غوث سیوانی،نئی دہلی
دلی کی چمک دمک میں روزبروز اضافہ ہورہاہے۔فائیو اسٹار اور تھری اسٹار ہوٹلس، چھوٹے بڑے بازار، فلائی اورس،شاپنگ مالس، میٹرو ریل، سرخ، سبز اور نارنگی رنگ کی دیدہ زیب بسیں اور خوبصورت چمچماتی پرائیویٹ گاڑیاں شہر کی رونق میں اضافہ کر رہی ہیں۔نئی نئی رہائشی اور کاروباری عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں جن سے دلی بڑھتی اور پھیلتی جارہی ہے مگر اس کے نیچے دفن ہوتی جارہی ہے دلی کی تاریخ، قدیم ہندوستان کی ثقافت اورہمارے ملک کا قومی سرمایہ جو کسی بھی قوم کے لئے باعث فخر ہوتا ہے۔
آرکٹکچر محض اینٹ اور پتھر کا ڈھیر نہیں ہوتا بلکہ تاریخ کا ایسا باب ہوتا ہے جہاں ماضی کی جھلک کو حال کے اسکرین پر دیکھا جاسکتا ہے۔دلی کا مہرولی علاقہ ہمارے ہزار سال قبل کی دلی کا دیدار کراتا ہے مگر ماضی کے نقوش دھیرے دھیرے حال کی گرد میں چھپتے جارہے ہیں جن کے تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں کبھی تاریخی عمارتیں ہوا کرتی تھیں،آج وہیں پر شاندار رہائشی کمپلیکس، کثیر منزلہ بلڈنگیں، ہوٹل، کلب وغیرہ نمودار ہوتے جارہے ہیں۔
دلی کے ابتدائی نقوش میں سے فی الحال جو کچھ یہاں باقی ہے، اس میں مسجد قوت الاسلام کی ڈھہتی دیواریں، مسجد کا مینار جسے قطب مینار کہا جاتا ہے اور سلطان شمس الدین التتمش کی قبر کے مٹتے ہوئے نشان ہیں۔سفید پتھروں سے بنی ہوئی یہ قبر آج بھی آرٹ وآرکٹکچر کی سمجھ رکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے کیونکہ یہاں قرآنی آیات کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پتھروں پر تراشا گیا ہے۔
اس مقبرے کی اہمیت اس لحاظ سے بڑھ جاتی ہے کہ یہ دلی کی سرزمین پر تعمیر ہونے والا پہلا مقبرہ تھا۔اس کے بارے میں سرسید احمدخاں نے اپنی کتاب ”آثارالصنادید“میں لکھا ہے: ”قطب صاحب کی لاٹھ کے پاس یہ مشہور مقبرہ ہے جبکہ سلطان شمس الدین التمش 633 ہجری مطابق 1235 عیسوی میں مراتویہاں دفن کیا گیا۔
غالب ہے کہ یہ مقبرہ رضیہ سلطان بیگم اوسکی بیٹی نے بنایا اس مقبرہ کی عمارت باہر سے نری سنگ خاراکی ہے اور اندر سے سنگ سرخ کی ہے اور کہیں کہیں سنگ مر مر بھی لگاہے تمام دیواروں پر آیات قرآنی کندہ ہیں اور بہت اچھی منبت کاری کی ہوئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس مقبرے پر ستوں دارگبند بھی تھا مگر اب گرپڑا ہے فیروز شاہ لکھتا ہے کہ میں نے اس مقبرے کی بھی مرمت کی اور صندل کا چھپر کھٹ چڑھا یااور اوسکے گنبد میں پتھر کی سیڑھی تراش کر لگائی مگر اب ان چیزوں کا پتہ نہیں رہا۔“
التتمش کون تھا؟
سلطان التتمش (1210- 1236 ء) ایک ترک غلام تھا جو اپنے ظاہری حسن وجمال کے ساتھ ساتھ حکمت ودانائی کے لئے مشہور تھا۔ اسکی بہادری اور فوجی کارکردگی سے خوش ہوکر شہاب الدین محمد غوری نے ’امیرالامراء“کا اہم عہدہ دیا تھا۔قسمت اور محنت نے مل کر اسے غلامی کی زندگی سے نکال کر دلی کا سلطان بنا دیا۔وہ بادشاہ بننے سے قبل بدایوں اور اجمیر کا گورنر بھی رہا۔وہ تعمیر کا اعلیٰ ذوق رکھتا تھا جس کی جھلک قطب مینار کے علاوہ اس کے مقبرے میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
