جھارکھنڈ میں اردو کی صورت حال بہت خراب ہے۔ مولانا محمد ولی رحمانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-03-2021
اجلاس کا ایک منظر
اجلاس کا ایک منظر

 

 

جھارکھنڈ میں اردو کی صورت حال بہت خراب ہے، اگر ہمیں اس کو اسکا واجب حق دلانا ہے تو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ طویل جد و جہد کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ہم جلدی نتائج کے طلب گار نہ بنیں ، اپنی سوچ کو بلند کریں ، مسلکی اختلافات سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، اپنے اور اپنیآنے والی نسلوں کے دین و ایمان کے تحفظ کے لیے متحدہ فکر کے ساتھ عملی اقدام کریں ، اپنے بچوں کو بنیادی دینی تعلیم دلائیں ، ان کی صحیح تربیت کریں ، بچپن سے ان کو اردو پڑھنے ، لکھنے بولنے کی مشق کرائیں اور ان کو تہذیب و شائستگی سکھائیں۔

ان خیالات کا اظہار امیرشریعت مفکر اسلام  مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے کیا ہے جو 14مارچ کو رانچی کے معروف تعلیمی ادارہ راعین گرلس اردو پلس ٹو ہائی اسکول میں اردو کی ترقی و تحفظ کے عنوان پر امارت شرعیہ کے زیر اہتمام منعقد مشاورتی اجلاس میں صدارتی خطاب کررہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اردو کی اپنی تہذیب و شائستگی ہے ، اس کی حفاظت ہمیں ہی کرنی ہے ، ہمیں احساس فخر کے ساتھ اردو تلفظ اور اردو الفاظ کو زبان پر چڑھانا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو کے تعلق سے خاص طور سے جھارکھنڈ میں موجود مسائل کا تفصیلی تذکرہ خطبۂ صدارت میں کیا، جس میں آپ نے اردو اسکولوں کی زبوں حالی، جھارکھنڈ میں اردو اکیڈمی قائم نہ ہونے،اردو اساتذہ کی بحالی کا مسئلہ،اردو کتابوں کی عدم اشاعت جیسے اہم اور بنیادی مسائل کا تذکرہ کیااور اس کے حل کی طرف رہنمائی کی ۔ آپ کے تفصیلی خطبۂ صدارت اور شرکاء کے تاثرات و مشوروں کی روشنی میں مندرجہ ذیل تجاویز بھی منظور کی گئیں،ان تجاویز کو مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے پڑھ کر سنایا اور سارے شرکاء مجلس نے ہاتھ اٹھا کر تائید کی۔

۔

اجلاس کے شرکاء کا احساس ہے کہ اردو کی بقاء ، ترویج و اشاعت اور تحفظ کے سلسلہ میں جھارکھنڈ میں کوئی منظم اور مربوط نظام نہیں ہے،جب کہ یہاں ان کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے طویل مدتی جد وجہد کی ضرورت ہے،اس لیے ضروری ہے کہ۔۔

 ۔(1)۔ ایک صوبائی کمیٹی ’’اردو کارواں‘‘ کے نام سے بنائی جائے جو جھارکھنڈ میں اردو کے مسائل حل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو

۔(2) جھارکھنڈ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ، لیکن اس سمت میں عملی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے ، اس کے لیے اردو کارواں کا ایک وفد وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم سے مل کر اردو سے متعلق مسائل سے انہیں با خبر کر ے اور ایک میمورنڈم پیش کرے تاکہ صوبے میں دوسری سرکاری زبان کے سلسلہ میں حکومتی سطح پر پیش رفت ہو سکے۔

 ۔(3) نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے مندرجات سے معلومات ہو تا ہے کہ اردو زبان کی تعلیم و تدریس آنے والے دنوں میں دشوار ہو گی ، اس لیے دانشورحضرات اورقانون دانوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے ، جو تعلیمی پالیسی کا بنظر غائر مطالعہ کر کے قانونی طور پر اس کے حل کا خاکہ بنائے اور اردو کو نئی تعلیمی پالیسی میں اس کا حق دلائے۔

