محرم کی روایت، بن گئی ہندومسلم اتحادکی علامت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-08-2021
محرم کی روایت، بن گئی ہندومسلم اتحادکی علامت
محرم کی روایت، بن گئی ہندومسلم اتحادکی علامت

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

محرم، غم والم کا مہینہ ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین اور ان کے اہل خاندان واحباب کی شہادت کویاد کرکے سخت دل انسان بھی غمگین ہواٹھتاہے۔ علاوہ ازیں ہندوپاک میں محرم کا ثقافتی پہلو بھی ہے۔ ملک میں صدیوں سے یوم عاشورہ کو ایک الگ انداز میں منانے کی روایت رہی ہے جس میں مسلمانوں کے کندھے سے کندھا ملاکرغیرمسلم بھی مناتے ہیں۔

ملک میں بہت سے شہراور گائوں ایسے مل جائیں گے جہاں تعزیہ داری،ماتم،نوحہ وغیرہ میں ہندوبرادران وطن بھی شامل ہوتے ہیں۔اس معاملے میں سب سے زیادہ شہرت کا حامل لکھنو ہے جہاں نوابوں کے عہد سے عزاداری کی روایت چلی آرہی ہے اور اس میں ہندووں کی شرکت کی بھی تاریخ ہے۔

یہاں بہت سے ہندوایسے مل جائیں گے جو شیعوں کی طرح سیاہ ماتمی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ گھروں میں امام بارگاہ سجانے ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا تاج رکھنے، علم لگانے کی روایت کو آگے بڑھانے میں نہ صرف شیعہ اور سنی بلکہ ہندو عزادار بھی جوش وخروش دکھاتے ہیں۔

پرانے لکھنوشہر میں بہت سے ہندو خاندان ہیں ، جو اودھ کی گنگا جمنی تہذیب کو نسل در نسل لے کرآگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ تعزیے بنانے کا کام کر رہے ہیں۔تعزیہ بنانے والے ایسے ہندو فنکار بھی ہیں ، جوکہتے ہیں کہ وہ محرم کے لیے حسین بابا کے تعزیے بنا رہے ہیں۔ سعادت گنج کے پرمود نے تعزیے کے بارے میں بتایا کہ عراق کے شہر کربلا میں واقع حضرت امام حسین کی مزار کی شبیہ (کاپی)تعزیہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ میری گزشتہ 21 پشتیں تعزیہ بنا رہی ہیں۔انھوں نے کہاکہ غم کے 68 دن تعزیہ بنا کر پورے سال کے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے دادا بھی تعزیہ بناتے تھے، پھر اپنے والد کے بعد ، وہ اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ انھوں نے مزیدکہا کہ وہ آرڈر پر تعزیے بناتے ہیں ،اور اس کام کے لئے انھیں دور دراز علاقوں میں بلایا جاتا ہے۔

اسی طرح ہریش چندرا اور سنتوش کمار بھی برسوں سے یہاں کام کر رہے ہیں۔ دوباگا کے نریش کمار اور آزاد نگر کے روی کمار کا خاندان بھی کئی دہائیوں سے تعزیے بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

اسی طرح حسین آباد ، مفتی گنج ، صدر ، بالا گنج اور حیدر گنج سمیت کئی لوگوں میں درجنوں خاندان تعزیہ بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ کورونا وبا کی وجہ سے ، کاغذ ، آرائشی اشیاء اور دیگرسازوسامان کی قیمت بڑھ گئی ہے،ایسے میں تعزیوں کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔

بہار کے کٹیہار میں ایک گاؤں ہے جہاں ہندو اپنے باپ دادا سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے محرم مناتے ہیں۔ حسن گنج بلاک کے جگرناتھ پور پنچایت کا ہری پور گاؤں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک منفرد مثال پیش کر تا ہے۔

اپنے آباؤ اجداد سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے آج بھی ہندو برادری کے لوگ ، مہدیہ ہری پور میں محرم مناتے ہیں۔ تقریبا 1200 کی ہندو آبادی والا یہ گاؤں آج بھی سرخیوں میں ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اس گاؤں کی ہندو برادری سو سال سے زائد عرصے سے اہتمام کے ساتھ محرم مناتی ہے۔

محرم کے حوالے سے تمام رسم و رواج کی بھی اچھی طرح پیروی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پورے گاؤں میں تعزیے کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ لیکن اس بار کورونا وبا کی وجہ سے حکومت نے اپیل کی ہے کہ محرم کا تہوار سادگی اور سماجی دوری پر عمل کرتے ہوئے منایا جائے۔ جس کی وجہ سے کورونا وبا نے سیکڑوں سالوں کی روایت کو بریک لگا دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پہلے وکیل میاں نامی شخص گاؤں میں رہتا تھا۔ لیکن اپنے بیٹے کی موت سے غمزدہ ہو کر وہ گاؤں چھوڑ گیا۔ اس کے جانے سے پہلے ، اس نے چھیدی شاہ نامی شخص سے کہا تھا کہ وہ گاؤں میں محرم منائے کیونکہ حسن گنج ایک ہندو اکثریتی علاقہ ہے اور 1200 کی آبادی والے اس گاؤں میں کوئی مسلمان خاندان نہیں ہے۔

اس دوران ہندو لوگ وکیل میاں سے کیے گئے وعدے کی وجہ سے اس گاؤں میں آج بھی محرم کا تہوار بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روایت 100 سالوں سے جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