نئی دہلی: کارکن عمر خالد نے قومی دارالحکومت میں فروری 2020 میں ہوئے فسادات کے پس پردہ مبینہ سازش سے جڑے غیر قانونی سرگرمیاں (انسداد) قانون (یو اے پی اے) کے ایک معاملے میں اپنی ضمانت عرضی خارج کرنے کے دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔
ہائی کورٹ نے 2 ستمبر کو اس معاملے میں خالد اور شرجیل امام سمیت نو لوگوں کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ شہریوں کے احتجاج کی آڑ میں "سازشی" تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جن لوگوں کی ضمانت خارج کی گئی ان میں خالد، امام، محمد سلیم خان، شفا الرحمٰن، اطہر خان، میرعان حیدر، عبد الخالد سیفی، گلفشاں فاطمہ اور شاداب احمد شامل ہیں۔
ایک دوسرے ملزم تسلیم احمد کی ضمانت عرضی بھی 2 ستمبر کو ہائی کورٹ کی ایک الگ بنچ نے خارج کر دی تھی۔ گزشتہ ہفتے، امام اور گلفشاں فاطمہ نے ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ نو ملزمان کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے اپنے حکم میں ہائی کورٹ نے کہا کہ آئین شہریوں کو احتجاج یا تحریک چلانے کا حق دیتا ہے، بشرطیکہ وہ منظم، پُرامن اور بغیر ہتھیار کے ہوں اور ایسی کارروائی قانون کے دائرے میں ہو۔
خالد، امام اور باقی ملزمان پر فروری 2020 کے فسادات کے مبینہ "ماسٹر مائنڈ" ہونے کے الزام میں یو اے پی اے اور بھارتی تعزیری ضابطہ (آئی پی سی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان فسادات میں 53 افراد مارے گئے تھے اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران یہ فسادات بھڑک اٹھے تھے۔ ان ملزمان نے اپنے اوپر لگے تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔ یہ 2020 سے جیل میں ہیں اور نچلی عدالت سے ضمانت عرضی خارج ہونے کے بعد ہائی کورٹ میں ضمانت کی اپیل کی تھی۔