مدرسوں سے ملک کوغلامی سے آزادکرانے کی پہلی آوازاٹھی تھی:مولانا ارشدمدنی

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 03-06-2025
 مدرسوں سے ملک کوغلامی سے آزادکرانے کی پہلی آوازاٹھی تھی:مولانا ارشدمدنی
مدرسوں سے ملک کوغلامی سے آزادکرانے کی پہلی آوازاٹھی تھی:مولانا ارشدمدنی

 



نئی دہلی،: مدرسے ہماری دنیا نہیں، دین ہیں، یہ ہماری پہچان ہیں اورہم اپنی اس پہچان کو مٹانے نہیں دیں گے“یہ الفاظ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی کے ہیں جو انہوں نے گزشتہ یکم جون کی شب میں اعظم گڑھ کے قصبہ سرائے میرمیں منعقد ”تحفظ مدارس کانفرنس“سے خطاب کرتے ہوئے کہے۔

آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق انہوں نے کہا کہ یہ کوئی عام اجلاس نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اہم اجلاس ہے جو موجودہ صورتحال میں مدارس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سنجیدگی سے غوروخوض کرنے اور آگے کے لئے ایک مؤثرلائحہ عمل تیارکرنے کے لئے منعقد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مدارس محض درسگاہیں نہیں ہیں، ان کامقصدپڑھنے پڑھانے تک ہی محدودنہیں بلکہ ملک وقوم کی خدمت کے لئے نونہالوں کی ذہن سازی کرنابھی رہاہے۔انہوں نے کہا کہ آج جن مدرسوں کو غیر قانونی قراردیکرجبرابندکروایاجارہاہے یہ وہی مدرسے ہیں جہاں سے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادکرانے کے لئے پہلی آوازاٹھی تھی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ آج جو لوگ اقتدارمیں ہیں وہ کچھ پڑھنا اورجاننانہیں چاہتے بلکہ تاریخ کو مسخ کرکے ایک مخصوص رنگ دینا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ 1803میں جب ملک پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہوگیا تودہلی سے اس وقت کی ایک عظیم مذہبی وروحانی شخصیت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ نے اپنے مدرسہ رحیمیہ سے ایک ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر یہ اعلان کیا کہ ملک اب غلام ہوگیا اس لئے اب ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے جہاد کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے اس اعلان کی پاداش میں ان کے مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئیں اورمحدث دہلوی پر ظلم وستم کے پہاڑتوڑدیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخ ہے اور اسے جھٹلایانہیں جاسکتا، 1857کی بغاوت کو ہی دیکھیں جسے انگریزوں نے غدرکا نام دیاتھا اس بغاوت کی پاداش میں صرف دہلی میں 32 ہزار علماء کو قتل کیاگیا، قربانیوں کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکامسلسل جاری رہاہمارے اکابرین اور اسلاف کی ڈیڑھ سوسالہ جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں یہ ملک آزادہوا، ہم یہ بات علی الاعلان کہہ رہے ہیں یقین نہ آئے توتاریخ کی کتابیں کھول کر پڑھ لو، دارالعلوم دیوبند کاقیام ہی اسی مقصدسے ہواتھا کہ وہاں سے ملک کی جدوجہد آزادی کے لئے نئے مجاہدپیداکئے جائیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ تاریخ سے نابلدلوگ آج انہی مدرسوں کو دہشت گردی کا اڈہ قراردے رہے ہیں، یہ الزام بھی لگایا جاتاہے کہ مدرسوں میں بنیادپرستی کی تعلیم دی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ اترپردیش سے لیکر اتراکھنڈ،آسام اورہریانہ تک مدرسوں اورمسجدوں کے خلاف کارروائی مذہب کی بنیادپر ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری اورسیکولر ملک میں یہ تفریق اور ناانصافی کیوں؟ جبکہ ملک کے آئین نے ہر شہری کو یکساں حقوق اوریکساں اختیارات دیئے ہیں؟ جواب آسان ہے ایک مخصوص نظریہ کے تحت اکثریت اوراقلیت کے درمیان نفرت کی خلیج پید اکی جارہی ہے یہ اقتدارکے حصول اوراکثریت کو اقلیت کے خلاف صف بند کرنے کی ایک منصوبہ بند سازش ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک سیکولرملک ہے اس لئے مذہب کی بنیادپر کسی مخصوص فرقہ کے ساتھ زیادتی اورناانصافی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، مگر افسوس آج کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ کھلے عام ایک مخصوص فرقہ کے خلاف مذہب کی بنیادپر امتیازہورہاہے اور اسے یہ باورکرانے کی سازش ہورہی ہے کہ اس کے شہری حقوق ختم کردیئے گئے ہیں۔

