آواز دی وائس : منصور الدین فریدی
ہندوستان میں اردو یقینا سکڑ رہی ہے،اس کو بولنے والوں کی تعداد گھٹ رہی ہے ،بات قابل تشویش ہے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اردو اب صرف ہندوستان اور پاکستان یا برصغیر کی زبان نہیں رہی ہے بلکہ ایک بین الاقوامی زبان بن چکی ہے۔ اس کی تنزلی کی ذمہ داری صرف ان پر ہے جن کی اردو مادری زبان ہے۔ جب ہم اردو صحافت کے دو سو سال کی بات کرتے ہیں تو جنگ آزادی سے قبل اس دور میں اخبار نکالنا بہت دشوار تھا۔ ایک بڑی جدوجہد تھی کیونکہ اخبار ہی ایک ہتھیار تھا۔اس وقت یہی سوچا جاتا تھا کہ کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار اٹھاو۔بس اخبار نکالو۔
ان خیالات کا اظہار ملک کے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے راجدھانی میں اردو صحافت کے دو سالہ جشن کے موقع پر کیا۔ اس پروگرام میں سابق مرکزی وزیر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد،ممتاز صحافی اور سابق سفیر م افضل کے ساتھ متعدد ممتاز صحافیوں بشمول ایڈیٹر اخبار مشرق ندیم الحق ، قربان علی ،وودود ساجد،ایڈیٹر روزنامہ انقلاب دہلی ،سہیل انجم نےشرکت کی ۔اس پروگرام کے روح رواں ممتاز صحافی اور ایڈیٹر ’خبردار‘ معصوم مرادآبادی نے سب کا خیر مقدم کیا جبکہ تمام مہمانوں نے معصوم مراد آبادی کی کنوینر شپ میں قائم ’اردو صحافت کے دو سو سالہ جشن کی تقریبات کمیٹی‘ کے زیر اہتمام شاندار پروگرام کی سراہنا کی۔
جشن اردو صحافت کے پروگرام کا ایک منظر
انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد ایک خصوصی پروگرام میں حامد انصاری نے اردو زبان اور اردو صحافت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سالگرہ منانا ایک روایت بن گئی ہے ،انفرادی اور اجتماعی طور پر منانی چاہیے۔ لیکن میں ایک بات واضح کردوں کہ میں نہ تو ادیب ہوں ،نہ صحافی اور نہ شاعر۔
حامد انصاری نے کہا کہ بلاشبہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد گھٹ گئی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اردو اب ہندوستان یا پاکستان کی زبان نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے ۔آسٹریلیا سے امریکہ تک ،وہاں اردو پڑھائی جارہی ہے ،پڑھی جارہی ہے۔ لکھی جارہی ہے۔
حامد انصاری نے مزید کہا کہ اردو ہمارے ملک میں تنزلی کا شکار ہے۔ اس کی ذمہ داری ان کی ہے جن کی مادری زبان اردو ہے۔ زبان اس وقت بھولی جاتی ہے جب اس کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی ہے۔ اور ایک بار وہ بھلا دی گئی تو پھر اس کو دوبارہ زندہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔مگر اچھی بات یہ ہے کہ اردو اس شہر میں زندہ ہورہی ہے ،اس ملک میں زندہ ہورہی ہے ۔
جشن اردو صحافت کے موقع پر ایک ڈاکومنٹری فلم بھی پیش کی گئی
میں نے ایک وقت دہلی یونیورسٹی میں اردو ڈیپارٹمنٹ میں دریافت کیا تھا کہ پوسٹ گریجوٹ میں اردو کے کتنے طلبا ہوتے ہیں تو انہوں نے بتایا تھا کہ ایک تعداد مقررکردی گئی ہے جو شاید پچاس یا ساٹھ ہے جبکہ ہرسال یہ تعداد پوری ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ یونیورسٹی نے اردو کا ڈپلومہ کورس شروع کیا ہے جس میں ڈھائی سو سے زیادہ طلبا رضاکارانہ طور پر اردو سیکھنے آتے ہیں ۔
حامد انصاری نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ اس شہر میں ایک اور نیا سلسلہ شروع ہوا جو اب پرانا ہوچکا ہے جس کو جشن ریختہ کے نام سے جانتے ہیں ۔جشن ریختہ لہ پرچم تلے جو کام ہورہا ہے اس کا بے انتہا فائدہ ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ بے فکر رہیں زبان تو زندہ رہے گی مگر ہماری جو ذمہ داری ہے اس پر نظر ثانی کرنی پڑے گی ۔جو کام ہم انفرادی یا اجتماعی طور پر نہیں کررہے ہیں وہ کیوں نہیں کررہے ہیں اس پر غور کرنا ہوگا ؟
حامد انصاری نے کہا کہ مجھے جو تشویش ہے وہ یہ ہے کہ ہر مردم شماری میں اردو بولنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے،یہی پریشانی کا معاملہ ہے۔ ملک میں آبادی بڑھ رہی ہے لیکن اردو بولنے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔
اس کا ایک تلخ تجربہ مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوا جب طلبا کے ایک بڑے ہجوم نے با آواز بلند اس بات کا اعتراف کیا کہ ہمیں اردو نہیں آتی ہے۔یہ بیماری خاص طور پر اتر پردیش میں ہوئی،بہار میں نہیں ۔اب اتر پردیش میں کیا ہوا یہ کہانی اب پرانی ہوگئی ہے۔
جشن اردو صحافت میں سامعین
اسکولوں میں پڑھائی نہیں ہوتی ہے ،تمام تر سرکاری قوانین کے باوجود یہ بات اہم ہے کہ جب تک اردو طلبا کی تعداد ایک حد تک نہیں پہنچ جاتی ہے تب تک کوئی ٹیچر نہیں رکھا جاتا ہے۔
