کشمیر پر افغانوں کا حملہ: ظلم و جبر کی ناقابل فراموش داستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 07-09-2021
 کشمیر پر افغانوں کا حملہ: ظلم و جبر کی ناقابل فراموش داستان
کشمیر پر افغانوں کا حملہ: ظلم و جبر کی ناقابل فراموش داستان

 

 

ثاقب سلیم، نئی دہلی

چودھویں صدی عیسوی کے مشہور عرب اسکالر ابن خلدون نے 'مقدمہ بن خلدون' میں لکھا ہے کہ ماضی مستقبل سے مشابہ ہے، ٹھیک اسی طرح سے جیسے پانی پانی سے مشابہ ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا حکمت کی روشنی میں ہندوستان کو افغانستان کی نئی حکومت 'طالبان' کے معاملے میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہئے۔

یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ طالبان کشمیر میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائیں گے کیوں کہ یہ اس علاقے کی تاریخ سے متصادم والی بات ہوگی۔

اٹھارہویں صدی عیسویں میں افغانوں نے کشمیر پر حملہ کرکے وہاں کی ایک بڑی آبادی کو ختم کر دیا تھا۔

اپنے سیاسی غلبےکے تقریباً نصف صدی کے دوران، افغانوں نے کشمیروں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے، نہ صرف انہیں تنگ دستی میں مبتلا کیا بلکہ بے شمار افراد کو اپنا غلام بھی بنا لیا۔

کشمیر میں افغانوں نے اس قدر ظلم ڈھایا تھا کہ آج بھی کشمیر کے رہنے والے باشندے ان یادوں کو دوہرانے سے گریز کرتے ہیں۔

افغان کے ذریعہ خطے کی بدحالی کا تذکرہ اس فارسی میں شعر میں بیان کیا گیا ہے:

پرسیدم از خرابی گلشن زِ باغبان

افغان کشید گفت کی افغان خراب کرد

یعنی میں نے باغبان سے باغ کی تباہی کی وجہ دریافت کی تو باغبان نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ یہ سب افغانوں نے کیا ہے۔

اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب مغلیہ سلطنت نے افغانوں کو شکست دینی شروع کی تو اس زمانے میں نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کی نظریں ہندوستان کی دولت جمی ہوئی تھیں۔

افغانوں کی جانب سے کئے گئے حملے اور یلغار کی باتیں آج بھی لوک کہانیوں کا حصہ ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ مغلیہ سلطنت کے زمانہ میں کشمیریوں کو ہمیشہ افغان حملے کا خطرہ بنا رہا۔

احمد شاہ ابدالی نے 1748ء میں کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے عصمت اللہ خان کو بھیجا۔

افراسیاب خان کی قیادت میں کشمیری فوج نے افغان فوج کا کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ اس جنگ کو کشمیری فوج نے جیت لیا جب کہ افغان فوج کا کمانڈر عصمت اللہ خان مارا گیا۔

تاہم احمد شاہ ابدالی نے فریب سے کام لیتے ہوئے افراسیاب خان کے نوکر کو رشوت دے کر انہیں زہر دلوانے میں کامیاب ہوگیا، جس کے نتیجہ میں کشمیر میں انارکی پھیل گئی۔

افراسیاب خان کے قتل کے بعد سیاسی صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دو کشمیری خواجہ ظاہر دیدامری اور میر مقیم کانٹ نے احمد شاہ ابدالی سے رابطہ کیا۔

ان کا خیال تھا کہ ابدالی کشمیر پر حملہ کریں گے تو انہیں سیاسی فائدہ مل جائے۔

اگرچہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ واقعتاً وہ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے اور نہ اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ ان نادان کشمیریوں کی یہ دعوت کشمیر کو وحشیانہ مظلم کے دور میں داخل کردے گی، جس سے وہ کبھی نکل نہ سکیں گے۔