مولانامدنی نے آگے کہا کہ حالات خواہ کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس طرح کے حالات کا مقابلہ عزم وحوصلہ اوراستقامت کے ساتھ کیا جائے جمعیۃعلماء ہند نے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ملک میں امن واتحاد اور استحکام قائم کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی ناانصافی، امتیازاور ظلم وجبر کے خلاف مسلسل جدوجہد کی ہے اور آئندہ بھی پوری طاقت کے ساتھ کرتی رہے گی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری لڑائی حکومت سے ہے، عوام سے نہیں، مدارس اسلامیہ ہماری شہ رگ ہیں، اور ایساکرکے ہماری شہ رگ کو کانٹ دینے کی منصوبہ بند ساز ش شروع ہوئی ہے، غیر قانونی کہہ کر مدارس کے خلاف کارروائی کی تازہ مہم سپریم کورٹ کے فیصلہ کی توہین کے مترادف ہے، جمعیۃعلماء ہند اس سازش کے خلاف ایک بار پھراپنی قانونی جدوجہد شروع کرچکی ہے، اس لئے کہ مدارس کی حفاظت دین کی حفاظت ہے، ہم جمہوریت،آئین کی بالادستی اورمدارس کے تحفظ کے لئے قانونی اورجمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔

انہوں نے ارباب مدارس کاحوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند آپ کے ساتھ کھڑی ہے اوریہ آپ کو ہر طرح کا تعاون اورقانونی مددفراہم کریگی، اس کے علاوہ جمعیۃعلماء اترپردیش نے ایک آرکٹیکٹ پینل تشکیل دیدیاہے جو مسجدوں اورمدرسوں کی تعمیر کے لئے نقشہ کی منظوری اورکمپاؤنڈجیسے مسئلہ کے حل کے لئے آپ کی مددکریگا، جمعیۃعلماء ہند کا قانونی پینل پہلے سے موجودہے جو ہائی کورٹوں سے لیکر سپریم کورٹ تک سیکڑوں مقدمات لڑرہاہے۔ مولانا مدنی نے ارباب مدارس کو یہ صلاح بھی دی کہ مدرسوں اورمسجدوں کی تعمیر سے پہلے یہ دیکھ لیاجانا انتہائی ضروری ہے کہ جو زمین تعمیر کے لئے مختص کی گئی ہے اس کی نوعیت کیا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنے مدرسوں اورمسجدوں کے لئے کسی دوسرے کی مدد اورتعاون کی ضرورت نہیں ہے ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ نئے مدرسوں اورمسجدوں کی تعمیر کے لئے جو زمین متخب کی جائے وہ ہماری اپنی ہوبہتر تویہ ہے کہ اس زمین کو مدرسے اورمسجد کے نام وقف یا عطیہ کردیاجائے۔

انہوں نے آخرمیں کہاکہ جس طرح کی صورتحال ہمارے لئے دانستہ پیداکردی گئی ہے اس سے گھبرانے اورمایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہدجاری رکھنی چاہئے اللہ حامی وناصرہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس کانفرنس کا انعقادجمعیۃعلماء اترپردیش نے کیا تھا اوراہم بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں تمام مسالک کے مدرسوں کے ذمہ داران شریک تھے اس لحاظ سے کہا جاسکتاہے کہ مسلکی اتحادکے حوالہ سے بھی یہ ایک تاریخی کانفرنس تھی۔ واضح ہوکہ اجلاس کی صدارت جمعیۃعلماء اتر پردیش کے صدرمولانا اشہد رشیدی نے کی اوراجلاس کی نظامت جمعیۃعلماء اتر پردیش کے نائب صدرمفتی اشفاق اعظمی نےکی۔ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند مفتی سیدمعصوم ثاقب اورریاستی جمعیۃعلماء کے مولاناکعب رشیدی لیگل ایڈوائزرجمعیۃ علماء یوپی بھی کانفرنس میں موجودتھے