نئی دہلی: جمعرات 11 دسمبر کو دہلی کی ایک عدالت نے جے این یو کے سابق اسکالر اور سرگرم کارکن عمر خالد کو 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات کی مبینہ بڑی سازش سے متعلق یو اے پی اے مقدمے میں عبوری ضمانت دے دی۔ خالد نے اپنی بہن کی شادی میں شرکت کے لئے عبوری ضمانت کی درخواست دی تھی۔
کرکڑڈوما عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج سمیر باجپئی نے 16 سے 29 دسمبر تک عبوری ضمانت منظور کی ہے۔ اس کے لئے 20000 روپے کے ذاتی مچلکے اور اسی رقم کے دو ضمانتیوں کی شرط رکھی گئی ہے۔ خالد کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی گواہ یا مقدمے سے جڑے کسی بھی فرد سے رابطہ نہ کریں۔ انہیں اپنا موبائل نمبر تفتیشی افسر کو دینے اور پوری مدت میں فعال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ ضمانت کے دوران خالد سوشل میڈیا استعمال نہیں کریں گے اور صرف اپنے گھر یا ان مقامات پر رہیں گے جہاں شادی کی تقریبات ہوں گی۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ 29 دسمبر کی شام وہ متعلقہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے سامنے خود کو پیش کریں۔
گزشتہ سال دسمبر میں بھی عدالت نے انہیں 7 دن کے لئے عبوری ضمانت دی تھی تاکہ وہ خاندان کی ایک شادی میں شریک ہو سکیں۔ 2022 میں بھی اپنی بہن کی شادی کے لئے ایک ہفتے کی عبوری ضمانت ملی تھی۔ اکتوبر 2022 میں دہلی ہائی کورٹ نے خالد کی ضمانت مسترد کر دی تھی۔ بعد ازاں وہ سپریم کورٹ گئے لیکن اپنی درخواست واپس لے لی۔ دوسری باقاعدہ ضمانت کی درخواست ٹرائل کورٹ نے بھی مسترد کی جس کے خلاف وہ دوبارہ ہائی کورٹ گئے۔
2 ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے کہا تھا کہ بادی النظر میں عمر خالد کا کردار سنگین ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اشتعال انگیز تقریریں کر کے مذہبی بنیادوں پر بڑے پیمانے پر لوگوں کو اکسانے کی کوشش کی۔ اس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ بدھ کے روز سپریم کورٹ نے عمر خالد شرجیل امام گلفشہ فاطمہ اور دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ایف آئی آر نمبر 59 2020 دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے درج کی تھی جس میں تعزیرات ہند اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کی مختلف دفعات شامل ہیں۔ اس مقدمے میں طاہر حسین عمر خالد خالد سیفی عشرت جہاں میران حیدر گلفشہ فاطمہ شفا الرحمن آصف اقبال تنہا شاداب احمد تسلیم احمد سلیم ملک محمد سلیم خان اطہر خان صفورہ زرگر شرجیل امام فیضان خان اور نتاشا نروال نامزد ہیں۔