سرینگر: متحدہ مجلسِ علماء (ایم ایم یو)، جو جموں و کشمیر کی مسلم مذہبی تنظیموں کا اتحاد ہے، نے منگل کو کہا کہ سپریم کورٹ کا وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم نامہ اس قانون سے جڑے وسیع آئینی اور مذہبی خدشات کا حل نہیں کرتا۔
سپریم کورٹ نے پیر کو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی کچھ اہم دفعات پر روک لگائی تھی، جن میں وہ شق بھی شامل ہے جس کے مطابق صرف وہی شخص وقف بنا سکتا تھا جو پچھلے پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہو، لیکن عدالت نے پورے قانون پر روک لگانے سے انکار کر دیا اور آئین کے تحت قانون کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا۔
میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی مجلسِ علما نے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کا وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم، اگرچہ کچھ دفعات پر روک لگاتا ہے، لیکن اس قانون سے اٹھنے والے بڑے آئینی اور مذہبی خدشات کو حل نہیں کرتا، جس سے برادری میں بے چینی اور عدم اطمینان ہے۔ مجلسِ علما نے کہا کہ وقف صرف جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک مذہبی امانت اور "اللہ کی خدمت" ہے۔ "
ان مقدس اوقاف پر مسلمانوں کے اختیار کو کم کرنے یا ان کے تاریخی تحفظ کو ختم کرنے کی کوئی بھی کوشش برادری کے لئے ناقابلِ قبول ہے اور یہ آئین میں درج ان اصولوں کے خلاف ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی امور چلانے کا حق دیتے ہیں۔" بیان میں کہا گیا: "عدالت نے جزوی طور پر عبوری ریلیف دیا ہے جو ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن یہ کافی نہیں۔"
تنظیم نے کہا کہ قانون کی کئی دفعات اب بھی سنگین تشویش کا باعث ہیں، جن میں 'وقف بہ استعمال' کے دیرینہ اصول کو ختم کرنا شامل ہے۔ یہ اصول صدیوں سے قائم مساجد، خانقاہوں، قبرستانوں اور برادری کے اداروں کی بنیاد رہا ہے جو مسلسل استعمال کی بنیاد پر وقف کے طور پر تسلیم کیے گئے، چاہے کوئی تحریری دستاویز موجود نہ رہی ہو۔ وقف نامے کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے، کیونکہ اکثر دستاویزات گم ہو گئیں یا کبھی موجود ہی نہیں تھیں۔
اس شرط کے باعث ان جائیدادوں کو ان کے مقدس وقار سے محروم کیے جانے کا خطرہ ہے۔ مزید کہا گیا کہ سروے کے اختیارات آزاد کمشنروں سے لے کر ضلع کلیکٹروں کو دینا غیر جانبداری کو نقصان پہنچاتا ہے اور ریاست کو مذہبی امانتوں پر حد سے زیادہ اختیار دیتا ہے۔