چرچ نے تھاما ایک ٹیچر کا ہاتھ :بدل گئی کولکتہ کےغریب مسلمانوں کی زندگی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-07-2021
محمد عالمگیر کی جدوجہد کی کہانی
محمد عالمگیر کی جدوجہد کی کہانی

 

 

منصور الدین فریدی ۔ نئی دہلی

عجیب وغریب کہانی ہے۔ جس کا آغاز کولکتہ کے ایک انتہائی پچھڑے اور گندے علاقے تلجلا میں ریلوے لائن کے اردگرد بسے دارا پاڑا سے ہوتا ہے۔

 سرکاری اسکول کےایک ٹیچر نے سڑکوں پرکوڑے کے ڈھیر میں زندگی کے تار تلاش کررہے غریبوں اور خاص طور پر بچوں کو ایک نئی راہ پر گامزن کرنے کا خواب دیکھا ۔یہ تعلیم کی راہ تھی۔ مستقبل کو روشن کرنے کی راہ تھی۔

ایک مشکل مشن اور ایک بڑا خواب۔ لیکن سہارے کے نام پر کسی کا ساتھ تھا اور نہ کسی کا ہاتھ ۔

 مگر اس اسکولی ٹیچرنے ہمت نہیں ہاری۔دربدر کی ٹھوکریں کھائیں،ہاتھ پھیلائے،لوگوں کوسمجھایا ،اس مشن میں عملی طور جڑنے کی التجا کی مگر خوشیوں کے شہر کولکتہ میں اس کی آواز کو زیادہ لوگوں نے نہیں سنا۔ مگر کہتے ہیں کہ جس کا کوئی نہیں اس کا خدا ہے یارو ں ۔

 اس کے بعد اس کہانی کے دوسرے کردار کی انٹری ہوتی ہے جو ایک ’چرچ‘ تھا۔ جس نے اس اسکولی ٹیچر کے مشن کو پہلے دور سے دیکھااور پھر قریب سے پرکھا اور پھر وہ ہوا جس کی اس اسکولی ٹیچر نے امید نہیں کی تھی۔اس چرچ نے اس اسکولی ٹیچر کے مشن کو ایسا سہارا دیا کہ ایک پہل ،ایک مہم بنی اور اب ایک تحریک ۔

 اس مشن نے کولکتہ کے ہزاروں غریب بچوں اور لڑکیوں کی زندگی بدل تھی۔ کوڑے میں زندگی تلاش کرنے والے اب عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔کوئی کاروبار کررہا ہے اور کوئی ملازمت۔بستی لڑکیاں تعلیم یافتہ ہوگئیں،کوئی اسکول میں ٹیچر ہے اور کوئی کسی فرم میں چارٹرڈ اکاونٹینٹ۔کوئی بزنس کررہی ہے تو کوئی اسی مشن کا حصہ بن گئی ہے۔

جی ہاں !ہم جس کہانی کا ذکر کررہے ہیں اس کا ایک کردار محمد عالمگیر ہیں ،کولکتہ کے تلجلا علاقہ کے ایک اسکول ٹیچر اور دوسرا کردار ہے’جرمنی ‘کا رومن کیتھولک چرچ کا فلاحی ادارہ ’میسیریور‘۔ جس نے محمدعالمگیر کا ہاتھ ایسا پکڑا کہ 23 سال تک نہیں چھوڑا ۔ایک مسلمان ٹیچر کی مہم کو سات سمندر پار ایک چرچ کی ایسی مدد اس کہانی کی اصل روح ہے

آواز دی وائس  سے بات کرتے ہوئے محمد عالمگیر نے کہا کہ

’اگر اس مشن اور سفر کے دوران کسی سے مایوسی ملی ہے تو وہ خود مسلمانوں سے ملی ہے جنہوں نے ابتک اسکول اور اسپتال بنانے کی اہمیت نہیں سمجھی ہے،اچھے کام کرنے والوں کو شک کی نظر سے دیکھا ہے۔تعلیمی مشن میں مدد کرنے کے بجائے مسجد کی تعمیر کو ترجیح دی ہے،حالانکہ تعلیم کےلئے مذہب نے چین تک جانے کا حکم دیا تھا مگر مایوسی یہ ہے کہ جو کام مسلم اداروں کو کرنا چاہیے تھا وہ ایک چرچ کرگیا،وہ بھی خاموشی کے ساتھ۔۔

