نئی دہلی:دہلی کی روحانی فضا میں اس شام ایک دلکش منظر دیکھنے کو ملا۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ پر مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کے زیر اہتمام سالانہ جشنِ چراغ منعقد ہوا۔ دھنتیرس کے موقع پر منعقد یہ پروگرام مذہبی رواداری، قومی اتحاد اور بھارتی تہذیب کی اصل روح کا مظہر بن گیا۔ چراغوں کی جھلمل روشنی، قوالیوں کی وجد انگیز دھنیں اور عقیدت مندوں کی اجتماعی دعا نے اس روحانی محفل کو ایک پیغامِ امن میں بدل دیا۔درگاہ کی پاکیزہ فضا میں ہر سمت سے آئے زائرین نے اتحاد، انسانیت اور بھائی چارے کے لیے دعا کی۔ یہ منظر گویا اس بات کی تجدید کر رہا تھا کہ بھارت کی اصل طاقت اس کے تنوع اور گنگا جمنی تہذیب میں ہے۔ یہاں مذہب کی بنیاد نفرت نہیں بلکہ محبت اور ہمدردی ہے۔
ایم آر ایم کے سرپرست شری اندریش کمار نے درگاہ پر چادر پیش کی اور دعا مانگی کہ ملک میں امن، ترقی اور خوشحالی قائم رہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ آج بھارت کو تین بڑے چیلنج درپیش ہیں منشیات، فساد اور ماحولیاتی تباہی۔ ان سے نجات کی راہ تعلیم، تہذیب اور ترقی میں پوشیدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں جنگ و تشدد بڑھ رہا ہے، مگر بھارت ہمیشہ سے امن، اہنسا اور بھائی چارے کا پیغام دیتا آیا ہے۔ یہ بدھ، گاندھی، نانک اور وویکانند کی سرزمین ہے، جس نے ہمیشہ بقائے باہم کی تعلیم دی۔
ایک تنازعہ بھی
اس سے قبل مسلم راشٹریہ منچ کی طرف سے 18 اکتوبر کو درگاہ حضرت نظام الدین میں منعقد ہونے والے جشن چراغ پروگرام کو لے کر ایک تنازعہ کھڑا ہو ا۔ کیونکہ درگاہ مینجمنٹ کمیٹی نے اس پروگرام کی مخالفت کرتے ہوئے پولس میں شکایت درج کرائی ہے کہ یہ غیر مجاز ہے اور مذہبی سرگرمیوں اور امن میں خلل ڈال سکتا ہے۔ آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار کی شرکت کے ساتھ تقریب کا انعقاد ہوا ۔دوسری جانب غازی آباد، اتر پردیش: مسلم مہاسبھا کے قومی ترجمان حاجی ناظم خان کا کہنا ہے کہ "دیوالی ہمارے ہندو بھائیوں کے لیے ایک عظیم تہوار اور ایمان کا معاملہ ہے، اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم، حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ پر دیے جلانے کی جو تجویز دی جا رہی ہے، وہ ناقابل قبول ہے۔
A controversy has erupted over the Jashn-e-Chiragh event at Hazrat Nizamuddin Dargah planned by the Muslim Rashtriya Manch on October 18. The Dargah Management Committee has opposed the program, filing a police complaint claiming it is unauthorized and could disrupt religious… pic.twitter.com/YtGjXmw8aF
— IANS (@ians_india) October 17, 2025
صوفیانہ رنگ میں اتحاد کا پیغام
درگاہ میں صوفی قوالوں کی آوازوں نے فضا کو نورانی بنا دیا۔ عقیدت مندوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ اے خدا، ہمارے ملک میں امن قائم رکھ ۔ افسر نظامی اور سالمی نظامی نے کہا کہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ ہمیشہ محبت اور انسانیت کی علامت رہی ہے۔ یہاں سے نکلنے والا ہر پیغام دلوں کو جوڑنے والا ہوتا ہے۔
صوفیت اور قوم پرستی کا سنگم
اندریش کمار نے کہا کہ صوفی روایت اور قوم پرستی ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔ یہی بھارت کی اصل شناخت ہے ایک ایسا ملک جہاں مذہب، ثقافت اور قوم پرستی ہم آہنگی کے ساتھ چلتی ہیں۔
ڈاکٹر شاہد اختر کا پیغام: تعلیم، تہذیب اور ترقی ہی امن کی کنجی
قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارے کے قائم مقام چیئرمین ڈاکٹر شاہد اختر نے کہا کہ دنیا کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت تعلیم، تہذیب اور ترقی کی ہے۔ جب معاشرہ تعلیم یافتہ ہوگا اور مکالمے کا عادی بنے گا، تو نفرت اور جنگ کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی اصل طاقت اس کی کثرت میں وحدت ہے، جسے ایم آر ایم بین المذاہب مکالمے کے ذریعے مزید مستحکم کر رہا ہے۔
ڈاکٹر شالینی علی: دلوں کو منور کر کے بھارت کو مضبوط بنائیں
