مسلمانوں کودھمکیاں: سابق فوجی سربراہوں سمیت 100 شخصیات کا مودی کے نام کھلا خط

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-01-2022
مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی: سابق فوجی سربراہوں سمیت 100 شخصیات کا مودی کو کھلا خط
مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی: سابق فوجی سربراہوں سمیت 100 شخصیات کا مودی کو کھلا خط

 

 

نئی دہلی : آواز دی وائس

ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کے کھلے عام نعروں اور نفرت کی ہوا پیدا کرنے کا معاملہ پچھلے کئی دنوں سے سرخیوں میں رہا ہے۔ اس معاملہ نے اب بڑی بے چینی پیدا کردی ہے ،کیونکہ اس قسم کے بیانات کی ہر طبقہ نے مذمت کی ہے بلکہ حکومت سے اس کے خلاف کارروائی کی مانگ کی ہے۔ اس سلسلے میں اب ہندوستانی مسلح افواج کے پانچ سابق چیفس آف سٹاف، سابق فوجی افیسرز، بیوروکریٹس اور سرکردہ شہریوں سمیت سو سے زیادہ نامور شخصیات نے سخت گیر ہندو رہنماؤں کی جانب سے ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کی کھلی دھمکی کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے صدر رام ناتھ کووند اور وزیر اعظم نریندر مودی کو اس حوالے سے کھلا خط لکھا ہے۔

اس خط میں در اصل  میں حال ہی میں اتراکھنڈ کے شہر ہریدوار اور دہلی میں ہونے والے اجتماعات کے دوران عیسائیوں، دلتوں اور سکھوں جیسی دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا بھی ذکر ہے۔

خط میں ملکی سرحدوں کی موجودہ صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا گیا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی اس طرح کی کھلی دھمکیاں نہ صرف اندرونی طور پر عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں بلکہ بیرونی قوتیں بھی اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

اس خط میں مزید لکھاگیا ہے کہ ملک کے اندر امن اور ہم آہنگی کو پہنچنے والے نقصان سے دشمن اور بیرونی قوتیں اٹھا سکتی ہیں۔ فوج، سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز (سی اے پی ایف) اور پولیس اور دیگر فورسز کے مرد و خواتین اہلکاروں کا اتحاد اور ہم آہنگی ہمارے متنوع اور کثیر معاشرے میں ایک یا دوسری کمیونٹی کے خلاف تشدد کے لیے اس طرح کی بے بنیاد کالز کی اجازت دینے سے شدید متاثر ہوگی۔

 مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکیاں دینے والے ہریدوار میں مذہبی اجتماع ’دھرم سنسد‘ کا براہ راست حوالہ دیتے ہوئے خط میں لکھا ہے کہ ’ہم ہندوؤں کے دھرم سنسد نامی تین روزہ مذہبی اجتماع کے دوران کی گئی تقریروں کے مواد سے سخت پریشان ہیں۔ 17 سے 19 دسمبر 2021 کے درمیان ہریدوار میں سادھو اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے ہندو راشٹر کے قیام کی ضرورت اور ہندومت کے تحفظ کے نام پر ہتھیار اٹھانے اور بھارتی مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے بار بار مطالبات کیے گئے۔

خط میں دہلی کے ایک اور واقعے کا بھی ذکر موجود ہے جب ہندوتوا کی تنظیموں کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ملکی درالحکومت میں جمع ہوئی اور عوامی طور پر حلف لیا کہ بھارت کو ہندو راشٹر بنایا جائے گا اور اس کے لیے اگر ضروری ہوا تو لڑائی اور قتل عام کیا جائے گا۔

خط میں کہا گیا کہ اس طرح کے مزید فتنہ انگیز اجتماعات دوسری جگہوں پر منعقد کیے جا رہے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم عوامی طور پر نفرت کے اظہار کے ساتھ اس طرح کے تشدد کو اکسانے کی اجازت نہیں دے سکتے جو نہ صرف داخلی سلامتی کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بنتا ہے بلکہ یہ ہماری قوم کے سماجی تانے بانے کو بھی تباہ کر سکتا ہے۔

 دھرم سنسد میں ایک مقرر نے فوج اور پولیس کو ہتھیار اٹھانے اور نسل کشی مہم (صفائی ابھیان) میں حصہ لینے کا بھی مطالبہ کیا۔خط کے مطابق یہ فوج کو اپنے شہریوں کی نسل کشی میں حصہ لینے کے لیے اکسانے کے مترادف ہے اور یہ قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔

سپریم کورٹ کے 76 وکلا نے بھی چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کو خط لکھا جس میں سپریم کورٹ سے اقلیتوں کے خلاف تشدد کی دھمکیوں کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

awazurdu

وکلا نے لکھا تھا کہ پولیس ایسے واقعات کو روکنے کے لیے فوری عدالتی مداخلت کی ضرورت ہے جو بظاہر روز کا معمول بن چکے ہیں۔ہریدوار میں منعقدہ ہندوتوا کانفرنس کا اہتمام ایک مذہبی رہنما یاتی نرسمہانند نے کیا تھا جن پر ماضی میں اپنی اشتعال انگیز تقاریر سے تشدد بھڑکانے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