awazurdu

محمدعالمگیرایک پرعزم انسان 

عام طورپر سرکاری ملازمت کو آرام کی زندگی کا ضامن مانا جاتا ہے،مگر اس کہانی میں سب کچھ اس کے برعکس ہوا ہے۔ محمد عالمگیرایک سرکاری ٹیچررہے مگرتعلیم کا مشن سرکاری اسکول کے کلاس روم تک محدود نہیں رکھا ۔تعلیم کے چراغ ایسے علاقہ میں روشن کرنے کا عزم کیا جہاں ایک طبقہ کےلئے کوڑا ہی زندگی تھا ۔ کوڑا ہی ذریعہ معاش۔کوڑا ہی مستقبل ۔

محمد عالمگیر نے چالیس سال قبل ایسے طبقہ کےلئے تعلیم کی جدوجہد کی تھی ،جو سڑکوں پر کوڑا چنتے ہوئے نظر آتا ہے۔ان میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے ’جن کے کندھوں پر بڑے بڑے تھیلے ہوتے ہیں جن میں وہ پلاسٹک اورکاغذ اکٹھا کرکے کباڑی کی دوکان پر بیچتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کےلئے ایک دن میں دو وقت کا کھانا مل جانا بھی کسی تہوار کی خوشی کی طرح ہوتا ہے۔محمد عالمگیر نے اپنے مشن کےلئے ’تلجلا‘میں ’دارا پاڑہ‘ کو چنا تھا ۔جو کہ تلجلا میں ریلوے لائن کے ارد گرد آباد ہے۔ جہاں وہ خود بھی رہتے تھے ۔

تنہا شروع کیا تھا سفرمگر 

محمد عالمگیر  نے سب سے پہلے اس بات کو محسوس کیا تھا کہ ان کی زندگی کو سنوارنے میں تعلیم نے ہی سب سے اہم کردارادا کیا،اس لئے وہ پچھڑے ہوئےعلاقہ اورطبقہ میں تعلیم کے تئیں بیداری پیدا کریں تو ایک بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ 1987 میں اس مشن کا بیڑا اٹھایا ۔وہ تنہا ہی چلے تھے لیکن آہستہ آہستہ لوگ اس مہم میں جڑتے گئے،بہت جلد اس کو تحریک کی شکل دینے میں کامیابی حاصل کی۔سماجی اور فلاحی کام کومنظم طور پر انجام دینے کی مثال بن گئے۔ملک میں خواہ اتنی سراہنا نہ ملی ہو لیکن بیرون ملک خاص طور پر یورپ سے انہیں مددگار ملےجنہیں نے محمد عالمگیر کے خواب کو حقیقت میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۔

awazurdu

منظم تحریک کا آغاز

محمد عالمگیرکی پہل بہت مثالی تھی جس میں خواتین اور بچوں کی فلاح اور تعلیم سے روزگارتک کا مشن جڑا تھا ۔انہیں اس بات کا احساس بہت جلد ہوگیا تھا کہ اس کام کو بہت منظم طور پرکرنا ہوگا ۔اس لئے 1993 میں انہوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ ملکر    (Tiljala Society for Human and Educational Development)تلجلا سوسائٹی فار ہیومن اینڈ ایجوکیشنل ڈولپمنٹ

یعنی ’تلجلا شیڈ‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او)قائم کی ۔جس کا مقصد مقامی لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا تھا۔

 آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے محمد عالمگیر کہتے ہیں کہ ’میں نے اس وقت این جی او قائم کی جب لوگ اس سے اچھی طرح سے واقف نہیں تھے،میں نے محسوس کرلیا تھا کہ ایسا مشن تنہا اور غیر منظم طور پر زیادہ دنوں تک نہیں چل پاتا ہے،سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانا بہت اہم ہوتا ہےاورامدادی فنڈ کارآمد ثابت ہوتے ہیں،اسی لئے میں نے این جی او کی شکل میں اس مہم کو تحریک میں بدل دیا۔’’آج‘ تلجلا شیڈ ’کے نام پروہ لاتعداد بچوں اورخواتین کی زندگی کا نقشہ بدل چکے ہیں۔

