نئی دہلی: گوالیار میں حضرت شیخ محمد غوثؒ کی درگاہ پر عرس اور دیگر مذہبی سرگرمیوں کے انعقاد کو لے کر دائر عرضی پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ عرضی مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف دائر کی گئی ہے، جس میں ان پروگراموں کے انعقاد کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
آثار قدیمہ سروے (اے ایس آئی) نے 1962 میں اس درگاہ کو ایک محفوظ یادگار قرار دیا تھا۔ پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس آر مہادیون کی بنچ کے سامنے یہ عرضی پیش کی گئی۔ عدالت نے مرکز اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر کے اس معاملے میں ان کا جواب طلب کیا ہے۔ 19 ستمبر کو عدالت نے اپنے حکم میں کہا، ’’خصوصی اجازت عرضی کے ساتھ ساتھ عبوری درخواست پر بھی مدعا علیہان کو نوٹس جاری کیا جائے۔‘‘
عرضی گزار نے ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ کے حکم کو چیلنج کیا ہے، جس نے اپنے سنگل جج کے حکم کے خلاف اپیل کو خارج کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے حکم میں کہا کہ عرضی گزار کے مطابق وہ حضرت شیخ محمد غوث کا قانونی وارث ہے۔
عرضی گزار نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ درگاہ میں گزشتہ 400 برسوں سے مختلف مذہبی و ثقافتی پروگرام منعقد ہوتے آئے ہیں، لیکن بعد میں اے ایس آئی نے اس درگاہ کو ایک محفوظ یادگار قرار دے کر ایسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ مارچ 2024 میں عرضی گزار نے اے ایس آئی کو ایک درخواست دی تھی، جس میں درگاہ میں عرس کے انعقاد کی اجازت مانگی گئی تھی، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔
ہائی کورٹ کو مرکز کے وکیل نے بتایا تھا کہ حضرت محمد غوث کی درگاہ کا تحفظ اور دیکھ ریکھ اے ایس آئی کر رہا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ محمد غوث کا مزار گوالیار میں واقع ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک مرکز کے زیرِ تحفظ یادگار ہے اور 1962 میں قومی یادگار قرار دیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ اس احاطے میں موسیقی کے عظیم فنکار تان سین اور محمد غوث کی قبریں موجود ہیں۔
ہائی کورٹ نے کہا، ’’اصل میں یہ اے ایس آئی اور ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی اہمیت کی اس یادگار کو انتہائی احتیاط اور سختی کے ساتھ محفوظ رکھے۔‘‘ اپیل کو خارج کرتے ہوئے، ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ عرضی گزار نے اے ایس آئی کے مارچ 2024 کے اس حکم کو چیلنج نہیں کیا تھا، جس میں ان کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