یہ نفرت ہندوتوا کا تحفہ ہے۔اویسی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
اویسی کا آیا ردعمل
اویسی کا آیا ردعمل

 

 

آٓ واز دی وائس :نئی دہلی

آر آئی ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان نے ملک کی سیاست میں ہلچل پیدا کردی ہے کہ لنچنگ کرنے والے’ ہندو توا‘کے حامی نہیں ہوسکتے،جبکہ ہندو اور مسلمان الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہیں۔ہمارا ڈی این اے ایک ہے۔اس بیان کے بعد میڈیا سے سوشل میڈیا تک ایک طوفان آگیا ہے۔ردعمل دونوں شکل میں سامنے آرہے ہیں ۔کسی نے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے تو کسی نے مسترد کیا۔

 قومی سیاست میں اپنے بیانات کے لئے سرخیوں میں رہنے والے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے بھی اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔انہوں نے بہت کم وقت میںلگاتار تین ٹوئٹس کئے ۔ساتھ ہی کہا ہے کہ ’’۔ یہ نفرت ہندوتوا کا تحفہ ہے، ان مجرموں کو ہندوتوا حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔‘‘

 

 اس کے بعد انہوں نے دوسرا ٹوئٹ کیا ۔اویسی نے اپنے مخصوص اندازمیں سوال کیا کہ ’’ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے بھاگوت کے مطابق لنچنگ ہندوتوا مخالف ہے۔ ان مجرموں کو گائے اور بھینس کے فرق کا پتہ نہیں چلتا تھا، لیکن جنید، اخلاق، پہلو، رکبر اور علیم الدین کے نام انہیں قتل انجام دینے کے لئے کافی تھے۔‘‘

 

؎ اویسی نے مزید کہا کہ ’’۔ مرکزی وزیر کے ہاتھوں علیم الدین کے قاتلوں کی گلپوشی کیا جاتی ہے، اخلاق کے قاتل کی لاش پر ترنگا لگایا جاتا ہے۔آصف کو مارنے والوں کی حمایت میں مہاپنچایت طلب کی جاتی ہے۔ جہاں بی جے پی کے ترجمان پوچھتے ہیں کہ 'کیا ہم قتل بھی نہیں کرسکتے ہیں؟' بزدلی، تشدد اور قتل گوڈسے کی ہندوتوا کی سوچ کا لازمی جزو ہیں، مسلمانوں کی لنچنگ بھی اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔‘‘

 


 موہن بھاگوت کے بیان کے بعد اویسی کا ردعمل بھی سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۔ جنہوں نے اس کا جواب دینے میں نہ تو دیر کی اور نہ ہی کوکنجوسی ۔

دوسری جانب لگاتار ٹوئٹس کئے۔کانگریس کے سینئر رہنما اور راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ دگ وجے سنگھ نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کے سربراہ موہن بھاگوت کے تازہ بیانات کے تناظر میں آج ایک ٹوئیٹ کے ذریعےانہیں مشورہ دیا ہے - ٹوئیٹ کے ذریعہ بھاگوت کے ہندو مسلم اتحاد اور ہندوستانیوں کے ڈی این اے کے بارے میں آئے حالیہ بیانات کے تناظر میں لکھا ہے ، 'موہن بھاگوت جی یہ نظریہ ، کیا آپ اپنے شاگردوں ، پرچارکوں ، وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل کارکنوں کو بھی پیش کریں گے؟ دے؟ کیا آپ یہ تعلیم مودی شاہ جی اور بی جے پی کے وزیر اعلی کو بھی دیں گے؟ ' کانگریس قائد نے سلسلہ وار ٹویٹس میں لکھا ہے ، 'اگر آپ اپنے ظاہر کردہ خیالات کے تئیں ایماندار ہیں تو بی جے پی میں ان تمام رہنماؤں جنہوں نے بے گناہ مسلمانوں پر تشدد کیا ہے ، انہیں فوری طور پر ان کے عہدوں سے ہٹانے کہ ہدایت دیں ۔شروعات نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ سےکریں۔ سنگھ نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ مسٹر بھاگوت ایسا نہیں کریں گے ، کیوں کہ ان کے الفاظ اور اعمال میں فرق ہے۔ سنگھ کے مطابق ، بھاگوت نے ٹھیک کہا ہے کہ پہلے ہم سب ہندوستانی ہیں ، لیکن پہلے اسے اپنے شاگردوں کو سمجھانا ہے

 لکھنو میں بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) سپریمو مایاوتی نے پیر کو کہا کہ آر ایس ایس کے قول وفعل میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر چلنے والی مرکزو ریاست کی بی جے پی اقتدار میں ملک کی اقلیتوں کےدل میں سیکورٹی کی فکر گھر کر گئی ہے سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کے اتوار کو غازی آبادمیں دئیےگئے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا کہ مرکزاور اترپردیش سمیت ملک کی جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں چل رہی ہیں بی جے پی آئین کی صحیح انسانی منشی کے مطابق چلنے کے بجائے آر ایس ایس کے گھٹیا ایجنڈے پر چل رہی ہےجس کی وجہ سے سماج و ملک میں معاشی شعے میں بھی ہر طرف بے چینی، لاقانونیت، تشدد،تناو اور افراتفری کا ماحول ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر بھاگوت کے ذریعہ سبھی مذاہت کے لوگوں کا ڈی این اے ایک ہونے و ہجومی تشدد ہندتوا کے خلاف ہونے وغیرہ کی جو بات کہی گئی ہے وہ کسی کے گلے کے نیچے سے آسانی سے اترنے والی نہیں ہے۔ کیونکہ آر ایس ایس و بی جے پی اینڈ کمپنی کے لوگوں کی اور ان کی حکومتوں کے بھی قول و فعل میں فرق سبھی دیکھ رہے ہیں۔ بی ایس پی سپریمو نے کہا کہ مسٹر بھاگوت کا ملک کی سیاست کو تقسیم کاری بتا کر اسے کوسنا غیر مناسب ہے جبکہ جس بی جے پی و ان کی حکومتوں کو وہ لوگ مفاد عامہ و ملکی مفاد کی خاص پرواہ کئے بغیر ، آنکھ بند کر حمایت دیتے رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں ذات پات، سیاسی بدلے کا جذبہ، فرقہ وارانہ تشدد وغیرہ کا زہر معمولات زندگی کو درہم برہم کئے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے بھی قول و فعل میں کافی زمین و آسمان کا فرق ہے۔ خاص کر ذات پات، فرقہ واریت، مذہبیت وغیرہ کے معاملے میں یہ لوگ جو کہتے ہیں ،کرتے ٹھیک اس کے خلاف ہیں۔ جو سبھی کو معلوم ہے۔ ان کی ایسی گھٹیا پالیسی و کاموں کا بی ایس پی سخت مخالفت کرتی رہی ہے۔