چرچ نے دیا سہارا بنا اٹوٹ رشتہ

کولکتہ کے ایک پست علاقہ میں اس جدوجہد کے آغاز کے بعد محمد عالمگیر کوایک بڑی کامیابی اس وقت ملی۔جب دو یورپی تنظیمیں ان کے کام کی جانب متوجہ ہوئیں۔تلجلا شیڈ کے مشن کو سمجھنے کے بعد اس میں سے ایک تنظیم نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔یہ پہلا سہارا تھا جس نے محمد عالمگیر کو حوصلہ دیا۔ لیکن اس کا اہم پہلو یہ تھا کہ پہلی بڑی مدد جرمنی کے ادارے‘‘میسیریور’’ سے ملی وہ رومن کیتھولک چرچ کا حصہ ہے۔جس نے ’تلجلا شیڈ ‘ کواگلے 23 سال تک سہارا دیا بلکہ خواتین اور گائڈ کا کردار نبھایا۔

  نامی اس کیتھولک فلاحی ادارے نے کولکتہ میں تعلیم اور روزگار کی اس مہم کو بھرپور سہارا دیا اور محمد عالمگیر کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس نے ہزاروں غریب مسلمان بچوں اور خواتین کی زندگی بدل دی۔ Misereor

آواز دی وائس کو محمد عالمگیر نے بتایا کہ رومن کیتھولک چرچ نے نہ صرف مدد کی بلکہ جرمنی بلایا۔انہیں ہرممکن مدد فراہم کی۔ تعلیم سے روزگار تک کے مشن میں بہترین مشورے دئیے۔روڈ میپ دیا۔

 کوڑا چننے والوں کی تنظیم

 اس کے بعد انہوں نے اس ادارے کی مدد سے کوڑا چننے والی برادری کو’’ایسوسی ایشن آف رگ پیکرز‘‘کے پرچم تلے منظم کیا۔اس تنظیم میں انہی بچوں اورخواتین کو شامل کیا گیا۔انہیں اس بات کا احساس دلایا گیا کہ سرکاری دستاویزات کی کیا اہمیت ہے۔سرکاری اسکیموں کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس تنظیم کے کام نے سب کو متوجہ کیا۔حکومت نے بھی اس کام کو‘پیشہ’ کے طور پرتسلیم کیا۔جس کے سبب کوڑا چننے والوں کو غیرمنظم ورکرز کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے ۔انہیں‘پرویڈینٹ فنڈ’ اور ‘پینشن’کی سہولت مل سکتی ہے۔

awazurdu

تلجلا کے آس پاس کے علاقوں میں کوڑے سے قابل فروخت اشیا چن رہے لوگ

لڑکیوں کی تعلیم سے بدلی زندگی

 اس مشن میں تلجلا شیڈ کو اٹلی کی خواتین کی تنظیم ’ایٹوز‘‘کی مدد حاصل ہوئی ہے۔بقول محمد عالمگیر ایسی لاتعداد لڑکیاں ہیں جنہوں نے تلجلا شیڈ کے مشن کے تحت اپنی زندگی کو سنوارا ہے اور عزت کی زندگی جی رہی ہیں۔ تعلیم ان کےلئے روزگار کے دروازے کھول دیتیہے،زندگی بدل دیتی ہے۔اس بستی کی لڑکیا ں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول میں ٹیچر بن چکی ہیں۔ کچھ پرائیوٹ فرم میں ملازمت کررہی ہیں۔

awazurdu

تلجلا شیڈ نے متعدد لڑکیوں کی بستی کی غربت سے روزگارتک  کی راہ ہموار کی

 دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک سے جن لڑکیوں کی زندگی بنی ان میں سے ایک سلمی خاتون اب اسی مشن سے ایک ’کوآرڈینیٹر‘ کی حیثیت سے جڑ چکی ہیں۔سلمی خاتون کا کہنا ہے کہ میرے لئے بہت ہی بڑی بات ہے کہ میں اب اس مشن سے جڑی ہوئی ہیں۔اس کی ایک بہن بالی گنج سیکشا سدن میں ٹیچر ہے اور ایک بہن چارٹرڈ اکانٹینٹ ہے۔ محمد عالمگیر کا کہنا ہے کہ ایک لڑکی کی تعلیم سب سے اہم ہوتی ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں کبھی بھی اپنی اولاد کو غیر تعلیم یافتہ نہیں چھوڑے گی۔

