علی مانک فان:ساتویں جماعت کی تعلیم والے ایک معمر پدم شری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-06-2021
علی مانک فان
علی مانک فان

 

 

شاہد حبیب۔ نئی دہلی

انسان کا ظاہری وجود اس کے علم اور صلاحیت کا عکاس نہیں ہوتا ۔ کسی کو صرف دیکھ کر آپ اس کے علم کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ساتویں جماعت تک پڑھے ہوئے ایک شخص کو 15 زبانوں پر عبور حاصل ہے ۔ 82 سالہ علی مانک فان اس مفروضے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لاغر اور کمزور دیکھنے والے علی مانک فان بغیر کسی اعلی تعلیم کے کامیابی کی ایسی داستان رقم کی ہے جس نے بڑی بڑی علمی شخصیات کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔

علی مانک فان کو جو اس وقت اولاوانا میں اپنی اہلیہ کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں ،تعلیم کے لئے کیرالا کے کننور بھیج دیا گیا تھا لیکن کلاس 5 کے بعد وہ باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے اور لکش دیپ جزیروں میں واقع اپنے آبائی شہر منیکوئی واپس چلے گیے ۔ وہ اچھی بصارت اور اعلی بصیرت کے بھی مالک تھے ، وہ تقریبا ہر ایسی مچھلی کو جانتے ہیں جو منیکوئی جزیرے سے دور سمندر میں آباد تھی اور ان کا مچھلیوں کے لئے گہرا مشاہدہ ایک جنوں میں تبدیل ہوگیا ، جو مچھلیوں ، ان کی اصلیت اور ان کے تعلق سے ہر چیز کے بارے میں مزید مطالعہ کرنے کے لئے جزبہ محرکہ ثابت ہوئی ۔

علی مانک فان ساتویں تک پڑھے ہوئے ہیں لیکن 14 زبانوں کو جانتے ہیں ۔ ان کی صلاحیتیں زبانوں پر عبور حاصل کرنے تک ہی محدود نہیں ہیں ۔ انہیں سمندر کی حیاتیات، سمندری تحقیق ، جغرافیہ، علم افلاک، جہازوں کو تعمیر سمیت مختلف علوم پر دست رس حاصل ہے ۔ انہوں نے مرین ریسرچ سے لے کر زراعت کے شعبوں میں بھی کام کیا ہے ۔ ان کی زیادہ تر زندگی لکش دیپ کے منیکاۓ جزیرے پر گزری ہے ۔ چودہ زبانوں پر عبور رکھنے اور دیگر کاموں میں طاق ہونے کی وجہ سے حکومت ہند نے انھیں پدم شری سے سرفراز کیا ۔ ایک چھوٹے سے قصبے سے نکل کر پدم شری کے اعزاز کو پانے تک کا سفر مانیف قان کے لئے آسان نہیں تھا ۔

بچپن سے ہی تھے کتابوں کے شوقین

لکشدیپ میں پیدا ہوئے علی مانک فان کے گاؤں میں اس وقت اسکول نہیں تھا ۔ جس کی وجہ سے ان کے والدین نے انھیں کنور بھیج دیا ۔ پانچویں کی تعلیم کے بعد وہ اپنے گھر واپس آ گیے ۔ بعد میں 1956 میں وہ کلکتہ چلے گیے جہاں مختلف مضامین کی کتابیں ان کے ہاتھ لگ گئیں ۔ کلکتہ سے واپس آتے ہوئے وہ ان کتابوں کو اپنے ساتھ لے آے ۔ علی نے بعد میں انھیں کتابوں کی مدد سے متعدد زبانیں سیکھیں ۔

علی کسی رسمی تعلیم و تربیت کے بغیر ہی ہندی، انگریزی ، ملیالم، عربی، لاطینی، فرنچ، روسی، جرمن سمیت متعدد زبانوں کے ماہر ہیں ۔ وہ سنگھلی، فارسی، تمل، سنسکرت اور اردو بھی جانتے ہیں ۔

awazurdu

جزیرے پر موجود مچھلیوں کے بھی ماہر ہیں علی

علی مانک فان مچھلیوں کے بارے میں خوب جانتے ہیں ۔انہوں نے مچھلیوں کے حوالے سے خود کو اتنا طاق کر لیا تھا کہ جزیرے میں موجود مچھلی کی ہر نسل کو جاننے لگے ۔ اسی وجہ سے انہیں 1960 میں انھیں سنٹرل مرین فشریز ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں ملازمت مل گئی ۔ اس دوران انہوں نے باریک بینی سے ریسرچ کی اور مچھلی کی ایک نادر نسل کا پتہ بھی لگایا جس کا نام انہیں کے نام پر رکھا گیا ۔

علی جہاز بنانے کا ہنر بھی جانتے ہیں 

سن 1981 میں علی مانک فان کو جہاز بنانے کے لئے عمان مدعو کیا گیا ۔ انہوں اس جہاز کی ایک نقل بنانے کا شرف حاصل ہے جو کہ کبھی سند باد استعمال کرتا تھا۔ انہیں ایک آئرش ٹم سورن نے مدعو کیا تھا جو چاہتے تھے کہ اسے بغیر دھات کے بنایا جائے۔ علی اور ان کی ٹیم نے ایک سال میں کو لکڑی اور ناریل کے چھلکے کا استعمال کرتے ہوئے 27 میٹر لمبا جہاز بنایا۔ عمان کے قصبہ سوہر کے نام پر اس کا نام "سوہر" رکھا گیا۔ ٹم اور ان کی ٹیم نے عمان سے چین تک اس پر 9000 کلومیٹر کا سفر کیا۔ باد میں اسے عمان کے میوزیم میں رکھا گیا ۔

علی مانک فان ان جہازوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں جہاز بنانے کے لئے دھات استعمال نہیں کی جاتی تھی اور اسی وجہ سے ہمیں لکڑی کا استعمال کرنا پڑا۔ اس جہاز نے عمان سے چین تک کا سفر طے لیا اور اب بھی اسے عمان کے میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔

awazurdu

علی مانک فان کی ایک اور بڑی دلچسپی قمری تقویم ہے اور انہوں نے چاند اور فلکیاتی الگورتھم پر مبنی ایک نیا کلینڈر تشکیل دیا ہے۔ کثیر الجہتی شخصیت کے مالک نے رولر موٹر والی سائیکل بھی ایجاد کی ہے اور اپنے بیٹے موسیٰ کے ہمراہ اس پر نئی دہلی کا سفر بھی کیا ہے۔ ان کی دلچسپی زراعت کے شعبے میں بھی ہے اور انہوں نے تامل ناڈو کے تیرونیلیلی میں 15 ایکڑ بنجر اراضی کو کاشت کے دیسی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے سرسبز زراعت میں تبدیل کردیا ۔ انہوں نے روایتی مواد کا استعمال کرتے ہوئے رہائشی احاطے بھی بنائے ہیں۔

علی مانک فان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں حکومت ہند نے انہیں پدم شری سے سرفراز کیا ۔ جب انہیں اس کی خبر سنائی گئی تو انھیں یقین نہیں آ رہا تھا ۔ عمر کے آخری دور میں بھی علی کو سیکھنے کا جنون ہے ۔ وہ نئی نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کے لئے آج بھی بے قرار رہتے ہیں ۔ علی نے اپنے کام اور کوشش کر بوتے اپنی کامیابی کی لازوال داستان رقم کی ہے ۔ آج علی لاکھوں نوجوانوں کے لئے ایک ترغیب اور تحریک ہیں ۔