اسلام کی نظر میں تحفظ ماحولیات کی اہمیت

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 27-11-2021
اسلام کی نظر میں تحفظ ماحولیات کی اہمیت
اسلام کی نظر میں تحفظ ماحولیات کی اہمیت

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

اس وقت ہندوستان کے بیشتر شہر اور شہروں کے قریب کے گائوں ماحولیاتی کثافت کی زد میں ہیں، حالانکہ یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا نہیں بلکہ عالمی ہے اور دنیا کے بیشتر ملکوں میں کثافت کے سبب انسان ہی نہیں جانور بھی پریشان ہیں ۔ یہ کثافتیں کئی قسم کی ہیں مثلاً ماحولیاتی کثافت، آواز کی کثافت اورروشنی کی کثافت۔ ان تمام قسم کی کثافتوں نے انسانی صحت پر زبردست اثرڈالا ہے اور طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

ماحولیاتی کثافت میں دن بہ دن اضافہ کے سبب کائنات کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے اور فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے پہاڑوں میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ گلیشیر پگھل رہے ہیں اور زمین کی منجمد سطحیں متاثر ہو رہی ہے۔ پیداوار میں اضافہ کے لئے کیمیائی کھادوں کے اندھا دھند استعمال سے مٹی کی قوت نمو میں کمی آرہی ہے اور ماحولیاتی مسائل روزافزوں ہیں۔

پلاسٹک اور دیگر قسم کی جدید مصنوعات کے استعمال اور ان کے کچرے نے گلوبل وارمنگ کی تشویش ناک صورت حال پیدا کردی ہے۔ جہاں ایک طرف فیکٹریوںاور رہائشی اپارٹمنٹس کے سبب جنگلات میں کمی آرہی ہے وہیں دوسری طرف ڈیزل، پٹرول، بجلی اور ایٹمی توانائی کے بے جا استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن اور آکسیجن کا توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ گرین ہاؤس کیس سے قطبین پر جمی برف پگھلنے لگی ہے جس سے سمندرکی آبی سطحیں بلند ہورہی ہیں اور خشکی کم ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی ساحلی شہروں،جزیروں اورممالک کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔

بھارت ،پاکستان اور چین جیسے ملکوں میں کئی شہر آلودگی کی وجہ سے رہائش کے قابل نہیں بچے ہیں اور یہاں رہنے والے پھیپھڑوں کے امراض کے مستقل مریض ہیں۔اس میں کسی کو شک نہیں ہوسکتا کہ خدا کی دنیا انسانوں کے اپنے کرتوت کے سبب ہی تباہی کے دہانے پر پہنچی ہے اور جانداروں کا یہاں رہنامشکل ہورہاہے۔انسانوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب ہی دنیا کو فساد کا سامنا ہے۔

زمین میں فساد کی ممانعت

ماحولیاتی کثافت سے بچائو کا صرف اور صرف ایک راستہ ہے کہ انسان ایک بار پھر مشینی زندگی سے فطری زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ فطرت کے قانون کی خلاف ورزی کرکے جو اس نے زمین پر فساد برپا کیا ہے اس سے احتراز کرے۔ اس کائنات کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور یہاں فتنہ وفساد برپاکرنے سے اس نے منع فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(الانعام:َ ۱۴۱)

ظاہر ہے کہ آج گلوبل وارمنگ سے متعلق جو بھی مسائل ہیں،وہ انسان کے حد سے تجاوز کرنے کے سبب ہی ہیں۔ غیر فطری زندگی گزارنا اللہ ورسول کی مرضی ومنشا کے خلاف ہے اور یہ’’ فساد فی الارض‘‘ کے دائرے میں آتا ہے جس کی ممانعت بار بار قرآن میں کی گئی ہے۔

قرآن کریم میں فساد کا لفظ زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے اور اس کے دائرے میں تمام اخلاقی جرائم آتے ہیں جس سے فطری زندگی کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور روئے زمین پر تباہی آتی ہے۔

اسلام میں شجرکاری کی اہمیت انتہائی افسو س کی بات ہے کہ آج دنیا کو بچانے کے لئے جن اقدام کی ضرورت ہے ان پر ہم عمل نہیں کرتے۔ حکومت کی طرف سے بار بار متنبہ کیا جاتا ہے کہ ماحولیات میں پیدا ہورہی خرابی کا ایک بڑا سبب درختوں کی کٹائی اور دنیا سے ہریالی کا خاتمہ ہے مگر باوجود اس کے یہ سلسلہ جاری ہے۔نئے نئے شہر آباد ہورہے ہیں اور ہریالی کا خاتمہ ہورہاہے۔ جنگل کاٹے جارہے ہیں۔اگر سبز درختوں کو کٹنے سے روکا جائے اور نئے درخت لگائے جائیں تو بہت حد تک کثافت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اسلام نے اس جانب متوجہ کیا ہے مگر ہم اس جانب کبھی توجہ نہیں کرتے۔ احادیث نبویہ میں شجرکاری کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’

جومسلمان بھی پودا لگائے گا، اور اس سے کچھ کھالیاجائے گا، وہ اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا اور جو چوری کرلیاجائے، وہ قیامت تک کے لئے اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۵۵۱)