اٹلی کی تنظیم کو تلجلا شیڈ کے مشن کا بنیادی مقصد بہت پسند آیا تھا جس میں خاص طور پر لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ روزگار سے جوڑنے کا عزم کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ بھی پچھلے بیس سال سے تلجلا شیڈ کی مدد کررہا ہے۔

نام اور دستخط کی مہم

 یہ محمد عالمگیر کی کوشش تھی کہ انہوں نے دارا پاڑا میں ہر کسی کونام لکھنے اور دستخط کرنے سے انگلش لکھنا پڑھنا اور یہاں تک کہ بولنا بھی سکھا دیا ہے۔ اس کام میں انہیں پچیس سال لگ گئے لیکن اس دوران انہوں نے لاتعداد بچوں کی زندگی کو بدل دیا۔جو مہم انہوں نے آٹھویں دہائی میں شروع کی تھی اب کولکتہ میں ’’تلجلا شیڈ‘ یعنی تلجلا سوسائٹی فارہیومن اینڈ ایجوکیشن کے نام سے ایک تحریک بن چکی ہے۔ انہوں نے ہر کسی کو تعلیم کی اہمیت

awazurdu

تلجلا شیڈ کی لڑکیاں اب فٹ بال میں بھی مہارت حاصل کررہی ہیں

والد کے مشن سے جڑگئے شفقت

 محمد عالمگیر کے بیٹے شفقت عالم،جو اب اپنے والد کےمشن سے جڑ گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابھی بھی کوڑا چننے والے بڑی تعداد میں ہیں،ہم نے ان کے اہل خاندان کو اس بات پر راضی کیا ہے کہ انہیں سرکاری اسکول میں بھیجیں ،جہاں مڈ ڈے میل دی جاتی ہے ۔ جس کے سبب انہیں بچوں کو صرف رات کا کھانا دینا پڑتا ہے۔شام کو ہم ان بچوں کو اپنے ٹیوشن سینٹرز پر لے آتے ہیں۔جہاں تعلیم کے ساتھ ناشتہ بھی کرایا جاتا ہے۔

۔ 2015 میں شفقت عالم اورتلجلا شیڈ کی ایک لڑکی مہ جبیں بیگم کو جو اب بے سہارا لڑکیوں کے لئے تلجلہ شیڈ گیان اظہر لائبریری کی کوآرڈینیٹر ہیں اٹلی کے پارلیمنٹ میں مدعو کیا گیا تھا۔ یہ ایک بڑا اعزاز تھا جس کے بارے میں شفقت کہتے ہیں کہ مجھے لڑکیوں کے حقوق کی حمایت کرنے کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ شفٹ نے کہا کہ میں نے اٹلی کے پارلیمنٹ کو اس مشن کے بارے میں بتایا تھا کہ کس طرح بچوں اور لڑکیوں کی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یو این کمیشن فار ویمن اسٹیٹس نے سال 2016 میں 9 سے 20 مارچ تک شفقت کو نیویارک آنے کی دعوت دی تھی۔

awazurdu

شفقت عالم نے اپنے والد محمد عالمگیرکے مشن کا حصہ بننا پسند کیا

کوڑا چننے سے نہیں روکا

محمد عالمگیر کا کہنا ہے کہ ہم نے بچوں کو سڑکوں سے کوڑا چننے سے نہیں روکا لیکن تعلیم کی جانب راغب کیا۔آپ یقین کریں ان بچوں کے سبب ہی سڑکوں سے کوڑا غائب ہوتا ہے۔اگر یہ بچے ایک دن سڑکوں پر نہ جائیں تو شہر کی حالت خراب ہوجائے گی کیونکہ لوگ سڑکوں پر اتنا کوڑا پھیکتے ہیں کہ ان بچو ں کی زندگی کا گزارا اسی سے ہوتا ہے۔ہم ان میں عزت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم ان کو اس کام کےلئے بھی یونیفارم اور بیچ دیتے ہیں۔دستانے مہیا کراتے ہیں۔

