مولاناجلال الدین رومی کی سرزمین پرطالبان کااقتدار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
مولاناجلال الدین رومی (ایک تصوراتی خاکہ)
مولاناجلال الدین رومی (ایک تصوراتی خاکہ)

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

افغانستان کو روحانیت کی سرزمین ہونے کا شرف حاصل رہاہے۔ بڑے بڑے صوفیہ نے اس دھرتی پرجنم لیایا اس خطے کو اپنے روحانی فیوض سے مالا مال کیا۔ ابراہیم بن ادہم، مولاناجلال الدین رومی سے لے کرخواجہ سلیمان تونسوی تک کارشتہ اس علاقے سے رہا ہے۔

لاہورکے معروف بزرگ داتاگنج بخش شیخ علی ہجویری بھی بنیادی طور پرافغانستان سے ہی تھے مگرلاہورکو قیام کے لئے پسند کیا تھا۔ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ برصغیرمیں آنے والے تقریباً تمام صوفیہ اور اولیاافغانستان کے راستے سے ہی اس خطے میں آئے۔

آج افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے جنھیں عالمی میڈیادہشت گرد،شدت پسند اور انتہاپسندکے القاب سے یاد کرتاہے۔ حالانکہ طالبان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جوتصوف کا انکار تونہیں کرتے مگر مزارات صوفیہ واولیا کے تعلق سے الگ نظریہ رکھتے ہیں۔

وہ رسوم مزارات جیسے چادر چڑھانے، پھول چڑھانے،عرس اور قوالی وغیرہ کے قائل نہیں ہیں۔

افغانستان میں بلخ کانام کافی شہرت کا حامل ہے۔ معروف صوفی ابراہیم ادہم ،راہ سلوک پر چلنے سے قبل اسی علاقے کے بادشاہ تھے۔

افغانستان کے بلخ میں تربیت پانے والافلسفی ابن سینا

دنیا بھر میں شہرت رکھنے والے فلسفی وسائنسداں ابوعلی ابن سینا کی پرورش اور تعلیم بلخ میں ہی ہوئی تھی اور دنیا بھرمیں تصوف اور شاعری کی شناخت قائم کرنےوالے مولاناجلال الدین رومی کی زندگی کا آغاز بھی بلخ میں ہوا۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی افغانستان والے ان کا نام فخرسے لیتے ہیں اور ’’رومی‘‘ سے قبل ’’بلخی‘‘ کہتے ہیں

۔یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ہندوستان میں بہت سے صوفیہ بلخ سے آئے اور پھر انھوں نے مستقل طور پر اسی ملک کو ٹھکانہ بنایا۔ آج بھی ہندوستان میں بلخی صوفیہ کا طویل سلسلہ قائم ہے۔ ایک اور وضاحت برمحل ہے کہ موجودہ افغانستان کا بڑا حصہ ماضی میں خراسان حکومت کے ماتحت آتا تھا۔

جن صوفیہ کے سبب افغانستان کا نام عالمی نقشےپرآتاہے،ان میں نمایاں نام مولاناجلال الدین رومی کا ہے۔وہ1207میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ حالانکہ وہ بچپن میں ہی اپنے والدمحترم بہااءالدین ولد کے ساتھ بلخ سے ہجرت کر گئے تھے۔

مولاناکے والدجب تک خراسان میں رہے،درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ شاہانہ زندگی گزارتے اور ’’سلطان العلماء‘‘کا لقب بھی رکھتے تھے۔علاقے کے حالات خراب ہوئے اور بدامنی پھیلی تو ہجرت کر گئے اور قونیہ میں قیام فرمایا جو یوروپ میں واقع ہے۔ یہ ایک مدت تک روم کے ماتحت رہالہٰذا اسی مناسبت سے روم کا خطہ ماناجاتا تھا اور مولانا جلال الدین بھی ’’رومی‘‘ کے لقب سے پکارے جانے لگے۔

مولاناجلال الدین رومی کا علمی اور روحانی مقام بہت بلندہے۔ انھوں نے ایک زمانے کو متاثرکیا۔ ان کے صوفیانہ خیالات اور ان کی شاعری آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ایشیا میں وہ صدیوں سے پڑھے جارہے ہیں مگرگزشتہ کچھ دہائیوں سے یوروپ بھی ان کی خوشہ چینی کر رہاہے اور ان کی شاعری کا ترجمہ انگلش اور دوسری مغربی زبانوں میں ہورہاہے۔اقوام متحدہ نے2007کورومی کے سال کے طور پرمنایا۔

مولانا کی کتابوں میں’’دیوان شمس تبریزی‘‘اور’’مثوی معنوی‘‘ معروف ہیں۔دونوں کتابوں میں ان کی شعری تخلیقات ہیں۔ دیوان میں غزلیں ہیں جن کے اشعاردردِمحبت سے بھرپورہیں۔جب کہ مثنوی میں سبق آموزقصے ہیں۔

مولانارومی کا تعلق تصوف سے تھالہٰذا ان سے ایک صوفی سلسلہ چل پڑاجسے سلسلہ مولویہ کہاجاتاہے۔کچھ علاقوں میں اسے سلسلہ جلالیہ بھی کہتے ہیں۔ یہ سلسلہ سنٹرل ایشیا اوراور بعض افریقی ملکوں میں رائج ہے۔ اس سلسلہ میں ذکرکا طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص ایک مقام پر کھڑے ہوکردائرے میں گھومتاہے۔ اس بیچ دف بھی بجایا جاتاہے۔

ان دنوں یہ رقص، تصوف کی علامتی پہچان بن گیا ہے۔ ترکی آنے والے سیاح اسے ضرور دیکھتے ہیں۔ موجودہ دور میں جب کہ سماج میں تشدداور دہشت گردی عام ہے۔ انسانیت کا احترام کم ہواہے اور انسان ،انسان سے دور ہواہے،ایسے میں رومی کی تعلیمات کی معنویت بڑھ گئی ہے۔

خاص طور پر ان کے مادر وطن افغانستان کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،ایسے میں رومی کے پیام امن وآشتی اور محبت وبھائی چارہ کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