نئی دہلی ۔ آواز دی وائس
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ چار ماہ قبل 22 مئی کو تین روزہ سماعت کے بعد محفوظ رکھا گیا تھا۔ چیف جسٹس بی۔ آر۔ گوائی کی سربراہی والی بینچ نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد یہ قدم اٹھایا تھا۔پیر کے روز آنے والا عبوری حکم تین بڑے قانونی اور عملی مسائل پر مرکوز ہوگا، جو سماعت کے دوران اٹھائے گئے تھے۔
پہلا مسئلہ:سپریم کورٹ یہ طے کرے گا کہ کیا وہ جائیدادیں، جنہیں کسی عدالت نے استعمال یا رسمی دستاویز کی بنیاد پر پہلے ہی وقف قرار دے دیا ہے، انہیں مقدمے کے حتمی فیصلے تک ڈی نوٹیفائی کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ عدالت اس بات کو واضح کرے گی کہ کیا حتمی فیصلے سے قبل ایسی کارروائی کی گنجائش ہے۔
دوسرا مسئلہ:ترمیم شدہ دفعات کے تحت، اگر کلیکٹر یہ تحقیق کر رہا ہے کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا سرکاری زمین، تو تحقیق جاری رہنے کے دوران اس جائیداد کو وقف اراضی نہیں مانا جائے گا۔ سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے گا کہ کیا مقدمے کی سماعت مکمل ہونے تک یہ ترمیمی ضابطہ نافذ العمل رہے یا نہیں۔
تیسرا مسئلہ: یہ معاملہ وقف بورڈ اور مرکزی وقف کونسل کی تشکیل سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا قانون صرف مسلم اراکین کو ہی ان اداروں میں تقرری کی اجازت دیتا ہے، سوائے ان عہدوں کے جو ایکس آفیشیو (ex-officio) بنیاد پر ہوتے ہیں، اور کیا ایسی پابندیاں آئینی حقوق اور اصولوں کے تناظر میں قانونی طور پر برقرار رہ سکتی ہیں
یہ رپورٹ آپ نے بہت تفصیل اور وضاحت کے ساتھ لکھی ہے۔ میں اسے خبر/رپورٹ کے اخباری اور ادبی معیار کے مطابق تھوڑا مرتب اور جاذبِ نظر انداز میں پیش کر دیتا ہوں تاکہ اشاعت کے لیے موزوں ہو:
مرکزی حکومت کی جانب سے منظور شدہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 پر شدید تنقید کے بعد اس کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ ان میں سے صرف پانچ عرضیوں کو عدالتِ عظمیٰ نے سماعت کے لیے قبول کیا ہے، اور ستمبر کے آخر تک اس ضمن میں فیصلہ متوقع ہے۔ عرضی گزار پرامید ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔
سماعت کے لیے منظور شدہ درخواست گزاروں میں جمعیت العلماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری محمد فضل الرحیم، منی پور نیشنل پیپلز پارٹی کے ایم ایل اے شیخ نورالحسن، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و رکن پارلیمان اسد الدین اویسی اور ممبئی کے سماجی کارکن محمد جمیل مرچنٹ شامل ہیں۔
محمد جمیل مرچنٹ، جو عوامی فلاحی خدمات کے لیے جانے جاتے ہیں، مہاراشٹر سے واحد درخواست گزار ہیں۔ وہ دو مساجد کے ذمہ دار بھی ہیں اور ماضی میں بی جے پی لیڈر نتیش رانے کی نفرت انگیز تقریر اور رام گری مہاراج کی جانب سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کے خلاف بھی درخواستیں دائر کر چکے ہیں۔ جمیل مرچنٹ نے اپنی درخواست سماعت کے لیے قبول کیے جانے پر کہا تھا:
"میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے اویسی اور دیگر اہم شخصیات کے درمیان ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کا موقع ملا ہے۔"
ان کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں وزارت داخلہ، وزارت اقلیتی امور اور وزارت قانون و انصاف کو فریق بنایا گیا ہے۔ وکیل اعجاز مقبول اور وکیل برہان بخاری نے بطور وکلائے صفائی مقدمہ پیش کیا۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی دفعات کو غیر آئینی قرار دیا جائے، یا پھر عدالت ایسے احکامات جاری کرے جو حالات کے مطابق مناسب ہوں۔ اس ضمن میں کے ایس پٹسوامی بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 نے وقف ایکٹ 1995 کی جگہ لے لی ہے اور اب اسے ’’یونیفائیڈ مینجمنٹ ایمپاورمنٹ ایفیشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ‘‘ (UMEED) کہا جا رہا ہے۔ نئے ایکٹ کے تحت وقف بورڈ میں غیر مسلم افراد کی نمائندگی لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری جائیدادوں کو وقف کے زمرے سے خارج کرنے اور وقف جائیداد کے تعین و انکوائری کے اختیارات مرکزی حکومت کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی
سپریم کورٹ جن عرضیوں پر عبوری فیصلہ سنائے گا وہ دراصل پارلیمنٹ کی جانب سے منظور شدہ وقف ایکٹ میں بڑے پیمانے پر کی گئی ترمیمات کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے داخل کی گئی تھیں۔
عرضی گزاروں میں شامل ہیں:
اور دیگر متعلقہ فریقین بھی۔