سن 1753ء میں افغان فوج نے عبداللہ خان اشک عکاسی کی قیادت میں کشمیری فوج کے ساتھ مقابلہ کیا۔ پندرہ دنوں تک جاری رہنے والی اس جنگ میں کشمیریوں کو شکست ہوئی اور عبداللہ خان اشک عکاسی کشمیر کا گورنر بن بیٹھا۔ جب کہ کشمیر کا گورنر گرفتار کر کابل بھیج دیا گیا۔

اس کے بعد آئندہ پانچ ماہ تک کشمیر میں عبداللہ خان عکاسی کی قیادت میں لوٹ مار ہوتا رہا۔

انیسویں صدی میں کشمیر کی آبادکاری کے تعلق سے کمشنر والٹر لارنس(Walter Lawrence) نے اپنی کتاب 'وادی کشمیر' (Kashmir Valley)میں ان پر ہونے والے ظلم کو 'وحشیانہ ظلم' قرار دیا ہے۔

افغانوں نے تاجروں اور رئیسوں کویکجا کیا، انہیں پیسہ دینے کے لیے مجبور کیا، جن لوگوں نے ان کے ساتھ مزاحمت کرنی چاہی وہ مارے گئے۔ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور بعض اوقات لوٹ مار کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے پورے خاندان کو مار ڈالا گیا۔

جلیل نامی ایک امیر مسلمان تاجر کو دولت چھپانے کے جرم میں گرم لوہے کی سلاخوں کے پیچھے بند کرکے تشدد کیا گیا۔

وہیں ایک شخص قاضی خان اور ان کے بیٹے کو ایک ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا گیا؛کیونکہ انہوں نے اپنی محنت کی کمائی افغانوں کو دینے سے انکار کیا تھا۔

اس کے نتیجے میں کشمیر کے کاشت کار تباہ ہو گئے، تاجروں کو نقل مکانی کرنی پڑی، دکانیں بند کر دی گئیں اور خواتین کو حراست میں لے کر ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔

پانچ ماہ بعد جب عکاسی کو یقین ہو گیا کہ وادی سے مزید کچھ نہیں نکالا جا سکتا تو انھوں نے عبداللہ خان کابلی کی گورنری میں تباہ شدہ 'جنت' چھوڑ دی۔

عبداللہ خان کابلی بھی کوئی اچھا اآدمی نہیں تھا۔

اس وقت عبدالحسن بانڈے کی قیادت میں ایک مزاحمتی تحریک افغان حکومت کے خلاف کشمیریوں کو متحرک کر رہی تھی۔

کابلی کے چیف ایڈوائزر سکھ جیون مل نے بانڈے کی مدد اور پھر کابلی کو قتل کر دیا گیا۔

سکھ جیون مل نے خود کوکشمیریوں کا راجہ قرار دیا اور بانڈے کو اپنا وزیراعظم بنا لیا۔

تاہم یہ کئی دہائیوں سے جاری افغان حملوں کا محض آغاز تھا۔

سنہ 1762ء میں نور الدین بامزئی کی قیادت میں افغانوں نے سکھ جیون مل کو شکست دے دی اور آئندہ نصف صدی تک یہ وادی افغان تسلط میں رہی۔

اس کے بارے لارنس نے لکھا ہے: ' پٹھان (افغان) حکمرانوں کو اب صرف اپنی بربریت اور ظلم کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پھول توڑنے سے زیادہ سر کاٹنے میں یقین رکھتے تھے۔'

سر بریدان یش ان سنگین دلان گلچیدان است

کشمیر اوربے گناہ شہریوں نے میر مقیم اور خواجہ ظاہر کی بے وقوفانہ حکمت عملی کی قیمت ادا کی۔

انہوں نے اپنے مفاد کے لیے وادی کو بس کے نیچے دھکیل دیا۔

تاریخ ہمیں سبق سکھاتی ہے کہ غلطیاں نہ دہرائیں، ورنہ تاریخ افسانے سے مختلف نہیں ہے۔

ہمیں سوچنا چاہئے کہ کسی بھی میر مقیم کی خود غرضی کی بنا پر اس بار وادی کشمیر کو جلانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