اس نے بدایوں میں ایک جامع مسجد بنوائی اور اجمیر میں ایک شاندار مسجد کی تعمیر کرائی تھی جس کی دیواروں کو قرآنی آیات سے سجایا گیا تھا۔یہ مسجد آج بھی موجود ہے اور مسجد ڈھائی دن کا چھونپڑہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔اس نے ناگور میں ایک گیٹ بنوایا تھا۔ التتمش نے اپنے 40 غلام سرداروں کا ایک گروہ بنایا تھا، جسے ”ترکان چہلگامی“ کا نام دیا گیا تھا۔
اس تنظیم کو ”چرگان“ بھی کہا جاتا ہے جس کی مدد سے وہ حکومت کرتا تھا۔اس عہد میں ہندوستان کی سرحد سندھ سے بنگال تک پھیلی ہوئی تھی۔اس کے دور میں راجدھانی لاہور سے دلی باقاعدہ طور پر منتقل کی گئی۔
التتمش پہلا ترک سلطان تھا، جس نے خالص عربی سکے چلوائے۔اس عہد میں چاندی اور تانبے کے سکے بھی رائج تھے۔ سکوں پر التتمش نے اپنا ذکر عباسی خلیفہ کے نمائندے کے طور پر کیا۔
ایک جنگی مہم کے لئے جاتے وقت راستے میں التتمش بیمار ہو گیا۔ آخر کار اپریل 1236 میں اس کی موت ہو گئی۔ التتمش پہلا سلطان تھا، جس نے دوآبہ کی اقتصادی اہمیت کو سمجھا تھا اور اس کو بہتر بنانے کے لئے کام کیا تھا۔
مشہور سیاح ابن بطوطہ نے التتمش کے بارے میں لکھا ہے کہ سلطان نے اپنے محل کے سامنے سنگ کی شیروں کی دومورتیاں بنوا رکھی تھیں، جن کے گلے میں گھنٹیاں لگی تھیں، اور کوئی بھی شخص ان گھنٹیوں کو بجا کرسلطان سے سیدھے طور پر فریاد کرسکتا تھا۔
حوض شمسی یا قطب صاحب کا تالاب
دلی کی سب سے پرانی یادگاروں میں سے ایک مہرولی کا حوض شمسی بھی ہے۔ یہ و ہ تالاب ہے جو ایک مدت تک اہل شہر کی پانی کی ضرورتوں کو پورا کرتا رہا ہے۔اس کے بارے میں ”آثارالصنادید“میں ہے: ”قطب صاحب کے نواح میں سلطان شمس الدین التمش نے قریب 627 ہجری مطابق 1229 عیسوی کے یہ حوض بنایا تھا۔ مشہور ہے کہ یہ حوض سنگ سرخ کا بنا ہوا تھا مگر اب ٹوٹ گیا ہے اور نرا تالاب رہ گیا ہے۔
یہ تالاب دو سو چھہتر بیگھہ پختہ کا ہے جب یہ حوض بنا ہوا تیار ہوگا تو خیال کرنا چاہیے کہ کتنا بڑا ہوگا۔ سلطان علاؤالدین نے قریب 711 ہجری مطابق 1311 عیسوی کے اس کو کہ مٹی سے اَٹ گیا تھا، صاف کرایا اور اس کے بیچوں بیچ میں ایک لداؤ کا چبوترہ نیچے سے خالی بنا کر اس پر برجی نہایت خوبصورت بنائی چنانچہ اب تک وہ برجی موجود ہے۔
فیروز شاہ نے بھی اپنے زمانہ بادشاہت میں اس حوض کی مرمت کی اور پانی آنے کے راستے صاف کرائے مگر اب یہ تالاب بہت اَٹ گیا ہے اور تین چار مہینے سے سوا اس میں پانی نہیں ٹھہرتا۔“ حوض شمسی کسی زمانے میں بہت بڑا تھا اور ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ گرمی میں جب پانی خشک ہوجاتا تو اس کے اندر کسان سبزیاں اور ککڑیاں بویا کرتے تھے۔
مسجدقوت الاسلام جس کی تعمیرکی تکمیل التتمس نے کی
اس تاریخی تالاب کی وسعت اب بہت کم رہ گئی ہے مگر اب بھی موجود ہے اور اس میں بہت گندہ پانی جمع رہتا ہے۔کچھ خود رو چھاڑیاں اگ آئی ہیں اور دھوبی کپڑے دھوتے ہیں جس کے سبب گندگی میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
رکھ رکھاؤ کا کچھ خاص انتظام نہیں ہے۔اس کے بارے میں ایک تاریخی واقعے کا ذکر ضروری ہے جس کا بیان تاریخ کی مختلف کتابوں میں ملتا ہے اور اب بھی اس کے پاس ایک پتھر پر یہ واقعہ رقم ہے۔