ایک دوسری روایت میںہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخض پودا لگائے گا، اس کے لئے اس پودے سے نکلنے والے پھل کے بقدر ثواب لکھاجائے گا۔‘‘(مسند احمد، حدیث نمبر۰۲۵۳۲)

سبزہ کے تحفظ کا حکم

اسلام نے جہاں ایک طرف درخت لگانے کا حکم دیا ہے وہیں دوسری طرف سبز درختوں کو کاٹنے کی سختی کے ساتھ ممانعت بھی کی ہے۔ یہاں تک کہ اس بات کی بھی اجازت نہیں کہ حالت جنگ میں دشمنوں کے کھیتوں کو برباد کیا جائے اور ہرے بھرے درختوں کو کاٹا جائے۔ سبزہ کے تحفظ کا تصور سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ رسول اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جو کسی بیری کے درخت کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ جہنم میں اس کے سر کو اوندھا کردے گا۔‘‘ (سنن ابی دائود، حدیث نمبر ۹۳۲۵)

اس حدیث میں اگرچہ بیری کے درخت کی بات کہی گئی ہے مگر یہ حکم عام ہے اور دوسرے درختوں کے لئے بھی ہے۔ پانی کی حفاظت کیجئے۔

اس وقت ملک کے کئی حصوں میں پانی کی کمی ہے اور کئی ریاستیں سوکھے کی زد میں ہیں۔لوگوں کو پینے کے لئے بھی پانی نہیں مل پارہاہے۔جس کے سبب مہاراشٹر کے لاتور سے بہت سے شہری اپنے گائوں چھوڑ کر ممبئی کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ پانی زندگی کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر نہ تو انسان کی زندگی کرہ ارض پر باقی رہ سکتی ہے اور نہ ہی جانور اور پیڑ پودے یہاں باقی رہ سکتے ہیں۔

اسی لئے اسلام نے پانی پر کسی ایک شخص کی اجارہ داری کوقبول نہیں کیا ہے اور اس کے بقا کی ذمہ دار بھی سب پر ڈالی ہے۔پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ موثر اور منصفانہ تعلیمات دی ہیں۔پانی کو ضائع کرنے سے روکا گیا ہے،ٹھہرے یا بہتے ہوئے پانی میں پیشاب اور پاخانہ کرنے کو منع کیا گیا ہے۔یہاں تک کہ اس میں پھونکنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔پانی کے تحفظ کے لئے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو (۱) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (۲) راستہ میں پاخانہ کرنے سے (۳) سایہ دارجگہوں میں پاخانہ کرنے سے۔‘‘ (سنن ابی دائود حدیث نمبر ۶۲)

گھاٹ ،نہر ، نالہ اور ندی کے کنارے رفع حاجت کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ نجاست کے اثرات پانی میں پہنچ کر اسے آلودہ کرسکتے ہیں۔غور کا پہلو یہ ہے کہ جس اسلام نے پانی کے قریب نجاست سے منع کیاہے، کیا وہ اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ شہر بھر کی غلاظت ندیوں میں بہادیا جائے۔ آج گنگا، جمنا سمیت بڑی بڑی ندیاں کی آلودگی کا ایک سبب ہے شہر بھر کی گندگی کا ندیوں کے اندر بہایا جانا۔اسلام کی نظر میںپانی، وہ چیز ہے جس پر سب کا حق ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی پورے انسانی معاشرے کی ہے۔ فرمان نبوی ہے:

’’لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، گھاس اور آگ‘‘(مسند الحارث حدیث نمبر ۹۴۴)

صوتی آلودگی

عہد حاضر کا ایک بڑا مسئلہ صوتی آلودگی بھی ہے۔ٹرافک ، موٹر گاڑیوںاور کل کارخانوںکے شور کے سبب بہرے پن کی شکایت بھی روزبروز عام ہوتی جارہی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب غیرفطری طرز زندگی کی دین ہے اور جہاں ہم اس آلودگی سے بچ سکتے ہیں وہاں بھی بچنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ ٹرافک میں پھنسی گاڑیاں غیرضروری طور پر ہارن بجاتی ہیں اور اس سے بھی صوتی آلودگی پھیلتی ہے۔قرآن کریم میں حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت نقل کرتے ہوئے ارشاد باری ہے:

’’اور اپنی آواز کو پست رکھ، بے شک سب سے زیادہ مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘(لقمان:۹۱) 

قابل فکر پہلو ہے کہ جب تیزاور کرخت آواز میں گفتگو کی اجازت نہیں تو صوتی کثافت پھیلانے کی اجازت اسلام کیسے دے سکتا ہے؟ اسلام کے ماننے والے بھی اسلام کی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں اور ان پہلووں پر غور نہیں کرتے۔ہماری مساجد جنھیں اسلام کی تعلیمات کا مرکز ہونا چاہئے کیونکہ یہ اسلام کا چہرہ ہیں،وہیں سے مائک کے ذریعے کرخت آواز میں اذان، خطبہ اور اعلانات بلند ہوتے ہیں۔ کیا ہمیں کبھی یاد آتا ہے کہ مسجد سے بلند ہونے والی آواز کو اعتدال میں رکھیں۔حد سے زیادہ بلندآواز دل کے مریضوں کے لئے بھی تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