نئی دہلی
ملک میں کورونا کے غیر معمولی بحران سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں ، سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز مرکزی حکومت سے لاک ڈاؤن نافذ کرنے ، ضروری ادویات کی عدم دستیابی ، ریاستوں میں آکسیجن تقسیم کی حیثیت اور ویکسین کی قیمتوں سے متعلق حکومتی منصوبوں پر سوال کئے ۔
گذشتہ ہفتے عدالت عظمی نے آکسیجن سپلائی ، ادویات کی فراہمی اور کورونا سے متعلق حکومت کی مختلف پالیسیوں کا جائزہ لیا۔ یہ ملک میں کووڈ 19 کیسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی روشنی میں تھا۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز ملک میں کوو ڈ 19 کے 3،86،452 نئے کیسز سامنے آے اور 3498 اموات کی اطلاع ملی۔
اس کیس کی سماعت جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ ،جسٹس ایل این راؤ اور جسٹس ایس آر بھٹ کی بنچ نے کی ۔ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت میں مرکز سے پوچھا کہ کیا وہ کوویڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے کے لئے لاک ڈاؤن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عدالت عظمی نے اپنے اہم فیصلے میں ریاستوں ، مرکز اور تمام ڈی جی پیز کو ہدایت کی کہ وہ آکسیجن ، بستر یا ڈاکٹروں کی کمی کو ظاہر کرنے والی پوسٹ کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں۔ عدالت نے کہا کہ اگر شہریوں کی طرف سے ان کی پریشانی کو ظاہر کرنے والی کسی بھی پوسٹ کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو ہم پولیس کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارواہی کریں گے۔
سپریم کورٹ نے مرکز سے یہ بھی پوچھا کہ ریاستوں کو آکسیجن کی الاٹمنٹ کے پیچھے کیا دلیل ہے؟ جسٹس چندرچوڈ نے پوچھا کہ ٹینکروں اور سلنڈروں کو ضرورت مند لوگوں تک پہنچانے کو یقینی بنانے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ عدالت نے آکسیجن کی متوقع فراہمی کے بارے میں بھی مزید استفسار کیا ۔
آج کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ مرکز ، ریاستوں اور نجی اسپتالوں کے لئے ویکسین کی قیمت میں نمایاں فرق بہت پریشان کن ہے۔ عدالت نے مرکز سے یہ وضاحت طلب کی کہ کووڈ - 19 ویکسین کی قیمتوں کو ریاستوں، نجی شعبوں اور مرکز کے لئے الگ الگ کیوں رکھا گیا ہے ۔
عدالت نے کہا کہ حکومت مختلف ویکسین کے لئے قومی حفاظتی پروگرام پر غور کرے اور تمام شہریوں کو بلا معاوضہ ویکسینیشن فراہم کرنے کے بارے میں سوچے۔ عدالت نے کہا کہ نجی صنعت کاروں پر فیصلہ نہیں چھوڑا جاسکتا کہ کس ریاست کو کتنی مقدار میں ویکسین ملنی چاہئے۔
عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ناخواندہ افراد یا جن کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے ان کے لئے ویکسین کے اندراج کو کس طرح یقینی بنائیں گی۔
عدالت نے کہا کہ بنگلہ دیش سے ریمیڈیسویر کو درآمد کرنے کے لئے ادویات سے متعلق پیٹنٹ قواعد کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے تجویز پیش کی کہ حکومت بنگلہ دیش کے منوفیکچر سے ہندوستان میں ریمیڈیسویر تیار کرنے کا لائسنس حاصل کرے ۔
اپنے مشاہدے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹروں اور نرسوں کو جو وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں انھیں زیادہ معاوضہ ادا کیا جائے ۔