حکومت فوری طور غیر آئینی وقف ترمیمی بل کو واپس لے :مولانا خالد سیف اللہ رحمانی/مولانا فضل الرحیم مجددی
بنگلور: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی وقف ترمیمی بل کی مخالفت کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وقف کا مسئلہ ملت اسلامیہ کے ملی وجود کا مسئلہ ہے، اگر یہ وقف ترمیمی بل پاس ہوگیا تو ہمارے مساجد و مدارس، خانقاہیں، درگاہیں، قبرستانیں سب کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ بات انہوں نے مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقدہ ہفت روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی اختتامی نشست کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ وقف املاک حکومت کی مہربانی سے مسلمانوں کو نہیں ملی بلکہ مسلمانوں کے آباؤ اجداد نے اللہ کے نام پر دینی و خیراتی ضرورتوں کے لئے اپنی حق حلال کی کمائی وقف کی ہے۔ لہٰذا حکومت کا وقف ترمیمی بل کے ذریعے وقف املاک کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش غیر آئینی و غیر دستوری ہے- انہوں نے کہا کہ مسلمانوں اور تمام انصاف پسند افراد کو وقف بل کی مخالفت کرنی چاہئے۔ بورڈ اس بل کو روکنے کے لیے قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے مختلف سطح پر کوشش کر رہا ہے، اور وہ حالات کو سامنے رکھ کر احتجاج کی مختلف امن صورتوں کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ بورڈ جب بھی آواز دے، اور جس بات کی اپیل کرے، تمام مسلمان دل و جان سے اس پر عمل کریں، اور وقف کی اہمیت کے پیشِ نظر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار رہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جمہوری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس بل کو واپس لے لے اور ایسا قانون بنانے سے گریز کرے جو اقلیت دشمنی پر مبنی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی (رکن تاسیسی بورڈ) نے کہا کہ اب تک مختلف قوانین کے ذریعے مسلمان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ وقف ترمیمی بل سب سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ اس سے ہماری مساجد، مدارس، خانقاہیں، قبرستان، وغیرہ سب داؤ پر لگ جائیں گی اور اگر یہ بل پاس ہوگیا تو انکا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ سابقہ وقف قانون وقف املاک کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کافی تھا لیکن مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کو ہڑپنے کی گھناؤنی سازش ہے، اس بل میں وقف ٹربیونل کو ختم کرکے سارے اختیارات کلکٹر کو دئے جارہے ہیں اور وقف بائے یوزر کو بھی ختم کردیا جارہا ہے۔ ظاہر ہیکہ وقف کے تعلق سے حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، یہ مسئلہ ملت کی موت و حیات کا ہے، اس کیلئے ہم سب کو تیار رہنا ہے اور آخری حد تک اس کے خلاف لڑائی لڑنی ہے، اس سلسلے میں متحد ہو کر ہم سب کو عوامی بیداری پیدا کرنی چاہیے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے فرمایا کہ وقف خالص مذہبی و دینی مسئلہ ہے، ہم اس ملک میں اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ رہیں گے، وقف ترمیمی بل ہماری مذہبی آزادی میں مداخلت ہے، اور ہماری مذہبی آزادی میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، لہٰذا حکومت اسے فوراً واپس لے، یہی ملک و ملت کے حق میں بہتر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف بائی یوزر کو ختم کرنا، سارے اختیار کلکٹر کے حوالے کرنا اور وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت وقف املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے- یہ مسلمانوں کو کبھی منظور نہیں ہے- اگر حکومت نے یہ غیر دستوری بل زبردستی پاس کروایا تو مسلمان اپنی آئینی و جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اس بل کے خلاف تاریخ ہند کا سب سے زبردست اور سخت ترین احتجاج درج کرائے گا۔
بورڈ کے سکریٹری اور مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نےکہا کہ وقف ترمیمی بل اپنے مشمولات کے اعتبار سے نہایت نقصاندہ ہے، یہ بل قانون کے نام پر لاقانونیت ہے، حکومت کی منشاء وقف جائیدادوں پر قبضہ کا ہے۔ ہماری بنیادی ذمہ داری ہیکہ ہم اس بل کو پوری قوت کے ساتھ بالکلیہ مسترد کریں۔ ضرورت ہیکہ ہم عوامی بیداری پیدا کریں اور اپوزیشن نیز حلیف پارٹیوں سے دوٹوک بات کی جائے کہ پارلیمنٹ میں اس بل کی مخالفت کریں۔مولانا نے فرمایا کہ اس ملک میں اگر ہمیں اپنے حقوق کی حفاظت کے ساتھ جینا ہے تو ہمیں حق لینا کا ہنر بھی جاننا ہوگا، زندہ قومیں ہمت و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں، لہٰذا اگر یہ بل واپس نہیں ہوتا تو بوقت ضرورت بورڈ کی آواز پر ہمیں ملک گیر احتجاج کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔
امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد رشادی (رکن عاملہ بورڈ) نے کہاکہ وقف املاک اللہ کی ملکیت ہوتی ہے، موجودہ حکومت وقف ایکٹ میں ترمیمات ذریعے ہماری وقف جائیدادوں کی حیثیت کو گھٹانے اور ان پر قبضے کرنے کی کوشش کررہی ہے، لہٰذا ہماری دینی و ملی ذمہ داری ہیکہ ہم اس کی حفاظت کیلئے کوشش کریں۔
جمعیۃ علماء ہند کے رکن عاملہ مولانا رحمت اللہ کشمیری (رکن تاسیسی بورڈ) نے کہاا کہ وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن رخ ہے، لہٰذا اوقاف کی حفاظت کیلئے امت کو بیدار کرنا چاہیے۔
امیر شریعت شمال مشرقی ہند حضرت مولانا محمد یوسف علی (رکن تاسیسی بورڈ) نےکہا کہ اوقاف کی حفاظت اوت وقف ترمیمی بل کی مخالفت اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔
امیر شریعت بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی (سکریٹری بورڈ) نےکہا کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل اوقاف کی جائدادوں کو کنٹرول کرنے، مسلمانوں کو وقف املاک سے محروم کرنے اور وقف کرنے کی استطاعت کو محدود کرنے کیلئے لایا جارہا ہے۔ یہ بل دستور ہند کے خلاف ہے، اور مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت ہے۔ مولانا نے اس بل کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ضرورت ہیکہ اس بل کے خلاف ہم اٹھ کھڑے ہوں اور اپوزیشن کو بھی اس کیلئے آمادہ کریں۔
جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مفتی افتخار احمد قاسمی (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند) نے کہا کہ وقف ترمیمی بل وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو تہس نہس کرنے، ہڑپنے اور مسلمانوں کو انہی کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی موجودہ حکومت کی سوچی سمجھی ایک گھناؤنی سازش ہے۔
کانفرنس سے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب مولاناہوئی مقصود عمران رشادی نےکہاکہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کو یلئے نقصان دہ ہے۔
قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی اختتامی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