۔(4) جھارکھنڈ میں اسکولوں میں اردو کی تدریس کا نظم نہیں ہے ، یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے ، تاکہ تمام اسکولوں میں اردو کے اساتذہ بحال کیے جائیں،تاکہ اردو پڑھنے والے طلبہ و طالبات کو دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 ۔(5)یہ اجلاس نجی اسکول، پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور کنوینٹ کے ذمہ داروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے اداروں میں اردو کی تعلیم کا معقول اور مناسب نظم کریں تاکہ اردو پڑھنے والے طلبہ بڑی تعداد میں ان کے یہاں داخل ہو سکیں،اور اردو پڑھ کر اس تہذیب و ثقافت کا حصہ بن سکیں جو ہمیں مطلوب ہے۔

 ۔(6)اردو زبان کی بقاء ترویج و اشاعت اور تحفظ کا بڑا ذریعہ ہمارے مکاتب مدارس ہیں ، مکاتب و مدارس کے ذریعہ اردو کے ساتھ ہماری دینی تعلیم و تربیت کا نظم بھی ہو تا ہے، اس لیے تمام مسلم آبادی میں مکاتب کے قیام کی تحریک چلائی جائے اور خود کفیل نظام تعلیم کو فروغ دیا جائے ، جس کا جامع منصوبہ امارت شرعیہ نے پیش کیا ہے۔

 ۔(7)یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ اردو والے اپنے گھروں میں اردو لکھنے ، پڑھنے ، بولنے کا مزاج بنائیں ، اس لیے کہ زبانیں سرکاری مراعات سے نہیں بلکہ پڑھنے ، لکھنے اور بولنے سے محفوظ ہوتی ہیں،اردو کے اخبارات و رسائل خرید کر پڑھیں،اردو کے کتب خانے قائم کریں ، دکانوں ، دفاتر اور مکانوں پر ناموں کی تختیاں اردو میں لگائیں، خطوط اور درخواستیں اردو میں لکھا کریں۔۔

۔(8)ندوستان اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے ، اس کا تقاضہ ہے کہ مسلمان ایک امت اور ایک جماعت بن کر زندگی گزاریں اور مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر دینی ، ملی اور لسانی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ جد و جہد کریں۔

۔(9)اجلا س کے شرکاء اس بات کاعہد کرتے ہیں کہ وہ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے حکم اور ہدایت کے مطابق بنیادی دینی تعلیم کے فروغ ، عصری تعلیمی اداروں کے قیام اور اردو کی بقاء و تحفظ کے لیے عملی جد و جہد میں اپنی حصہ داری نبھائیں گے اور ان شاء اللہ اسے تحریک کی شکل دے کر کام آگے بڑھائیں گے۔۔

 اس اجلا س میں ڈاکٹر مجید عالم ، ڈاکٹر احمد سجاد صاحب، سید تہذیب الحسن رضوی امام و خطیب مسجد جعفریہ رانچی،پروفیسر منظر حسین کلیروی سابق صدر شعبہ اردو رانچی یونیورسٹی،شہزادہ انور چتر پور رام گڑھ،ڈاکٹر وکیل احمد رضوی صاحب رانچی ،پروفیسر نور نبی صاحب دیوگھر ،اشفا ق احمد پلاموں، مولانا سہیل اختر بوکارو،پروفیسر منظور صاحب گریڈیہ،انوار احمد انجینئر دھنباد،ظفر امام صاحب جمشید پور،مولانا شریف احسن مظہری رانچی، انوار الہدیٰ صاحب کوڈرما،پروفیسر یسین قاسمی رانچی، جناب شاہ نواز احمد خان ہزاری باغ،مولانا قمر الزماں ندوی گڈاوی،حافظ ابو الکلام رانچی، حافظ احتشام صاحب سمڈیگا، مولانا احمد بن نذر چترا نے بھی اظہار خیال کیا اور مفید مشورے دیے۔اجلاس کی نظامت مولانا مفتی محمد سہراب ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ نے کی ، اجلاس کا آغاز مولانا شمس الحق قاسمی قاضی شریعت گریڈیہ کی تلاوت کلام پا ک سے ہوا،بارگاہ رسولؐ میں نذرانہ عقیدت مولانا ابو داؤد قاسمی دار القضاء رانچی نے پیش کیا۔مولانا محمد انور قاسمی قاضی شریعت رانچی نے استقبالیہ کلمات پیش کیے جس میں انہوں نے تمام مہمانوں ، منتظمین اور معاونین کا شکریہ ادا کیا اور پروگراموں کی تفصیلات سے شرکاء کو آگاہ کیا۔