جو کام والدین کو کرنا چاہیے تھا وہ بھی نہیں ہو پارہا ہے۔ اسکول میں اردو ہے نہیں اور گھر میں بھی ماحول نہیں ہے۔
ممتاز سیاستداں غلام نبی آزاد نے اس موقع پر کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور اس کے لیے کسی ایک حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔ جب اردو کے فروغ کی بات آتی ہے،اردو اخبارات کا مسئلہ آتا ہے اور اشتہارات کا معاملہ آتا ہے تو کوئی بھی ایماندار نظر نہیں آتا ہے۔ ایک حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں ۔جب ہماری حکومت تھی اس وقت بھی وہ نہیں ہوسکا جو اردو کے ساتھ ہونا چاہیے تھے۔ اردو اخبارات کے لیے اشتہارات کا مسئلہ رہا ہے ،میں نے اس وقت اس میں کچھ فیصلے لیے تھے مگر اس کے باوجود وہ نہیں ہوسکا جو ہونا چاہیے تھا۔
غلام نبی آزاد محفل کو خطاب کرتے ہوئے
پروگرام کے آغاز پر ممتاز اسلامی اسکالر پدم شری پروفیسر اختر الوسع نے کہا کہ میں اردو صحافت کے جشن میں معصوم مرادآبادی کی درخواست پر قارئین کے نمائندہ کی حیثیت سے شریک ہوں کیونکہ اگر کوئی کم ہورہا ہے تو وہ اردو کا قاری ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو کے پہلے اخبار کے ناشر ہری ہر دت تھےجو اس بات کا ثبوت ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے بلکہ مذہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک بڑا کام کیا اور اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔۔
پروفیسر اختر الواسع نے مزید کہا کہ میں ان تمام لوگوں کو مبارک باد دیتا ہوں جو تمام تر پریشانیوں کے باوجود اردو کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں،جنہوں نے تحریک آزادی کو زندگی بخشی اور معنویت بخشی،اعتبار بحشا اور ایک نئی سمت عطا کی۔ اردو کے لیے ایسی جدوجہد کی جو جہاد کہلا سکتی ہے۔
آزادی کے بعد اردو زبان کے صحافی نے صحافی کا کام کم بلکہ مجاہد کا کام زیادہ کیا ہے۔ اس نے حق اور انصاف کی آواز کو بلند کرنے کا کے لیے اپنے قلم کا استعمال کیا ہے۔
معصوم مرادآبادی خطاب کرتے ہوئے
پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ میں اردو والوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آج سے اپنے گھر میں ایک اردو اخبار ضرور منگائیں اس کا عہد کریں۔یہ ایک بڑی خدمت ہوگی ۔اردو اخبار کو نئی زندگی بخشنے کی تحریک شروع کریں ۔
دوسرا سیشن
میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ پروفیسر شافع قدوائی نے کہاکہ آج کا میڈیاحقائق پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے حقائق پیش کرتاہے۔ پہلے اخبارات حقائق کے ترجمان ہوتے ہیں جب کہ آج دوسری طرح کے سچ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بقول مولانا وحیدالدین خاں اردو صحافت احتجاج کی صحافت ہے۔
مشہور صحافی قربان علی نے کہاکہ جب تک اردو کو روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا اس وقت تک نہ اردو صحافت بچیں گے اور نہ ہی اردو کے اخبارات۔ اردو والے پیسے خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اخبار کے صحافیوں کی تنخواہ انتہائی کم ہے۔
ممبئی سے شائع ہونے والا اخبار ہندوستان کے مدیر سرفراز آرزو نے اخبارات کی دگرگوں حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اشتہارات کی کمی کی وجہ سے اخبارات کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے اور بقا کیلئے کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہناہوگا۔
مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز نے کہاکہ اردو صحافت کاچیلنج یہ بھی ہے کہ جب تک ہم اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے اس وقت تک اردو کابقاممکن نہیں ہے۔
روزنامہ آگ لکھنؤ کے مدیراعلی ابراہم علوی نے اس سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ اردو دزبان بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بچو ں کو اردوپڑھائیں۔
خطاب کرنے والوں میں روزنامہ ندیم بھوپال کے ایڈیٹر عارف عزیز، شاہین نظر، ڈاکٹر سید فاروق، رکن پارلیمنٹ ندیم الحق، رئیس مرزااور دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر متعدد صحافیوں کو ایوارڈ اور مومنٹو بھی پیش کیا گیا۔ جن میں یو این آئی اردو کے سابق سربراہ عبدالسلام عاصم شامل ہیں۔اس موقع پرڈاکٹر مرضیہ عارف نے اپنی کتاب جہان فکر و فن کی کاپی سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری کو پیش کیا۔ پہلے سیشن کی نظامت پروگرام کے کنوینر اور مشہور صحافی معصوم مرادآبادی نے کی جب کہ دوسرے سیشن کی نظامت معروف صحافی سہیل انجم نے انجام دی