گل
میر تقی میر
کنج کنج نغمہ زن بسنت آ گئی
اب سجے گی انجمن بسنت آ گئی
ناصر کاظمی
تصویر روئے یار دکھانا بسنت کا
اٹکھیلیوں سے دل کو لبھانا بسنت کا
جتیندر موہن سنہا رہبر
ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی
ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی
افق لکھنوی
جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت
کر کے مجرا شاہ مرداں کی طرف دھائی بسنت
مصحفی غلام ہمدانی
بسنتی ہوادل کو خوش ہی نہیں کرتی بلکہ پرانی چوٹ کوبھی تازہ کردیتی ہے۔شاعرکے دل کا زخم بھی تازہ ہواٹھتاہے۔جیسے اس شعر میں ہے۔
اب کے بسنت آئی تو آنکھیں اجڑ گئیں
سرسوں کے کھیت میں کوئی پتہ ہرا نہ تھا
بمل کرشن اشک
لطف بہار کچھ نہیں گو ہے وہی بہار
دل ہی اجڑ گیا کہ زمانہ اجڑ گیا
عزیز لکھنوی
بہار کا خاص تعلق جام ومیناسے بھی ہے۔ایران اور ہندوستان کے فارسی گو شاعروں کے ہاں ایسے اشعار کی بھرمار ہے جن میں انھوں نے موسم بہار میں جام ومینا کی بات کی ہے۔امیرخسرو سے حافظ شیرازی تک ایسے شعراء مل جاءیں گے۔اردومیں بھی ایسے اشعار خوب دیکھنے کو ملتے ہیں:
سرسوں جو پھولی دیدۂ جام شراب میں
بنت العنب سے کرنے لگا شوخیاں بسنت 
منیرؔ  شکوہ آبادی
پورا کریں گے ہولی میں کیا وعدۂ وصال
جن کو ابھی بسنت کی اے دل خبر نہیں
موسم بہار کے تعلق سے نظمیں اور ترانے بھی خوب ملتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اردوکے شاعروں نے کس قدر توجہ دی ہے۔جیسے
حفیظ جالندھری کا یہ "بسنتی ترانہ" دیکھیں:
لو پھر بسنت آئی
پھولوں پہ رنگ لائی
چلو بے درنگ 
لب آب گنگ
بجے جل ترنگ
من پر امنگ چھائی
پھولوں پہ رنگ لائی 
لو پھر بسنت آئی
آفت گئی خزاں کی
قسمت پھری جہاں کی
 ایک نظم میلارام وفاؔ کی ہے جس کا عنوان ہے
"بسنت کی آمد"
پھر نظر آتی ہے سبزے کی فضا میں دور تک
اور خوشبو سے مہکتی ہیں ہوائیں دور تک
جاتی ہیں قمری و بلبل کی صدائیں دور تک
نیچے اوپر آگے پیچھے دائیں بائیں دور تک
ہیں ترنم ریز یکسر شاخ و برگ و بار آج
بن گیا ہے ریشہ ریشہ تار موسیقار آج
نظیراکبرآبادی نے موسموں پر بہت سی نظمیں لکھی ہیں اور انھوں نے موسم بہار پر بھی نظم تحریرکی ہے۔ ان کی ایک نظم کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے۔
گلشن عالم میں جب تشریف لاتی ہے بہار
رنگ و بو کے حسن کیا کیا کچھ دکھاتی ہے بہار