کیا ہے وقف ترمیمی بل ۔ کیا ہیں بڑی تبدیلیاں

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 15-09-2025
کیا ہے وقف ترمیمی بل ۔ کیا ہیں بڑی تبدیلیاں
کیا ہے وقف ترمیمی بل ۔ کیا ہیں بڑی تبدیلیاں

 



نئی دہلی : آواز دی وائس

وقف ترمیمی بل پر قانونی جنگ نے ملک میں ہر کسی کی توجہ مرکوز کر لی ،ترمیمی بل سے سپریم کورٹ میں قانونی جنگ تک زبردست اتار چڑھاو آئے ، بحث جاری رہی کہ حکومت کیا چاہتی ہے اور کیوں چاہتی ہے۔ اس کا مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوگا اور کیا نہیں ۔ پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ تک ملک نے ایک بڑی بحث دیکھی اور سنی ۔بہر حال قانون کا فیصلہ آحری ہوتا ہے ۔ جو سب کے لیے قابل قبول رہتا ہے ۔ آپ کو بتاتے ہیں کہ وقف ترمیمی بل میں کیا تھا ۔ اس کے سرکاری طور پر کیا فائدے بیان کئے گئے تھے ۔کیوں مسلم فریق کو اس پر اعتراض تھا۔ نیا وقف بل ہندوستان میں وقف جائیدادوں اور ان کے نظم و نسق سے متعلق قوانین میں نمایاں تبدیلیاں متعارف کراتا ہے۔ اس کا مقصد موجودہ نظام کو زیادہ شفاف، جوابدہ اور عملی بنانا ہے۔ ذیل میں بل کے اہم نکات اور تبدیلیاں پیش کی جا رہی ہیں:

وقف کے اعلان سے متعلق نئی شرائط

  • صرف وہی شخص کسی جائیداد کو وقف قرار دے سکتا ہے جو کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہو۔
  • جائیداد کو وقف کرنے والے شخص کا اس جائیداد کا مالک ہونا ضروری ہوگا۔
  • موجودہ قانون کی وہ شق ختم کر دی گئی ہے جس کے تحت کسی جائیداد کو صرف طویل عرصے کے مذہبی استعمال (وقف بائی یوزر) کی بنیاد پر وقف قرار دیا جا سکتا تھا۔
  • وقف کے اعلان سے کسی بھی وارث، بشمول خواتین، کے وراثتی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔
  • کوئی بھی سرکاری زمین وقف قرار نہیں دی جا سکے گی۔
  • وقف بورڈ کے پاس اب کسی جائیداد کو وقف قرار دینے یا اس کی تحقیق کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔

وقف کونسل اور بورڈز کی تشکیل میں تبدیلیاں

  • 1995 کے وقف ایکٹ کے مطابق، بورڈز میں صرف مسلمان ممبران شامل ہوتے تھے اور ان میں کم از کم دو خواتین کا ہونا لازمی تھا۔
  • نئے بل میں شرط رکھی گئی ہے کہ بورڈ میں کم از کم دو غیر مسلم ممبران ہوں گے، اور مسلم اراکین میں سے کم از کم دو خواتین شامل ہوں۔
  • ریاستی حکومتوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ وقف بورڈ میں ایم پی، ایم ایل اے یا ایم ایل سی کو نامزد کر سکیں، اور یہ ضروری نہیں کہ نامزد افراد مسلمان ہوں۔
  • اگر کسی ریاست میں بوہرا اور آغاخانی برادری کا وقف موجود ہو تو ان کے نمائندوں کو بھی بورڈ میں شامل کیا جائے گا۔
  • نئے بل کے مطابق، ریاستی وقف بورڈ میں بھی کم از کم دو خواتین کا ہونا لازمی ہوگا۔

وقف تنازعات کے حل کا نیا نظام

  • موجودہ قانون کے تحت وقف ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا اور اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نئے بل میں اس شق کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف 90 دن کے اندر ہائی کورٹ میں اپیلدائر کی جا سکے گی۔

حکومت کا مؤقف

اقلیتی امور کے وزیر کیرن رجیجو، جنہوں نے لوک سبھا میں یہ بل پیش کیا،تو ان کا کہنا تھا  کہجب یہ قانون بنے گا تو کروڑوں غریب مسلمان وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کریں گے