کورونا کے خلاف انسانیت کی جیت ۔۔۔

Story by  ایم فریدی | Posted by  AVT | Date 25-01-2021
کورونا کے خلاف جنگ
کورونا کے خلاف جنگ

 

                                                       منصور الدین فریدی،نئی دہلی
21 ویں صدی،ایک ایسا دور جب ہر کوئی ٹیکنا لوجی کے راکٹ پر سوار ہے۔آسمان چھونے کی کوشش کررہا ہے۔چاند پر بستی بسانے کا عزم ظاہر کررہا ہے۔ خلا میں سیر سپاٹے کی تیاری میں جٹا ہے۔ اس  ٹیکنالوجی کی بنیاد پر صدی کو انسانی دور کا سب سے جدید اور ایڈوانس دور مانا گیا ہے،لیکن جب کوئی آسمانی آفت نازل ہوتی ہے۔دنیا کسی بڑی قیامت کا سامنا کرتی ہے۔افراتفری کا عالم ہوتا ہے تو اس وقت دنیاکیلئے اگر کوئی سب سے بڑا سہارا بنتا ہے تو وہ انسانیت ہی ہوتی ہے۔انسانیت ہی ایسی مشکلات کا سامنا اور ان پر جیت حاصل کرتی ہے۔ وہی انسانیت جس کو انسان عام طور پر بھول کر دنیاوی برائیوں میں الجھ جاتا ہے۔قیامت کا سامنا کرنے والوں کو بھی نئی زندگی جینے کا حو صلہ دیتی ہے۔شکستہ دلوں کو ہمت دیتی ہے۔اس بات کا احساس دلاتی ہے انسانیت سے بڑا کوئی مرہم نہیں۔ انسان لڑ نا بھول گئے،اختلافات بھول گئے۔ہر کوئی ایک دوسرے کی مدد کیلئے آگے آگیا۔ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے تھا۔اسی جذبہ نے ہندوستان کو دلائی کورونا کی اس وبا پر بڑی جیت جس نے دنیا میں لاشوں کے ڈھیر لگائے تھے۔
ایسا ہی کچھ ہم سب نے دیکھا کورونا کے بحران میں،خاص طور پر ’لاک ڈاؤن‘ میں۔جب ملک کی سڑکوں پر مزدور وں کے قافلے رواں دواں تھے تو لاکھوں اور کروڑوں لوگ اپنے اپنے گھروں میں الگ الگ مسائل سے لڑ رہے تھے۔کسی کے سامنے زندگی کا مسئلہ تھا تو کسی کے سامنے پیٹ کا۔کسی کے لئے خالی جیب۔ کوئی اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا تو کوئی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کراس کو بچانے میں مصروف تھا۔ کوئی کورونا سے محفوظ رہنے کیلئے گھر میں قید تھا تو کوئی سڑک پر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔اس عجیب وغریب ماحول میں جب دنیا خوف کے سایہ میں تھی اور ہر ملک اپنی اپنی جنگ لڑ رہا تھا۔ اس وقت ہندوستان نے اپنا ایک ایسا چہرہ،کردار اور قد دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی دوسری کوئی مثال نہیں۔ کورونا کے خلاف ہندوستان کی جنگ میں جو سب سے طاقتور ہتھیار بنا وہ انسانیت کا سبق تھا۔جس نے ہندوستان میں کورونا پر جیت دلائی۔
جب لاک ڈاؤن کے بعد سب سے بڑا انسانی بحران کا آغاز ہوا تواگر مزدور سڑکوں پر تھے تو اس نازک وقت میں ان کی مدد کیلئے گھروں میں بیٹھے لوگ بھی حرکت میں آگئے  تھے۔ کسی نے کھانا پکایا،کسی نے کھانا پیک کیا اور کسی نے سڑکوں پربانٹا۔کوئی پانی لے کر دوڑ رہا تھا تو کوئی کھانا۔کوئی اپنے گھروں میں پھنسے غریبوں کو راشن پہنچا رہا تھا۔ اگر اسپتالوں میں ہزاروں افراد کورونا سے زندگی اور موت کی جنگ لڑرہے تھے تو انہیں بچانے کیلئے اسپتالوں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں میڈیکل اسٹاف اپنی جان خطرے میں ڈال رہے تھے بلکہ دوسروں کی جان بچانے میں جانیں بھی گنوا رہے تھے۔مگر کسی کو کوئی خوف نہیں تھا بس ایک جذبہ تھا انسانی خدمت کا۔ جس نے اگست2020تک مختلف محاذوں پر تعینات لاکھوں ’کورونا واریئرز‘میں سے87ہزار اس وبا کا لپیٹ میں آئے جبکہ ان میں سے تقریبا  600رضاکار موت کی نیند سوگئے۔لیکن کبھی کسی کے حوصلے میں کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ سب کے دل میں بس ایک جذبہ تھا۔انسانیت کی خدمت کا۔
ایک چھوٹے سے وائرس نے انسان کو اس کی اوقات بتا دی تو انسانیت کی اہمیت۔جب قدرت نے موت کے سامنے سب کو قطار میں لگا دیا۔ کیا امیر تھا اور کیا غریب۔کیا معروف اور کیا غیر معروف۔کیا چھوٹا کیا بڑا۔ہم نے دیکھا کہ مشہور ہستیاں ہوں یا سیاستداں،کھلاڑی ہوں یا ستارے کوئی کورونا سے نہیں بچ سکا۔دولت نے کورونا سے بچایا نہ رتبہ نے۔ان حالات نے ہم سب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ زندگی کی کیا اہمیت ہے۔کورونا کے لاک ڈاؤن نے ہم سب کو حساس بنایا۔ دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کا موقع دیا۔انسانیت کورونا کے خلاف برسر پیکار تھی اور سب کو یقین تھا کہ جیت کے سوا کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔
ملک نے انسانیت کا عجیب وغریب منظر دیکھا،کوئی پرندوں کو کھانا کھلانے میں لگا ہوا تھا تو کوئی سڑکوں پر بھٹک رہے آوارہ کتے اور بلیوں کیلئے کھانا لے کر گھوم رہا تھا۔ کوئی سڑکوں پر مزدوروں کو کھلا رہا تھا۔ایک آفت نے سب کو ایک کردیا تھا۔سب ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ایک دوسرے کے درد میں حصہ دار تھے۔
 کورونا نے ایک پیغام دیدیا کہ انسانیت  ایک فطری خوبی ہے،جو حالات اور وقت کے سبب دب تو سکتی ہے مگر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ایک دوسرے کے دشمن بھی ایک ساتھ ہوجاتے ہیں۔ایسا ہی کچھ ہندوستان نے کورونا کال کے دوران دکھایا۔جب ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے ہندوستانی۔ہر فرق مٹ گیا۔ہر اختلاف دور ہوگیا۔ہر ٹکراؤ ٹل گیا کیونکہ اس بات پر سب ایک رائے تھے کہ یہ جنگ سب کی ہے،سب کو مل کر لڑنا ہے۔ ہر کسی نے اپنی حیثیت اور اپنی اہلیت کے مطابق کورونا کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہم جیت گئے۔ اس جیت کی ہیرو ہے ’انسانیت‘۔وہ احساس جو کسی میں کبھی مر نہیں سکتا۔اسی احساس کو ہم انسانیت کہتے ہیں جس نے دنیا میں ہندوستان کا سر فخر بلند کردیا ہے اور ہندوستانیوں کو ایک مثال بنایا۔