عالمی یوم آب:: پانی بچاؤ زندگی بچاؤ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-03-2022
عالمی یوم آب:: پانی بچاؤ زندگی بچاؤ
عالمی یوم آب:: پانی بچاؤ زندگی بچاؤ

 

 

(سید منیب ( بلاگر

آج حیاتیاتی سائنس بہت ترقی کرچکی ہے لیکن اب بھی دنیا کی سب سے بڑی نعمت کے بارے میں تحقیق جاری ہے کہ زمین پر پانی کیسے آیا؟

ہم جانتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی ہے اور اس کا بڑا حصہ سمندری پانی پر مشتمل ہے جبکہ صرف 3 فیصد حصہ "صاف پانی" پر مشتمل ہے.۔واضع رہے کہ ہم انسانوں کے لیے یہ 3 فیصد حصہ ہی پینے کے قابل ہے, لیکن آج ہم اس صاف پانی کا بے دریغ استعمال کر کے اسے ناقابل استعمال بنا رہے ہیں۔

پانی انسانی زندگی میں جوہری عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اور کرہ ارض کا دو تہائی سے زیادہ حصّہ پانی پر مشتمل ہے۔ تاہم اس میں قابل استعمال پانی کا تناسب نہایت کم ہے۔انسان نے پرانے وقتوں میں یہ جان لیا تھا کہ پانی زراعت ، معیشت اور بعد ازاں توانائی کے واسطے بنیادی عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔

زمین کے کل رقبے کا 71فیصد حصّہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس میں 97فیصد پینے کے قابل نہیں۔ دنیا کے پانی کا 2% حصّہ پہاڑی تودوں میں موجود ہے جو پینے کے قابل ہے مگر اس کو نکالنا دشوار گزار عمل ہے۔ لہذا اس کے بعد دنیا کا صرف 1فیصد پانی پینے کے قابل رہ جاتا ہے۔ یہ دریاؤں، جھیلوں اور زیر زمین پایا جاتا ہے اور اسے گھٹنے کے خطرے کا سامنا ہے۔

زمین کی آبادی روزانہ 10 ارب ٹن تازہ پانی استعمال کرتی ہے۔ اس تازہ پانی کا 75 سے 90 فی صد حصّہ زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلا ایک ٹن گندم پیدا کرنے کے لیے تقریبا 1 ہزار ٹن پانی استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں گوشت کا ٹکڑا آپ کی پلیٹ تک پہنچنے میں ہزاروں ٹن پانی استعمال کر لیتا ہے۔

عالمی یوم آب یا پانی کا بین الاقوامی دن، ہر سال 22 مارچ کو منایا جاتا ہے اس کا مقصد لوگوں میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ صاف پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ا س لیے ہر اس ممکن طریقے سے فائدہ اٹھانا چاہیے کہ جس کے ذریعے غریب سے غریب تر افراد تک یہ سہولت پہنچائی جا سکے۔

بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ "ایک طرف سائنسدان کہتے ہیں کہ دنیا کا پانی ازل سے اب تک برابر ہے اور دوسری طرف پانی ختم ہوجانے کا ڈر پیدا کیا ہوا ہے تو سچ کیا ہے؟

 اس بات کا آسان سا جواب یہ ہے کہ دنیا میں "پانی" ازل سے موجود "پانی" کے برابر ہے لیکن ازل میں موجود "صاف پانی" کے مقابلے میں آج "صاف پانی" بہت کم ہے.

ہم سب پانی کا استعمال تو کر رہے ہیں، لیکن بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو صاف پانی بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہوں، مگر کیا آج بھی ہم اسی طرح پانی بنا سکتے ہیں جس طرح تقریبا 3 ارب سال پہلے پانی زمین پر وجود میں آیا؟

اس بات کا جواب 100 فیصد یقین کے ساتھ تو نہیں دیا جا سکتا لیکن ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پانی کے وجود کے بارے میں سائنسدانوں نے جو 2 نظریے پیش کیے ہیں ان کی حقیقت تسلیم کی جا سکتی ہے، سائنسدانوں کی جانب سے پیش کیے گئے نظریے درج ذیل ہیں۔

پہلا نظریہ

کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی کا زمین پر وجود ہوا

اس پہلے نظریے کے مطابق 3 ارب سال پہلے جب زمین کو وجود میں آئے ہوئے تقریبا ایک ارب سال بیت چکا تھا اور زمین آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو رہی تھی تو اس پر کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی وجود میں آیا، یاد رہے کہ زمین بھی ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس کے اسی بادل سے وجود میں آئی جس سے نظام شمسی کا سورج اور باقی سیارے وجود میں آئے

 ماضی میں زمین ایک آگ کے گولے کی طرح تھی، جس میں مختلف معدنیات بھی موجود تھے، ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ایٹم، جو مادے کا بنیادی زرہ ہے، اس وقت دوسرے ایٹم سے مل کر رشتہ بنائے گا جب اس کے آس پاس کا ماحول جس میں مخصوص درجہ حرارت اور دباؤ شامل ہے وہ ملاپ کے لیے بہتر ہوگا۔ 

