کیا کہتا ہے دیوبند یکساں سول کوڈ کے معاملہ پر؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-07-2021
دارالعلوم دیو بند
دارالعلوم دیو بند

 

 

دیوبند ۔ فیروز خان

ملک میں یکساں سول کوڈ کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آ گیا ہے،اترپردیش میں ہونے والے 2022کے اسمبلی الیکشن کے مد نظر جہاں بھگوا تنظیمیں ہائی کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملہ کو ہوا دینے کی کوششوں میں مصروف ہو گئی ہیں۔وہیں علماء دیوبند کا کہنا ہے کہ یونیفارم سول کوڈکے غیر مسلم بھی مخالف ہیں، ہندوؤں کا مذہبی طبقہ بھی اس سے اتفاق نہیں رکھتا۔سوائے موجودہ حکومت و ایک خاص طبقہ کے جو اسے نافذ کرنے کے لیے ذہن سازی کی پوری کوشش کررہا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے شعبہ دارالافتاء کے ناظم مولانا معین الدین قاسمی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ”یونیفارم سول کوڈ“ مذہبی تعلیمات سے متصادم ہے، اس کے نفاذ کے بعد عائلی اور شخصی زندگی میں قرآن و سنت کی ہدایات سے دستبردار ہونا پڑے گا، اور ایک ایسے قانون کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں مذہب کی مقرر کی ہوئی حدیں مٹ جائیں گی اور فرد کی شخصی زندگی سے حلال و حرام کا وجود ختم ہوجائے گا، مسلمان اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ ان قوانین کے ذریعہ اپنی عائلی اور شخصی معاملات و مسائل کا حل نکالیں جن کا ہر قدم پر مذہب سے ٹکراؤ ہوتا رہے۔

معروف دینی درسگاہ جامعتہ الشیخ حسین احمد مدنی خانقاہ دیوبند کے مہتمم مولانا مزمل علی قاسمی نے کہا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس کے اندر سبھی لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔سیکولرزم کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ ہندوستان میں ”یونیفارم سول کوڈ“ نافذ کیا جائے، جن لوگوں نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے، انھیں یکساں شہری قوانین کے نفاذ کے خلاف مسلم رائے عامہ کی وجہ سمجھ میں نہیں آسکتی اور جو لوگ مسلمانوں کی مذہب سے وابستگی کا علم نہیں رکھتے وہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مسلم رائے عامہ اس مسئلہ پر کتنی مضبوط ہوسکتی ہے لیکن مسلمانوں کی مذہب سے بھرپور وابستگی اور اسلامی تعلیمات کی وسعت انھیں اجازت نہیں دیتی کہ وہ شخصی زندگی کے مذہبی قوانین سے دست بردار ہوں، کیوں کہ یہ مذہبی قوانین بھی دین کا ایک اہم حصہ ہیں، اور ان کی بنیاد بھی اسی طرح قرآن و سنت میں موجود ہے جس طرح نماز، روزہ اور دوسری عبادات کی۔

معروف دینی درسگاہ جامعہ قاسمیہ داراتعلیم والصنعہ کے مہتمم مولانا ابراہیم قاسمی نے کہا کہ ہائی کورٹ کی جج جسٹس پرتبھا سنگھ نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے،سپریم کورٹ بھی یہی کہتا ہے،لیکن ایسا ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ ملک میں سبھی مذاہب اور ذات برادری کے لوگ رہتے ہیں اور سبھی کو اپنے مذہب کے حساب سے زندگی گزارنی ہے،ملک کا آئین اور ہمارا مذہب بھی یہی کہتا ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔انہوں نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ، قومی یک جہتی کا ذریعہ نہیں بن سکتا،بلکہ قومی انتشار کا ذریعہ ضرور بن سکتا ہے۔اس لئے تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کے بعد ایسا قانون بنایا جانا چاہئے جس سے ملک میں آباد تمام مذہبی، تہذیبی اور لسانی اکائی اپنی انفرادیت کو محفوظ سمجھے اوروہ قانون کے دائرہ میں رہ کر ملک کے استحکام اور ترقی میں پرسکون، باعمل شہری کی حیثیت سے حصہ لے سکیں۔