وارانسی : کیوں ہے غیاث الدین کی پگڑی گنگا جمنی تہذیب کی علامت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-03-2023
وارانسی : کیوں ہے غیاث الدین کی پگڑی گنگا جمنی تہذیب  کی علامت
وارانسی : کیوں ہے غیاث الدین کی پگڑی گنگا جمنی تہذیب کی علامت

 

اریبہ اشرف: وارانسی

میری دلی خواہش ہے کہ میرے ہاتھ کی بنائی ہوئی پگڑی ہمارے وزیر اعظم‌ نریندر مودی جی اور وزیر اعلیٰ آدیتیہ یوگی ناتھ جی پہنیں"

اس خواہش کا اظہار محمد غیاث الدین نےکیا، جن کی روایتی اکبری پگڑیاں ہولی سے قبل  نہ صرف وارانسی یا بنارس میں سرخیوں میں رہتی ہیں۔ لیکن اس کا ایک پہلواور بھی ہے جس کے سبب  حاجی غیاث الدین کا خاندان توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ دراصل ملک بھر میں اس کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پہلو بھی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ کیونکہ محمد غیاث الدین کی تیار کردہ  پگڑی بابا وشواناتھ کو پنہائی جاتی ہے ۔رنگ بھری اکادشی کے موقع پر بابا وشوناتھ ایک خاص پگڑی پہنتے ہیں اور ماں گورا کی چادر لینے جاتے ہیں۔ جہاں سے کاشی میں ہولی شروع ہوتی ہے۔یہ ایک روایت ہے ،ایک رسم ہے لیکن پگڑی غیاث الدین کے خاندان کی تیار کردہ ہی ہوتی ہے۔ جسے اس فن پر کئی نسلوں سے مہارت حاصل ہے ۔تقریبا ڈھائی سو سال سے یہ خاندان ان پگڑیوں کے ہنر سے روزگار حاصل کررہا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ بنارس ہمیشہ اپنی گنگا جمنی تہذیب کے لیے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس کے گھاٹ پر صدیوں سے پیار و محبّت کے گیت گائے جاتے رہے ہیں ۔ یہاں ہندو مسلم اتحاد کا پرچم  اونچا رہتا ہے۔ یہاں الگ الگ مذہب کے لوگ ہونے کے باوجود سارے ہی تہوار سبھی لوگ مل جل کر مناتے ہیں۔ اگر آپ کا تعلق بھی بنارس سے ہے تو بے شک آپ ان مختلف مذہبی رسومات سے واقف ہوں گےکہ یہاں لوگ نہ صرف اپنے تہوار منانے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ دیگر مذہبی تہوار میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔

خاندان بنا تہوار کا حصہ 

 غیاث الدین کا خاندان اب اس تہوار کا حصہ ہے، جسے وارانسی میں ایکا دیشی کہا جاتا ہے۔لالہ پورہ میں مقیم محمد غیاث کی فیملی 250 سالوں سے رنگ بھری ایکادشی کے موقع پر بابا وشوناتھ کے لئے اکبری پگڑی بناتی آ رہی ہے, یہی پگڑی پہن کر بابا وشوناتھ گوری جی کی وداعی لے کر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاجی غیاث کی فیملی لڈّو گوپال کے لئے بھی پگڑی تیار کرتی ہےجبکہ عام دنوں میں  شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لیے بھی پگڑی تیار کرتی ہے۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ اس تہوار کا ہمیں انتہائی بے صبری کے ساتھ انتظار رہتا ہے جو سلسلہ مارے بزرگوں نے شروع کیا تھا اسے جاری رکھنا ایک ذمہ داری ہے بلکہ اعزاز بھی۔

نسلوں کی مہارت ہے

وہ آواز دی وائس کو بتاتے ہیں کہ میرے پردادا حاجی چھیدی اس فن کو اپنے ساتھ لکھنؤ سے لائے تھے۔ جب اسے یہاں کے رسم و رواج کی سمجھ آئی تو وہ کاشی کے ہی ہوگئے۔ اس کے بعد ہم آہنگی کے جذبے سے  بابا وشواناتھ کو پہلی بار پگڑی پیش کرنے کی پیشکش کی تو اسے قبول کرلیا۔

وقت گزرتا گیا اور حاجی چھیدی کے بعد ان کے بیٹے حاجی عبدالغفور نے روایت کی باگ ڈور سنبھالی۔ پھر محمد ظہور سے ہوتا ہوا حاجی غیاث احمد تک پہنچا۔ یہ رواج اب ایک روایت میں بدل گیا ہے، جو صرف حاجی غیاث تک محدود نہیں ہے۔ اب ان کے چار بیٹے منور علی، عبدالسلام، محمد۔ کلیم، محمد۔ شاہد اور پوتے محمد۔ توفیق سمیت پورا خاندان پگڑی تیار کرنے میں مصروف ہیں ۔غیاث الدین کی اہلیہ آمنہ بانو ہیں۔ غیاث الدین کا کہنا ہے کہ 'ہم سب مل کر پگڑیاں بناتے ہیں، کوئی کپڑا کاٹتا ہے، کوئی سلائی کرتے ہیں، کوئی پتھر لگانے کا کام کرتے ہیں۔

غیاث الدین کا کہنا ہے کہ اس شاہی پگڑی کو ریشمی کپڑا، زری، گوٹا اور گتے لگا کر تیار کیا جاتا ہے اور اسے تیار ہونے میں ایک ہفتہ لگتا ہے۔ بابا وشوناتھ کی بنائی ہوئی پگڑی کو اکبری پگڑی کہا جاتا ہے اس لیے یہ انمول ہے کیونکہ کوئی لاکھ روپے دے تب بھی ایسی پگڑی کسی کی نہیں بنتی۔ ان کا خاندان یہ کام خدمت کے جذبے سے کرتا رہا ہے۔ انہیں جو بھی معاوضہ ملتا ہے، وہ اسے تبرک سمجھ کر لیتے ہیں۔

دلوں کو ملاتا ہے 

 وہ کہتے ہیں کہ ہم بھولےناتھ کی خدمت کرتے ہیں۔ ہم ہندو مسلم کو الگ نہیں سمجھتے، سب کچھ ہمارا خونی رشتہ ہے، لوگ بات تو کرتے ہیں گنگا جمنی تہذیب کی لیکن ہم لوگ ثابت نہیں کرتے ہیں کہ ہندو مسلم کا خونی رشتہ ہے ۔ بقول غیاث الدین وہ نہ صرف اس کام سے بہت خوش ہیں بلکہ وہ اس روایت کو دلوں کے قریب لانے کا ذریعہ بھی مانتے ہیں, ان کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہمیشہ سے یہی تھی اور رہے گی بھی کہ ہندوستان میں اور خصوصی طور سے بنارس میں گنگا جمنی تہزیب بنی رہے اور لوگ ہمیشہ مل جل کر رہیں۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ ہر سال رنگ بھر ایکادشی کا بڑی بےصبری سے انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ بابا وشو‌ناتھ کے لئے پگڑی تیار کر سکیں۔