'خاتون سیاح تولیکا آنند کو کیسے ملا کشمیر میں'آنند

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 20-09-2021
 کشمیر میں مجھے گھر جیسا پیار ملا: تولیکا آنند
کشمیر میں مجھے گھر جیسا پیار ملا: تولیکا آنند

 

 

آواز دی وائس، جے پور

کشمیر کی مہمان نوازی ساری دنیا میں مشہور ہے، جنت نذیر کشمیر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کشمیری خود بھوکے رہ سکتے ہیں مگر وہ اپنے مہمانوں کو کبھی بھوکا نہیں رکھ سکتے۔

ریاست راجستھان کے دارالحکومت جے پور کی رہنے والی خاتون سیاح تولیکا آنند جب کشمیر کی سیاحت سے واپس لوٹیں تو ان کا پہلا تاثر یہ تھا کہ کشمیر میں مجھے گھر جیسا پیار ملا اور کشمیریوں نے مجھ کو اپنی بیٹی کی طرح محبت دی۔

 جب پہلی دفعہ تولیکا آنند نے ہوائی جہاز کی کھڑکی سے کشمیر کی برف پوش وادی کو دیکھا تو وہ مسحور ہوکر رہ گئیں تھیں، تاہم وہ کشمیر کی قدرتی خوبصورتی سے زیادہ  کشمیریوں کی مہمان نوازی سے متاثر نظرآتی ہیں، جنھوں نے انہیں گھر سے دور گھر کا احساس دلایا۔

awaz

ٹریلز اینڈ ٹرانسفارمیشن(Trails and Transformation) کی مصنفہ تولیکا اپنے کشمیری سیاحت کا تجربہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں سفر کے دوران جس کشمیری سے بھی ملی، انہوں نے میرے ساتھ بہترین سلوک کیا گیا۔

تولیکا آنند جہاں ایک سیاح ہیں وہیں وہ ایک مصنفہ بھی ہیں،انھوں نے ایک ٹریول بلاگر ( travel blogger) کے طور پر ہندوستان کی بیشتر ریاستوں کا سفر کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کشمیر کے لیے اگرچہ یہ سفر میرا پہلا سفر تھا تاہم جن لوگوں سے میں ملی، انہوں نے مجھے کبھی بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں ان کے درمیان باہر سےآئی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ بعض اوقات کشمیر میں رہتے ہوئے مجھے بے چینی محسوس ہوتی تھی لیکن یہ کشمیریوں کی گرم جوشی سے مہمان نوازی تھی جس کی وجہ سے وہاں رہنے میں مجھ کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ 

وہ کہتی ہیں کہ کشمیریوں کے تئیں عدم تحفظ کا احساس ان لوگوں کی جانب سے پھیلایا گیا ہے، جو کبھی وہاں گئے نہیں ہیں یا پھر انہوں نے انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔

وہ کہتی ہیں کہ اگرمیں کسی جگہ یا راستے کے بارے میں پوچھتی تومقامی لوگ نہ صرف میری رہنمائی کرتے بلکہ اس بات کو یقینی بنا دیتے کہ میں منزل تک کیسے آسانی سے پہنچ جاوں۔ یہاں تک کہ وہاں قیام کے دروان کچھ لوگوں نے مجھے کئی بار فون کرکے میری خیریت معلوم کی اوریہ سوال کیا کہ کوئی پریشانی تو نہیں ہے، آپ سفر کا لطف تو لے رہی ہیں۔

خیال رہے کہ تولیکا جے پور نیشنل یونیورسٹی (Jaipur National University) میں ڈاکٹریٹ کی طالبہ ہیں، وہ ڈائسپورک سمجھداری کے خدوخال تبدیل (Changing Contours of Diasporic Sensiblities)کرنے پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ سیاحت کے علاوہ وہ نسلی غذاوں (connoisseur of ethnic foods)کی بھی ماہر ہیں۔

awaz

جب تولیکا سے پوچھا گیا کہ کشمیر کے بارے میں آپ کے خیالات کیسے تھے؟

وہ کہتی ہیں کہ ایک بیس سال کی لڑکی کے لیے تنہا کشمیر کا سفر کرنے کے تعلق سے تھوڑی سی تشویش ہو رہی تھی۔ تاہم اس کے لیے ہمت کی ضرورت تھی، جو مجھ میں تھوڑی بہت ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ سفر کی منصوبہ بندی کے دوران جب ہاؤس بوٹ مالکان سے اس ضمن میں بات ہوئی تو انھوں نے میرے ہر سوال کا جواب تسلی بخش دیا اور کہا کہ آپ کو ہر جگہ تحفظ ملے گا آپ پریشان نہ ہوں اور پھر جب میں نے دو ہفتوں کے سفر کا آغاز کیا تو ہر روز اور ہر قدم پر عدم تحفظ کا مفروضہ خوف غلط ثابت ہوتا چلا گیا۔