شروع میں زمین بہت گرم تھی، جس وجہ سے ایٹمز آپس میں مل کر کوئی نئے مالیکیولز (ایٹمز کا مجموعہ) بنا رہے تھے، لیکن جیسے جیسے زمین ٹھنڈی ہوئی ویسے ہی مختلف ایٹمز ملے اور نئے مالیکیولز کو جنم دیا، یہ مالیکیولز بھی ایک دوسرے سے ملے اور مزید باریک مالیکیولز بنے، ان کے ملنے سے پہلا خلیہ (جانداروں کا بنیادی حصہ) جو کہ پہلا جاندار تھا فضاء میں آتش فشاں سے نکلنے والی ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس اور زمین میں موجود ہائیڈروکاربنز (ایسے مالیکیول جو ہائیڈروجن، کاربن اور آکسیجن سے مل کر بنے ہوں) خوراک کے طور پر لیتا اور اس سے توانائی حاصل کرتا رہا.

ان چھوٹے جانداروں کا ایک ہی بنیادی اصول ہے کہ ہر 20 منٹ میں ایک سے 2 ہو جانا،اسی طرح ان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور ان کی بہت سے نسلیں بھی پیدا ہوئیں، چونکہ ارتقائی عمل کا آغاز ہو چکا تھا لہذا بعد میں آنے والی نسلوں میں اپنے آباء کی نسبت تبدیلیاں آچکی تھی اور وہ فضاء میں آکسیجن گیس بنانے لگے 

ان کی آبادی کے ساتھ ساتھ آکسیجن گیس میں اضافہ ہوں اور وہ جاندار جن کی مرکزی خوراک آکسیجن نہیں بلکہ ہائیڈروجن سلفائیڈ تھی ان کی آبادی مرنے لگی اور ختم ہو گئی

آہستہ آہستہ آکسیجن گیس کی وجہ سے کرّہ ارض کے گرد "اوزون کی پٹی" بننے لگی، اس کے ساتھ ہی آکسیجن مٹی میں موجود دوسری معدنیات سے ملی اور اس کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی کا مالیکیول جس میں 2 ایٹم ہائیڈروجن اور ایک ایٹم آکسیجن کا ہوتا ہے وجود میں آیا.۔ اس عمل کو کیمیائی ریڈکشن کہتے ہیں، چونکہ ہائیڈروجن (معدنیات میں) اور آزاد آکسیجن (فضاء میں) دونوں کی وافر مقدار موجود تھی، لہذا پانی بھی تیزی سے بننے لگا اور زمین پر موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے، سورج کی روشنی تو پہلے سے موجود تھی اس لیے بادل بننے کا عمل اور بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، جس سے زمین اور ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور مختلف اقسام کے جانداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا.

دوسرا نظریہ

شہاب ثاقب کے ذریعے پانی کی زمین پر آمد بیسویں صدی میں سائنسدانوں کو شہاب ثاقب اور دمدار ستاروں کے بارے میں بہت کچھ نیا پتا چلا, ہم جانتے ہیں کہ شہاب ثاقب وہ پتھریلے مادے ہیں جو نظام شمسی کے بننے کے ساتھ وجود میں آئے اور اگر ہم انہیں سیاروں اور سورج کے بننے میں باقی رہ جانے والا کچرا کہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا.

سائنسدانوں نے زمین پر گرنے والے ان پتھروں کا مشاہدہ بھی کیا کہ آخر یہ پتھر بنے کس چیز کے ہوتے ہیں؟ ان کی جانچ سے نہ صرف ہمیں یہ زمین اور باقی سیاروں کی حالت زار کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوئی، بلکہ یہ بھی پتا چلا کہ ان میں پانی بھی موجود ہے۔

 چونکہ اس وقت تک سائنسدانوں نے نظام شمسی میں زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر پانی نہیں دیکھا تھا، لہذا اس دریافت پر وہ بہت حیران ہوگئے، سائنسدانوں نے تحقیق سے یہ بھی پتا لگایا کہ زمین کے بننے کے فورا بعد زمین پر کئی سالوں تک ان سیارچوں کی بارش ہوتی رہی اور عین ممکن ہے کہ یہ سیارچے اپنے ساتھ پانی زمین پر لائے ہوں۔

 اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ زمین پر پانی کا وجود صرف سیارچوں کی بارش سے ہی ہوا بلکہ اس پانی کا زیادہ حصہ کیمیائی ریڈکشن کی وجہ سے وجود میں آیا اور کچھ حصہ ان سیارچوں کی وجہ سے آیا.

 بہر حال ان دونوں نظریوں میں سے کسی ایک کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا، کیونکہ دونوں ہی دلائل سے ثابت ہیں زمین پر پانی کے وجود میں ان دونوں عوامل کی اپنی حثیت ہے.

 یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں پانی کیا اہمیت رکھتا ہے، ہم پانی کے بنا زیادہ سے زیادہ 5 دن تک رہ سکتے ہیں اس کے بعد ہماری موت یقینی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ صاف پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں تا کہ ہم خود بھی سکون میں رہیں اور ہماری نسلیں بھی بہتر زندگی گزار سکیں