awazurdu

غیر ملکی مہمانوں کے سامنے ثقافتی پروگرام پیش کرتی تلجلا شیڈ کی لڑکیاں

 زندگی سنوارنے کا مشن

 تلجلا شیڈ نے متبادل روزگار پروگرام شروع کرایا۔جس کے تحت ‘‘میسیریور’’نے اسٹاف اور ٹرینگ کےلئے فنڈ مہیا کیا اور کوڑا چن کر زندگی گزارنے والوں کو مختلف کاموں اور ہنر کی تربیت دی جارہی ہے۔ یہی نہیں تربیت کے بعد انہیں قرض کی بنیاد پر مدد کی جاتی ہے جسے وہ آسان قسطوں پر ادا کردیتے ہیں۔اس پروگرام کے تحت سو فیصد لوگوں نے اپنے قرض واپس کئے جبکہ قرض حاصل کرنے کےلئے دو سو سے زیادہ درخواستیں موجود ہیں۔

 یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔متعدد لوگوں کی زندگی بن گئی۔قرض اس شرط پر دیا جاتا ہے کہ بچوں کی تعلیم اسکول میں ہوگی بلکہ منافع کے ایک حصے کو اپنے کاروبار کی پونجی میں شامل کیا جائے گا۔

 کس نے کیا مایوسں اور کیوں

 چار دہائیوں سے غریب بچوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جدوجہد کررہے محمد عالمگیر’ آواز دی وائس‘ سے کہتے ہیں کہ

اس طویل دور میں جس بات نے مجھے مایوس کیا ہے وہ مسلمانوں میں تعلیم کے تئیں نظریہ ہے۔ لوگ مسجد کی تعمیر کےلئے پیسہ دینے کو تیار ہیں لیکن اسکول اوراسپتال کےلئے نہیں ۔مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ سوچتا ہے کہ مسجد کی تعمیر ہی جنت دلا دے گی ۔

 محمد عالمگیر نے کہا کہ مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تعلیم ہی واحد راستہ ہے جو ترقی دلا سکتا ہے،بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخل کرانے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سماج کے تئیں ان کی ذمہ داری ہے۔ مسلمانوں نے ابتک کتنے اسکول قائم کئے ،یہ ہم سب جانتے ہیں،یہی ہمارے پچھڑنے کی وجہ ہے،آج اگرعیسائی کامیاب ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ جہاں بھی آباد ہوئے سب سے پہلے اسکول اور اسپتال بنائے۔جبکہ ہم ایسے کام میں ثواب جاریہ نہیں محسوس کرتے ہیں اس لئے صرف مسجد کی تعمیر کےلئے چندہ دیتے ہیں۔ 

میں نے یہاں تک سنا کہ ’این جی او’والے چور ہیں ۔مگر میں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ لوگ بھی جانتے ہیں کہ میں پہلے جہاں تھا آج بھی وہیں رہتا ہوں’لیکن میں نے جو کام یا مشن شروع کیا تھا وہ زمین سے آسمان پر پہنچ چکا ہے۔آپ دیکھئے انگریز جہاں گئے وہاں سب سے پہلے اسپتال اور اسکول بنائے۔چرچ نہیں ۔یہ انسانی خدمت کا جذبہ ہوتا ہے جو کسی بھی طرح سے عبادت سے کم نہیں ہوتا ہے۔

کورونا کے دوران خدمات

 تلجلا شیڈ کے پرچم تلے محمد عالمگیر نے ہر نازک موقع پر مدد کے ہاتھ بڑھائے ہیں ،کسی بستی میں آگ لگ جاتی ہے تو مدد پہنچائی جاتی ہے۔کورونا کے دور میں تلجلا شیڈ کے کاموں کا جائزہ لینے کے بعد ‘عظیم پریم جی ’کے فلاحی ادارے کی جانب سے پچاس لاکھ روپئے کی مدد ملی ہے جو ان کے ادارے کےلئے مدد کے ساتھ اعزاز بھی ہے۔آج یہ مہم جو محمد عالمگیر نے شروع کی تھی ایک تحریک بن چکی ہے،وہ سرکارتی اور غیر سرکاری وسائل استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت یا نظام پر تنقید کرنے کے بجائے ان راستوں کو تلاش کرنا چاہیے جو ہمیں منزل تک لیجانے میں مددگار ہوتے ہیں۔