ایم آر ایم کی ویمنز ونگ کی سربراہ ڈاکٹر شالینی علی نے کہا کہ حقیقی روشنی چراغوں سے نہیں بلکہ انسان کے دل سے آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم آر ایم کا پیغام مذہبی ہی نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی بھی ہے نفرت چھوڑو، منشیات چھوڑو اور ایک تعلیم یافتہ، مضبوط بھارت بناؤ۔
شاہد سعید: بھارت محبت پر چلتا ہے، نفرت پر نہیں
ایم آر ایم کے نیشنل کنوینر اور سینئر صحافی شاہد سعید نے کہا کہ جب دنیا میں کچھ عناصر نفرت پھیلاتے ہیں تو ایسے مواقع سماج کو نئی سمت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ درگاہ سے اٹھنے والا یہ پیغام یاد دلاتا ہے کہ بھارت محبت پر چلتا ہے، نفرت پر نہیں۔
اجتماعی دعا میں اتحاد کی صدا
تقریب میں مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات شریک ہوئیں۔ سب نے ملک کی سلامتی اور یکجہتی کے لیے دعا کی۔ پروگرام کے اختتام پر درگاہ چراغوں کی روشنی اور صوفی قوالیوں کی گونج سے روشن رہی۔ پیغام ایک ہی تھا بھارت علم، تہذیب اور انسانیت کا پیکر ہے، اور یہی امن کا راستہ ہے۔
اندریش کمار کا اختتامی کلام: بھارت ایک خیال، ایک تہذیب
انہوں نے کہا کہ بھارت صرف ایک ملک نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے جو دنیا کو عدم تشدد اور محبت کی راہ دکھاتا ہے۔ اگر دنیا بھارت کے ماڈل کو اپنائے تو جنگوں کی جگہ مکالمہ اور نفرت کی جگہ دوستی لے سکتی ہے۔آخر میں اجتماعی دعا ہوئی بھارت پہلے، انسانیت سب سے اونچی۔درگاہ سے اٹھنے والی یہ صدا پورے ملک میں گونج گئی بھارت رہے گا دنیا کے امن کا پیامبر۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ عشق، علم اور انسانیت کے سفیر
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ، جنہیں محبوبِ الٰہی بھی کہا جاتا ہے، برصغیر کی روحانی تاریخ کا وہ روشن باب ہیں جنہوں نے انسانیت، محبت اور اخوت کی تعلیم دی۔ آپ 1238ء میں بدایوں (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے علم و معرفت کی جستجو تھی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بدایوں میں حاصل کی اور پھر دہلی آ کر حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے مرید بنے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب آپ کی زندگی کا مقصد دنیا سے بے نیازی اور خلقِ خدا کی خدمت بن گیا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے تصوف کو زندگی کا محور بنایا۔ آپ کا پیغام ذات پر نہیں بلکہ انسانیت پر مبنی تھا۔ آپ نے کہا، اگر کوئی انسان بھوکا ہے اور تم نماز پڑھ رہے ہو تو تمہاری نماز ادھوری ہے۔ اس جملے میں ان کی تعلیمات کا خلاصہ چھپا ہے عبادت کا مقصد محض رسم نہیں بلکہ انسان کی خدمت ہے۔آپ کے خانقاہی نظام نے دہلی اور پورے ہندستان میں روحانی بیداری پیدا کی۔ آپ کے دربار میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، سب بلا امتیاز آتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ محبت، صبر، عفو اور درگزر کا پیغام دیا۔ آپ کے شاگرد حضرت امیر خسروؒ نے نہ صرف اردو-ہندی زبانوں کے سنگم کو مضبوط کیا بلکہ موسیقی اور قوالی کے ذریعے صوفی پیغام کو عام کیا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے نزدیک انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہر دل خدا کا گھر ہے، اسے توڑو مت۔ آپ کی تعلیمات نے برصغیر میں امن، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کی۔ آج بھی آپ کی درگاہ اسی رواداری اور اتحاد کی علامت ہے جہاں ہر مذہب، ہر ذات اور ہر طبقے کا انسان سکون پاتا ہے۔آپ کی زندگی خدمت خلق، علم و عرفان اور روحانیت کی عملی تفسیر تھی۔ آپ کا دربار دہلی کی روح ہے، جہاں صوفی قوالیاں، چراغوں کی روشنی اور دعا کے لمحے انسان کو خود اس کے خالق سے جوڑ دیتے ہیں۔حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا پیغام آج بھی زندہ ہے محبت، صبر، رواداری اور انسان دوستی کا پیغام۔ وہ پیغام جو مذہب کی سرحدوں سے بلند ہے، جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے، اور جو کہتا ہے کہ محبت سب سے بڑی عبادت ہے۔