مجاہد آزادی کا ثبوت مانگنے پرناراض ہوئے تھے ڈھلون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
فائل فوٹو
فائل فوٹو

 

ایک مجاہد آزادی کی توہین کا معاملہ۔
آزادہند فوج کے معروف جنگجولفٹننٹ کرنل گربخش سنگھ ڈھلوں کو کون نہیں جانتالیکن سرکاری مشنری کی بے حسی کا یہ عالم تھا کہ اس نے تمغہ دینے کے نام پر ڈھلون سے کہا، یہ ثابت کریں کہ آپ مجاہدِآزادی رہے ہیں۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ملک کی آزادی کو 25 سال مکمل ہونے کو تھے۔ ملک میں آزادی کے بعد ایک مختلف قسم کا جوش و جذبہ، اس لئے بھی تھا کہ حال ہی میں بھارت نے 1971 کی جنگ میں پاکستان کو شکست دی تھی اور ہندوستان کی مدد سے جنوبی ایشیاء میں بنگلہ دیش نامی ایک نیا ملک ابھرا تھا۔آزادی کی پچیسویں سالگرہ منانے کے لئے مجاہدین آزادی کی ایک فہرست بنائی جارہی تھی۔
جن حریت پسندوں نے ملک کے لئے سب کچھ نچھاور کردیا تھا، ان کا بے حد احترام لوگوں کے دلوں میں تھا، لیکن آزاد ہند فوج کے جنگجوؤں کاعوام کے ذہنوں میں ایک الگ مقام تھا۔
خاص طور پر، دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد، برطانوی حکومت نے ملک کی آزادی کے لئے میدان جنگ میں اترنے والے تین جنگجوؤں، میجر جنرل شاہنواز خان، لیفٹیننٹ کرنل گربخش سنگھ ڈھلون اور کرنل پریم سہگل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تھی۔ تاہم، ان تینوں کو ملک کے عوام سے بے حد احترام ملا اور پھر آزادی ملنے کے بعد، لیفٹیننٹ کرنل گربخش سنگھ ڈھلون، مدھیہ پردیش کے گوالیار میں آباد ہوگئے تھے۔
 
ان دنوں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی، کانگریس کے پرکاش چندر سیٹھی ہواکرتے تھے۔ آزادی کی سلور جوبلی مناتے ہوئے حکومت نے حریت پسندوں کو تمغے دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیفٹیننٹ کرنل گربخش سنگھ ڈھلون کو تمغہ دینے سے متعلق معاملے میں حکومتی مشینری نے انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا تھا۔لیفٹیننٹ کرنل ڈھلون کی سالگرہ کے موقع پر 6 فروری 2010 کو منعقدہ ایک تقریب میں، ان کی بیٹی امریتا جی نے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا، 1972-73 کی بات ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت کی طرف سے، اس وقت کے وزیر اعلی کے دفتر سے ایک خط آیا تھا، جس میں یہ لکھا تھا کہ آپ کو حکومت کی طرف سے تمغہ دیاجاناہے۔ آپ ثابت کریں کہ آپ مجاہد آزادی ہیں اور آپ نے خودجدوجہد آزادی میں  حصہ لیا ہے۔لال قلعے کے مقدمے کی وجہ سے، ڈھلون ایک ایسے شخص بن چکے تھے، جسے ملک کا بچہ بچہ جانتا تھا۔ اس وقت، ملک کا نعرہ تھا۔ ”لال قلعے کی آواز سہگل،ڈھلون،شاہنواز۔“
 
ایسی عظیم شخصیت سے اگر ریاستی حکومت اس کے مجاہد آزادی ہونے کی تصدیق کراتی ہے تو پھر اس کے غصے کا اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ امریتا جینے بھی اپنے خطاب میں کہا، ”پتاجی یہ سننے کے بعد بہت افسردہ ہوئے اور میرے پاس
آئے۔ تب میں گوالیارمیں تھی۔ وہ مجھے بتانے لگے کہ دیکھو کیا خط لکھا ہے۔ مجھے اس کا جواب دینا ہے۔“
آزاد ہند فوج کا وہ جنگجو، جس نے ملک کی آزادی کے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی ہو، اِس بار اس نے اپنا غصہ کاغذ پر اتارا۔ امریتا جی کہتی ہیں،میں نے ایک دن دیکھا کہ وہ کچھ لکھ رہے ہیں اور پھاڑ رہے ہیں اور پھینک رہے ہیں اور جب میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں معزز وزیر اعلیٰ کو شاعری کی شکل میں جواب دے رہا ہوں۔ جب ان کی نظم ان کی خواہش کے مطابق تیار ہوگئی تو انہوں نے اسے چیف منسٹر کے دفتر کوبھیج دیا۔ لیفٹیننٹ کرنل ڈھلون نے ریاستی حکومت کو کچھ اس طرح جواب دیاتھا:
کبھی میں بھی تھا ملک کا اِک سپاہی 
قلعہ لال دہلی کا دے گا گواہی
ہماری تھی تلوارکی دھار کیسی؟
 جوانوں کے نیتاکی للکارکیسی
بڑے رزم کی تھی وہ یلغار کیسی؟
جئے ہند نعروں کی جے کار کیسی
تھا فرمانِ نیتا چلو دہلی
تم مجھے خون دو میں دونگاتمہیں دہلی
 وہیں جہاں آج اندراہے رانی 
کری جس نے تھی بنگال کی بان بانی 
نہیں آج انگریزگدی کے اوپر
ہمارے ہی لیڈرہمارے ہیں سر پر
مگر خودپرستی کے چکر میں آکر
ہمیں سے ہماری رضا مانگتے ہیں 
عجب کمسنی ہے یہ کیا مانگتے ہیں 
دماغی غلامی نہیں ہے گوارا
نہیں سرجھکانا کبھی سر کو پیارا
میرادیش ہے یہ میں کہتاجبھی ہوں 
میرا دیش ہے، میں یہاں اجنبی ہوں 
میں بھی تھا کبھی دیش کا اک سپاہی 
وہ جو لڑے وطن کے لئے
دوگز زمیں نہ ہودفن کے لئے
میرا دیش ہے یہ میں کہتاجب ہی ہوں 
جواب میں یہ نظم لکھنے کے بعد، لیفٹیننٹ کرنل ڈھلون نے نیچے ایک تبصرہ لکھا تھا:
آپ نے میری رضا مانگی ہے،پہچان مانگی ہے۔ جب ملک کو میری پہچان کی ضرورت ہے تو، مجھے آپ کے تمغے کی ضرورت نہیں۔
ان کے جواب کا یہ اثر ہوا کہ بعد میں پولس کمشنرنے خود آکر تمغہ پیش کیا