بات یہ ہے کہ شہر میں پانی کی قلت تھی اورمہرولی کا علاقہ جمنا سے خاصی دوری پر ہے جس کے سبب جمنا سے استفادہ مشکل تھا۔ ویسے بھی یہ علاقہ پہاڑی کے اوپر آباد ہے اور یہاں کی زمین پتھریلی ہے لہٰذا مشکل ہی سے پانی دستیاب ہوتا تھا۔سلطان شمس الدین التتمش کو اس مسئلے نے پریشان کر رکھا تھا۔
بادشاہ نے اس بات کا ذکر اپنے عہد کے مشہور بزرگ اور صوفی حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا۔ بادشاہ نے کئی مقامات پر اس کے لئے کنویں اور تالاب کھدوانے کی کوشش بھی کی مگر پانی نہیں نکل پایا۔آخر کار ایک روز جب کہ باشاہ سویا ہوا تھا اس نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار تشریف لائے ہیں اور آپ کے گھوڑے نے ایک مقام پر گھر مارے اور وہاں سے پانی ابلنے لگا۔ اس خواب کے بعد بادشاہ اس مقام کی طرف پڑا جہاں اس نے گھوڑے کو گھر مارتے ہوئے خواب میں دیکھا تھا۔
اسی مقام کے قریب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی مل گئے جنھوں نے ٹھیک یہی خواب دیکھا تھا اور نیند سے بیدار ہونے کے بعد اس مقام کی جانب چلے آئے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ گھوڑے کے گھر کا نشان یہاں زمین پر موجود تھا اور جب یہاں کھدائی کی گئی تو پانی نکل آیا۔
بادشاہ نے یہاں وسیع وعریض تالاب بنوادیا جس سے یہاں کے لوگوں کی پانی کی ضرورت پوری ہونے لگی۔ جس مقام پر گھوڑے کے کھرکا نشان تھا اس کی نشاندہی آج بھی موجود ہے اور یہاں آنے والے سیاح دیکھ سکتے ہیں۔ آج اسی تالاب کو حوض شمسی یا شمسی تالاب کہتے ہیں۔ابن بطوطہ نے اس کی لمبائی دومیل اور چوڑائی ایک میل لکھی ہے۔
تاریخی تالاب کا وجود خطرے میں
حوض شمسی کی ایک جانب تاریخی جہاز محل ہے جہاں دن بھر لوگوں کو تاش کھیلتے اور وقت گزاری کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ تالاب کے بڑے حصے پر آج مکانات بن چکے ہیں اور باقی حصے پر ایک چھوٹا سا پارک وجود میں آگیا ہے۔ یہاں آج بھی پانی موجود رہتا ہے اور اس کے امکانات بھرپور ہیں کہ تالاب کو موجودہ دور کی ضرورتوں کے مطابق جدیدسائنسی تکنیک کا استعمال کرکے کارآمد بنایا جائے۔
آج اگر یہاں برسات کا پانی جمع کرنے کی کوشش ہو اور اس کی صفائی کا انتظام کیا جائے تو پورے شہر نہیں تو کم از کم مہرولی علاقے میں پانی کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہ تالاب دلی کو اجڑتے بستے ہوئے دیکھتا رہا ہے اور گزرتے دور کا گواہ ہے۔
اس نے سلطان التتمش کی خدا ترسی اور انصاف پروری دیکھی ہے اور اس کے بیٹے رکن الدین کا زوال وسلطانہ رضیہ کا عروج بھی دیکھا ہے۔ اس نے غلام خاندان کا خاتمہ دیکھا ہے اور خلجیوں کی حکومتیں بھی دیکھی ہیں۔ یہ وہ تالاب ہے جس نے تغلقوں، لودھیوں اور مغلوں کو بام عروج پر جاتے دیکھا اور پھر ان کی بادشاہت کو خاک میں ملتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
یہ تالاب سات سمندر پار سے آئے گوروں کے مظالم کا گواہ ہے اوراس نے انقلاب زندہ باد کی صدائیں بھی سنی ہیں۔ اب یہ آزاد ہندوستان کی جمہوریت کی داستان کو اپنے نادیدہ آنکھوں کے کیمرے میں قید کرتا جارہاہے مگر خود اپنے وجود کی لڑائی بھی لڑ رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اس کے اچھے دن آئیں گے یا یہ اپنا وجود کھودے گا اور اس کا ذکر صرف تاریخ کے صفحات تک محدود ہوکر رہ جائیگا؟