وقف معاملہ :جمعیۃ علماءنے کیادہلی ہائی کورٹ سےرجوع

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 16-09-2022
وقف معاملہ :جمعیۃ علماءنے  کیادہلی ہائی کورٹ سےرجوع
وقف معاملہ :جمعیۃ علماءنے کیادہلی ہائی کورٹ سےرجوع

 

 

نئی دہلی  : جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے دہلی ہائی کورٹ میں اپنی جوابی عرضی میں بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کے ذریعہ وقف ایکٹ 1995 سے متعلق پی آئی ایل کی شدید مخالفت کی ہے۔ واضح ہو کہ ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے وقف ایکٹ 1995 کی مختلف دفعات کے آئینی جواز کو چیلنج کیا ہے۔چیف جسٹس ستیش چندر شرما اور جسٹس سبرامنیم پرساد پر مشتمل ایک ڈویژن بنچ نے آج نوٹس جاری کرکے سینٹرل وقف کونسل و دیگر متعلقہ اداروں سے جواب طلب کیا ہے، اس معاملے کی اگلی سماعت 4 نومبر کو ہو گی۔

جمعیۃ علماء ہند کی عرضی میں کہا گیا ہے اشونی اپادھیائے کی پی آئی ایل ناقابل التفات اور غیر معقول ہے، اس لیے مثالی جرمانہ کے ساتھ اسے خارج کردیا جائے۔’’ موجودہ رٹ پٹیشن سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مقننہ عدلیہ کے ماتحت ہے، حالاں کہ وہ دونوں خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، جمہوریہ ہند کے مساوی ستون ہیں۔جمعیۃ کی عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ پی آئی ایل اس حقیقت سے نابلد ہے کہ یہ مسئلہ ہندوستان کے آئین میں صرف مرکزی فہرست کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ کنکرنٹ لسٹ کا معاملہ ہے جہاں ریاستیں قانون سازی، ایگزیکٹو اور انتظامی کارروائیوں کے ذریعے وقف کے معاملے کو منظم کرتی ہیں۔’’

اگر اس معزز عدالت کی طرف سے اس سلسلے میں اگر کوئی بھی حکم جاری کیا جائے گا،تو مختلف ریاستوں میں واقع تمام ریاستی وقف بورڈس متاثر ہوں گے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس مرحلے پر اس معاملے کی آئندہ کارروائی روک دی جائے اور اشونی اپادھیائے کی عرضی خارج کردی جائے، اس حقیقت کے پیش نظر کہ پٹیشنر نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل نہیں کیا ہے اور اس کی نیت بھی مشکوک ہے۔

اپادھیائے نے جمعیۃ کی عرضی پر اعتراض کرتے ہوئے حقیقت کے برعکس دعویٰ کیا کہ’’ جمعیۃ علماء ہند ایک علیحدگی پسند تنظیم‘‘ ہے، جو تین طلاق، تعدد ازدواج وغیرہ جیسے مسائل کی حمایت کرتی ہے۔اپنیPIL میں، اپادھیائے نے ٹرسٹ اور ٹرسٹیز، خیراتی اداروں اور مذہبی اوقاف و اداروں کے لیے یکساں قانون کا مطالبہ کیا ، انھوں نے وقف ایکٹ 1995 کی دفعات 4، 5، 6، 7، 8، 9، 14  کی مخالفت کی ہے جو ان کے مطابق واضح طور پر من مانی اور غیر معقولیت پر مبنی ہیں۔

اپادھیائے نے مرکز یا لاء کمیشن آف انڈیا کو ہدایت دینے کی عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ آرٹیکل 14 اور 15 کی روح کے مطابق 'ٹرسٹ-ٹرسٹیز ، چیریٹیز-خیراتی اداروں کے لیے یکساں ضابطہ' کا مسودہ تیار کرے اور اسے عوامی بحث اور رائے کے لیے شائع کرے۔

واضح ہو کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایڈوکیٹ ایم آرشمشاد نے جوابی عرضی داخل کی ہے ، اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے قانونی معاملات کے ذمہ دار مولانا نیاز احمد فاروقی نے کہا کہ اشونی اپادھیائے نے ماضی میں بھی کئی غیر سنجیدہPILs دائر کی ہیں اور ان کے اپنے مقاصد ہیں۔"کم از کم دو مواقع پر، عزت مآب چیف جسٹس آف انڈیا نے  ان کو فضول درخواستیں دائر کرنے پر سرزنش کی ہے۔ اپادھیائے نے ہندوستان میں مسلمانوں سے متعلق تقریباً تمام سول قوانین کو چیلنج کرنے والی لاتعداد درخواستیں دائر کررکھی ہیں اور وہ اپنی درخواستوں کے سلسلہ وار عمل کے ذریعہ مسلمانوں ہراساں کرنے کا کام کرہے ہیں۔اس لیے عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ ان کی بری نیتوں کا بھی جائزہ لیا جائے ۔