 جنوبی کشمیر کے مشہور پہاڑی اسٹیشن پہلگام جاتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے تولیکا ایک کشمیری ڈرائیور کو یاد کرتی ہیں، جنھوں نے ایک مقامی شخص سے اس کے لیے بحث کی تھی اور کہا تھا کوئی اسے پریشان نہ کرے کیوں کہ یہ ہمارے مہمان ہیں۔

تولیکاآنند کہتی ہیں کہ کشمیر ایک اچھی جگہ ہےمگر وہاں مڈبھیر ہونا ایک عام سی بات ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں کا غلبہ ہے۔ یہاں تحفظ بھی ایک مسئلہ، مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ان کے الفاظ میں کشمیر اپنی دلکش قدرتی خوبصورتی کے لئے مشہور ہے جو لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے  لیکن میں نے جوچیز دریافت کی وہ بھی اتنی ہی قیمتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس سیاحت نے ان کے اندر کشمیریوں کو دیکھنے کا نیا نظریہ پیش کیا۔ سری نگر میں عمر مسعود، کوئینز لیپ ہاؤس بوٹ کے فیاض بھائی، ٹن مرگ کے فرید چچا، سری نگر میں پروفیسر شاہینہ سلیم اور گلمرگ کے میر فیاض اور متعدد دیگر افراد کا میرے ساتھ حسن سلوک پوری زندگی یاد رہے گا۔ ان کی صحبت میں، میں نے خود کو خوش قسمت اور محفوظ محسوس کیا تھا۔

تولیکا کشمیریوں کی زندگیوں کو سمجھنے کے لئے متجسس تھی اور اس لیے انھوں نے دیہات میں بھی چند راتیں گزاریں۔ کشمیر کے مختلف گھروں میں ان کی ضیافت کی گئی۔ چوں کہ انھوں نے کانونٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے، ان کے دیکھنے کا رویہ الگ ہے، اس لیے کشمیر میں انہیں سب کچھ الگ سا لگا، جو انہیں بار بار متاثر کرتا رہا۔

وہ بتاتی ہیں کہ  کشمیرمیں قیام کے دوران مجھے ایسے بے شمار واقعات پیش آئے جہاں کشمیر کے لوگوں نے مجھے یہ احساس دلایا کہ میں ان میں سے ہی ایک ہوں اور مجھے کم از کم کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے میں ان کی بیٹی، پوتی، دوست اور بہن ہوں لیکن سیاح نہیں۔

ایک ہاؤس بوٹ کے مالک حاجی غلام نبی کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ بہت جذباتی ہوگئیں۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے بہت زیادہ پیار دیا، اب جب کہ میں جے پور میں ہوں، وہ میری خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کرتے ہیں۔

میں نے محسوس کیا کہ کشمیری اپنی سرزمین سے گہرے طور پر جڑے ہوئےہیں اور اپنے مذہب و ثقافت کے تئیں وفادار ہیں۔

تولیکا کو کشمیر میں دو ہفتوں کے قیام کے دوران کسی بھکاری یا جیب کترے  سے سابقہ پیش نہیں آیا۔ اس سے انہیں بہت حیرت ہوئی۔

awaz

ان کے الفاظ میں اگر کشمیر زمین پر جنت ہے تو اس کے باشندے اس سے الگ نہیں ہو سکتے۔ میں یہ کہنا چاہوں گی کشمیر کو جنت کشمیر بنانے والے کشمیری ہمیشہ میرے دل میں رہیں گے۔

 تولیکا آنند کشمیر کی سیاحت سے بہت زیادہ متاثر نظرآتی ہیں، وہ نہ صرف دوبارہ کشمیر جانا چاہتی ہیں بلکہ انھوں نے کشمیر پر ایک کتاب بھی لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