کورونا کے خلاف جنگ:’’خدمت خلق‘‘نے جیت لیادہرادون والوں کے دل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-05-2021
خدمت خلق کی جدوجہد
خدمت خلق کی جدوجہد

 

 

انکیت شرما / دہرادون

کرونا مریضوں کے علاج ومعالجے کی کوششوں کے درمیان سماجی خدمت کا جذبہ رکھنے والے کچھ مسلمان سامنے آئے ہیں اور خدمت خلق کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے جس کا مقصد دیوبھومی دہرادون میں ضرورت مندوں ضروری سامان فراہم کرنا ہے۔ مشکل وقت میں عوامی خدمت کا فیصلہ تب ہواجب مقامی علماء ، سماجی کارکن اورعام مسلمان اکٹھے ہوئے اور سرجوڑ کر بیٹھے۔

مئی کے پہلے ہفتے میں ہوئی اس مٹینگ کا اہتمام بی جے پی اتراکھنڈ کے سابق ترجمان شاداب شمس نے کیاتھا۔مقصدتھا کہ اتراکھنڈ کو نگلنے والے مہلک وائرس کی روک تھام میں مسلم کمیونٹی کے کردار پر تبادلہ خیال کیا جائے۔ اس اجلاس کی صدارت دہرادون کے ایک سینئر عالم دین سید محمد احمد کاظمی نے کی۔

سینئر علما نے تمام لوگوں سے ان کوششوں میں شامل ہونے کی اپیل کی، اس کے بعد خدمت خلق نے عوامی خدمت پر کمرکس لی اور دہرادون و گردونواح کے علاقوں میں عام شہریوں کو طبی امداد سے لے کرروزمرہ استعمال کے ضروری سامان کی فراہمی تک ، میں مدد کرنے لگی۔

خدمت خلق کے پلیٹ فارم سے عوام کی مدد

آوازدی-وائس سے بات کرتے ہوئے شاداب شمس نے کہا ، "اس خیال کے پیچھے بنیادی محرک دین اسلام کے بنیادی اصول ہیں ، جو خدمت انسانیت کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور ، ہمارے رضاکار محتاج لوگوں کی مدد کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔

اسی سال مئی میں ، مسلمان رمضان المبارک کے مقدس ایام گزاررہے تھے اور کورونا کی وبا تیزی سے بڑھی تھی ایسے میں دہرادون میں واقع ماجرا مدرسہ کو 24 گھنٹے کوویڈ کیئر سنٹر میں تبدیل کیا جارہا تھا۔

مدرسے میں کوروناکیئرسنٹر

انسانیت کے جذبے کے ساتھ اس سنٹرکے دروازے تمام لوگوں کے لئے کھلے ہیں۔کوویڈ 19 مریضوں کے لئے ساٹھ آکسیجن بیڈ دستیاب ہیں۔ دہرادون کے سینئر ڈاکٹرز ، ڈاکٹر صداقت اور ڈاکٹر کپل سوری ماجرہ مدرسہ کوویڈ کیئر سنٹر کی رضاکارانہ طورپرنگرانی کر رہے ہیں ، جبکہ حکیم مریضوں کی جلد صحتیابی میں مدد کے لئے دیسی علاج مہیا کررہے ہیں۔

یہ مرکز مریضوں کو مفت دوائیں اور کھانا بھی مہیا کررہا ہے۔ اس منی اسپتال نے 200 مریضوں کا کامیابی کے ساتھ علاج کیا ہے جنھیں فوری طور پر آکسیجن کی ضرورت تھی۔ ان میں سے 50 سے زیادہ افراد دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم ، ٹیم نے کہا ، "ہم کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر گن نہیں رہے ہیں بلکہ اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔"

اسی طرح ، روڑکی میں واقع رحمانیہ مسجد میں کوویڈ کیئر کی سہولت کورونا مریضوں کے لئے کھلنے کو پوری طرح تیار ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث بعض سازو سامان کی فراہمی تاخیر کا شکار ہوگئی۔ حالانکہ مریضوں کے لئے خون کی کمی کوپورا کرنے کے مقصد سے خون عطیہ کیمپ کا اہتمام عید کے روز کیا گیا تھا۔

خدمت خلق کی ایک زمینی ٹیم بھی ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لئے آکسیجن سلنڈر ، دوائیں اور راشن کی فراہمی کے لئے دوڑ دھوپ میں مصروف ہے۔ دہرادون کے براہمن والا میں رہنے والا ایک شخص اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خدمت خلق کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اسے ضروری دوائیں وقت پر بھیجی گئیں۔

کمیٹی کے اہم فیصلہ سازوں نے ریاستی حکومت کو ایک تجویز بھیجی ہے کہ تمام ریاستی مدرسوں اور مساجد کو کوڈ اسپتالوں میں تبدیل کیا جائے۔ اس کمیٹی نے دہرادون اور آس پاس کے 200 سے زائد افراد کو ان کی کال کی بنیاد پرآکسیجن اور ضروری اشیاء پہنچا دی ہیں۔ علما کے ذریعہ تشکیل دی گئی کمیٹی خدمت خلق ،اس وقت بڑے پیمانے پر دہرادون ونواح میں لوگوں کوکورونا مصائب اور اذیت سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اتراکھنڈ کے دوسرے خطوں سے آنے والی کچھ کہانیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ گنگا جمنا تہذیب اب بھی زندہ ہے اور انسانیت باقی ہے۔ سماج دشمنوں کی منفی کوششوں کے باوجود ہندوومسلم بھائی چارہ کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

ایسی ہی ایک کہانی یوں ہے کہ ہریدوار میں ایک اسٹریٹ ہاکر راجو کی کرونا کی وجہ سے موت ہوگئی۔ اس کی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ بے بسی کے عالم میں رو رہی تھی۔ ایسے میں مقامی مسلمان آگے بڑھے اورراجو کے اہل خانہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ہندو روایت کے مطابق متوفی کی آخری رسومات ادا کرنے میں ان کی مدد کی۔ اسی طرح پنکج گنگوار نے ہلدوانی کے سشیلا تیواری اسپتال میں دم توڑ دیا۔ مقامی رہائشی رئیس الحسن نے ہندو روایت کے مطابق اس کی آخری رسومات ادا کیں۔