نئی دہلی : آواز دی وائس
ہندوستان میں وقف جائیدادیں مذہبی، سماجی اور تاریخی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف عبادت گاہوں اور مذہبی اداروں کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں بلکہ یہ جائیدادیں تعلیمی، طبی اور سماجی فلاحی منصوبوں میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ تاہم، ناجائز قبضے، تنازعات اور قانونی پیچیدگیاں ان جائیدادوں کے مؤثر استعمال میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر ان مسائل کو شفافیت اور مضبوط قانونی ڈھانچے کے ذریعے حل کر لیا جائے تو وقف جائیدادیں ہندوستانی مسلمانوں اور مجموعی طور پر ملک کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
ملک میں وقف ترمیمی بل کے سبب وقف املاک توجہ کا مرکز ہیں ،جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن بیشتر ریاستوں میں ابھی تک وقف املاک کا بنیادی سروے بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ ان جائیدادوں کی ترقی نہ ہونے کے باعث وہ خطیر آمدنی جو کمیونٹی کی فلاحی اسکیموں کے لیے حاصل کی جا سکتی تھی، ہر سال ضائع ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ وقف املاک پر بڑے پیمانے پر قبضے(Encroachment) بھی پائے جاتے ہیں۔ ڈبلیو اے ایم ایس آئی پورٹل پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 30 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور 32 بورڈز نے اطلاع دی ہے کہ 8.72 لاکھ جائیدادیں ہیں، جن کا رقبہ 38 لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے۔ 8.72 لاکھ جائیدادوں میں سے 4.02 لاکھ جائیدادیں صارف کے ذریعہ وقف ہیں۔ باقی وقف املاک کے لیے، 9279 کیسوں کے لیے اونر شپ رائٹس اسٹیبلشنگ دستاویزات (ڈیڈز) ڈبلیو اے ایم ایس آئی پورٹل پر اپ لوڈ کیے گئے ہیں اور صرف 1083 وقف ڈیڈز اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔
وقف جائیدادوں کی وسعت اور مالیت
اقلیتی امور کی وزارت کے مطابق، ملک بھر میں وقف بورڈز کے پاس 8.7 لاکھ جائیدادیں ہیں جو تقریباً 9.4 لاکھ ایکڑ زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان جائیدادوں کی تخمینہ مالیت 1.2 لاکھ کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ یہ جائیدادیں مختلف ریاستوں میں موجود ہیں اور اپنی وسعت کے لحاظ سے یہ ادارہ ہندوستان کی معیشت اور سماجی بہبود دونوں کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
وقف اسٹیٹس اور جائیدادوں کی تقسیم
ہندوستان میں کل 3,56,051 وقف اسٹیٹس درج ہیں، جن میں سب سے زیادہ اتر پردیش میں پائے جاتے ہیں۔ وقف بورڈز کے تحت 8,72,328 غیر منقولہ جائیدادیں رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے صرف اتر پردیش میں ہی 1.2 لاکھ سے زائد جائیدادیں ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں 16,713 منقولہ جائیدادیں بھی وقف کے تحت آتی ہیں، جن کی اکثریت ٹاملناڈو میں ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وقف جائیدادیں محض عبادت گاہوں یا مذہبی اداروں تک محدود نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر زمین اور وسائل پر مشتمل ہیں
تنازعات اور ناجائز قبضے
وقف جائیدادوں کا ایک بڑا مسئلہ ان پر ناجائز قبضے اور تنازعات ہیں۔ اس وقت ملک بھر کی عدالتوں میں وقف جائیدادوں سے متعلق 40,951 مقدمات زیرِ سماعت ہیں، جن میں سے تقریباً 10,000 مقدمات خود مسلمانوں نے وقف انتظامیہ کے خلاف درج کروائے ہیں۔ موجودہ قانون کے مطابق، ان تنازعات کو عام عدالتوں میں لے جانا ممکن نہیں، جس کی وجہ سے ان کے حل میں غیر معمولی تاخیر پیدا ہوتی ہے۔ نتیجتاً وقف جائیدادوں سے حاصل ہونے والے وسائل کا مؤثر استعمال رکاوٹوں کا شکار رہتا ہے۔
وقف اور تاریخی ورثہ
وقف جائیدادیں صرف زمین یا املاک تک محدود نہیں بلکہ کئی مشہور تاریخی عمارات بھی وقف کی ملکیت میں شامل ہیں۔
دہلی کی جامع مسجد دہلی وقف بورڈ کے تحت ہے۔
مغل دور کی مشہور یادگار فتح پور سیکری، جہاں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کا مزار ہے، بھی وقف کی ملکیت ہے۔
لکھنؤ کا بڑا امام باڑہ بھی وقف املاک میں شامل ہے۔
تاہم بعض تاریخی عمارتوں پر وقف اور آثارِ قدیمہ کے محکمے (ASI) کے درمیان تنازعات بھی سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر، اتر پردیش سنی وقف بورڈ نے تاج محل کو وقف جائیداد قرار دیا، مگر آثارِ قدیمہ کے محکمے نے اس کی سخت مخالفت کی۔ سپریم کورٹ نے وقف بورڈ سے دستاویزی ثبوت طلب کیے، لیکن وہ فراہم نہ ہو سکے۔ دہلی میں بھی کئی مقامات پر ایسے تنازعات دیکھنے کو ملتے ہیں، جیسے صفدر جنگ کا مقبرہ، پرانا قلعہ، نیلا گنبد، حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مزار کے قرب و جوار کی عمارتیں اور جمالی کمالی مسجد و مقبرہ۔
ملک بھر میں وقف کی املاک پر ایک نظر
ہندوستان میں وقف جائیدادیں مذہبی، سماجی اور تاریخی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف عبادت گاہوں اور مذہبی اداروں کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں بلکہ یہ جائیدادیں تعلیمی، طبی اور سماجی فلاحی منصوبوں میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ تاہم، ناجائز قبضے، تنازعات اور قانونی پیچیدگیاں ان جائیدادوں کے مؤثر استعمال میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر ان مسائل کو شفافیت اور مضبوط قانونی ڈھانچے کے ذریعے حل کر لیا جائے تو وقف جائیدادیں ہندوستانی مسلمانوں اور مجموعی طور پر ملک کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہیں۔