سنبھل ،اترپردیش: سنبھل ضلع کے چاندوسی کی ایک مقامی عدالت نے جمعرات کے روز اُس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے 21 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے، جس میں شاہی جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔ یہ وہی مسجد ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ دراصل "ہری ہر مندر" تھی۔
مقدمے سے وابستہ وکلاء نے اس کی اطلاع دی۔ سول جج (سینیئر ڈویژن) آدتیہ سنگھ کی عدالت میں یہ سماعت ہوئی۔ عرضی گزار سمرن گپتا نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ عدالت نے اس مقام کو "متنازع" قرار دیا ہے، اس لیے جب تک کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو جائے، نہ ہندو پوجا کریں اور نہ ہی مسلمان نماز ادا کریں۔ عرضی میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسجد کو سیل کر کے ضلع مجسٹریٹ کی نگرانی میں دے دیا جائے۔
یہ تنازع پہلے الہ آباد ہائیکورٹ تک پہنچا تھا، جہاں مسلم فریق نے مسجد کے سروے کے نچلی عدالت کے حکم کو چیلنج کیا تھا، مگر ہائیکورٹ نے 19 مئی کو نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت دی۔ جمعرات کی سماعت میں عدالت نے سمرن گپتا کی وہ عرضی قبول کر لی جس میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کی بات کہی گئی تھی۔
ہندو فریق کی نمائندگی گوپال شرما نے کی، جنہوں نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو عدالت میں ریکارڈ کے طور پر پیش کیا۔ اصل مقدمہ 19 نومبر 2023 کو آٹھ ہندو عرضی گزاروں نے دائر کیا تھا، جن میں وکیل ہری شنکر جین اور وشنو شنکر جین شامل تھے۔ اسی دن عدالت کے حکم پر مسجد کا پہلا سروے ہوا تھا، اور 24 نومبر کو دوسرا دور ہوا۔
آخری سماعت 28 اپریل کو ہوئی تھی۔ مسجد کے وکیل قاسم جمال نے عدالت میں یہ تسلیم کیا کہ مخالف فریق نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو پیش کیا ہے اور کہا کہ ان کی قانونی ٹیم عدالت کے کسی بھی حکم کی مکمل تعمیل کرے گی۔ 24 نومبر 2024 کو دوسرے سروے کے دوران سنبھل میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، جن میں 4 افراد ہلاک اور 29 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔
اس کے بعد پولیس نے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان ضیاء الرحمن برق، مسجد کمیٹی کے صدر جعفر علی اور 2750 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ اب تک جعفر علی اور کئی وکلاء سمیت 96 افراد کو جیل بھیجا جا چکا ہے۔ اگلی سماعت 21 جولائی کو ہوگی، جس میں نماز پر پابندی اور مسجد کو سیل کرنے کی مانگ پر غور کیا جائے گا۔