اسلام میں تصور وراثت: ایک تحقیقی جائزہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 10-05-2023
اسلام میں تصور وراثت: ایک تحقیقی جائزہ
اسلام میں تصور وراثت: ایک تحقیقی جائزہ

 

awazurdu

ڈاکٹر ریحان اختر

اسسٹنٹ پروفیسر ، فیکلٹی آف تھیو لوجی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

 اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے  جواپنے ماننے والوں کوصرف مخصوص عقائد ونظریات کو اپنانے ہی کی دعوت  نہیں دیتا بلکہ زندگی  کے ہر موڑ پر یہ دین مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کی یہ روشن اور واضح تعلیمات اللہ  تعالیٰ کی عظیم کتاب  قرآن مجید او رنبی کریم  ﷺ کی صحیح احادیث کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ  ہیں۔ انہی دوچشموں سے قیامت تک  مسلمان  سیراب ہوتے رہے ہیں گے  اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے رہیں گے۔ اسلام جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتا ہے وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطا کرتا ہے۔

اسلام نے ایسے ایسے قو انین اور ضوابط متعارف کرائے ہیں جن میں چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑے سے بڑے معاملہ کی وضاحت فرمادی ہے۔ ہر معاملہ میں چاہے کوئی کمزور ہو یا طاقتور، چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت ہر ایک کے لیے عدل و انصاف مہیا کیا ہے اور ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے اور ان کی وضاحت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے ذریعہ کردی ہے۔ عدل وانصاف کے متلاشیوں کے لیے رسول اللہ السلام کے لاکھوں اقوال زریں مختلف کتب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اسی طرح وراثت کی تقسیم کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عدل وانصاف مہیا کیا اور ہر وارث کو اس کا حق عطا فر مایا خواہ وہ مرد ہے یا عورت، بچہ ہے یا بوڑھا طاقت ور ہے یا کمر در حتی کہ ماں کے پیٹ میں موجود حمل کی وراثت کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی حاملہ ماں، حاملہ بیوی یا حاملہ بہو کو زندہ چھوڑ کر فوت ہو گیا ہو، اسلام نے اس حمل کو بھی میت کا وارث مقرر فرمایا ہے۔

 فرائض و وراثت کا مفہوم

علم فرائض و ہ علم ہے جس سے میت کا ترکہ اس کے شرعی ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے کا طریقہ معلوم ہو: علم بأصول من فقه و حسابِ تُعَرِّفْ حَقَّ كُلَّ من التَرِكَةِ۔

وجہ تسمیہ:فرائض: فريضةکی جمع ہے، فریضہ اللہ تعالیٰ کی بندوں پر عائد کردہ پابندیاں ۔ اس کے لغوی معنی ہیں متعین چیز ۔ چوں کہ میراث میں مستحقین کے حصے متعین ہوتے ہیں ، اس لئے ان حصوں کو فرائض کہا جاتا ہے، پھر رفتہ رفتہ علم میراث کو فرائض اور اس فن کے واقف کا رکو فرضی، فراض اور فریض“ کہا جانے لگا اس فن کا دوسرا نام علم المواریث بھی ہے: وَرِث، يَرِث إرثا و میراثا کے معنی ہیں: وارث و خلیفہ ہونا کسی چیز کا ایک سے دوسرے کے پاس منتقل ہونا ۔ علم المواریث: اصطلاح میں اس علم کو کہتے ہیں جس سے میت کی ملکیت اس کے زند ہ ورثاء کی طرف منتقل کی جاتی ہے۔ (۱)

علم فرائض کی فضیلت و اہمیت

وراثت جس کا قدیم اصطلاحی نام علم الفرائض ہےمسلم معاشرہ میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے دستور حیات قرآن مجید میں جزئیات کے احاطہ کے ساتھ تفصیلاً اس کا ذکر کیا گیا ہے اور حدیث و فقہ کی کتابوں میں اس کے لیے مستقل ابواب قائم کیے گئے ہیں اور اس کی اہمیت راسخ کرنے کے لیے ہر دور کے علماء اور مفکرین نے اس کی طرف توجہ کی ہے۔

اسلامی فقہ میں فن میراث کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں احکام بیان کرنے کے اپنے عمومی اسلوب سے ہٹ کر میراث کے مسائل کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ ہم نے بھی میراث کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر متعدد مواقع پر اس کے سیکھنے سکھانے کی ترغیب دی بلکہ جہاں قرآن سیکھنے کا حکم دیا اسی جملے میں میراث کے احکام سیکھنے پر زور دیا ہے۔ سلف صالحین کے ہاں یہ معمول رہا  ہےکہ کسی طالب علم کو اس وقت تک حدیث کے درس میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا تھا جب تک وہ قرآن کریم حفظ اور میراث کے مسائل کو از بر نہ کر لیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم میراث اور ترکہ ایسی چیز ہے جس سے ہر مسلمان کو واسطہ پڑتا ہے پھر چوں کہ اس کا تعلق لوگوں کے مالی حقوق کے ساتھ ہے ۔

نظام معاشرت خاص کر نظام معیشت کی استواری کے لیے معین قواعد و ضوابط کے مطابق وراثت کی تقسیم ایک بنیادی عامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقوق و فرائض کی ادائیگی میں اعتدال اور توازن کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ایک اچھے پر امن اور مطمئن معاشرے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر خاندانی جھگڑے اور لڑائیاں زر اور زمین کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور یہی دو چیزیں وراثت کا موضوع ہیں۔ مسلمان معاشروں میں فتنہ و فساد کی ایک بڑی وجہ وراثت کے معاملات میں مقرره قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور ان حدود کا پاس نہ رکھتا ہے جو اسلامی شریعت نے متعین کر دیے ہیں۔ اس کے اسباب و وجوہ میں جہاں اور بہت سی باتیں قابل توجہ ہیں وہاں ہوا و ہوس کے علاوہ متعلقہ قانوں سے ناواقفیت بھی ہے۔

علم فرائض کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ احادیث مبارکہ میں اس علم کو سیکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے  اور اسے نصف علم سے تعبیر کیا گیا ہے ۔  ارشاد رسولﷺ ہے  يَا أَبَا هُرَيْرَةَ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا؛ فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ وَهُوَ يُنْسَى، وَهُوَ أَوَّلُ شَيْءٍ يُنْزَعُ مِنْ أُمَّتِي۔ "اے ابو ہریرہ فرائض (یعنی میراث کے مسائل) سیکھو اور سکھاؤ! یقینا یہ نصف علم ہے ، اور وہ (یعنی میراث کا علم) سب سے پہلے بھلایا جائے گا، اور سب سے پہلے میری اُمت سے جو چیز اٹھالی جائے گی وہ علم میراث ہے "۔ (۲)

ایک دوسری روایت میں ہے  تَعَلَّمُوا الفَرَائِضَ وَالقُرْآنَ وَعَلِّمُوا النَّاسَ فَإِنِّي مَقْبُوضٌ" ميراث اور قرآنِ مجید کا علم حاصل کرو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو کیونکہ میں  وصال پانے والا ہوں ! ۔( ۳)

علم میراث کی اہمیت وافادیت بیان کرتے ہوئے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا:تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ ، وَاللَّحْنَ وَالسُّنَنَ، كَمَا تَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَوراثت ، لغت اور اور سُنن (یعنی مسائل شرعیہ ) کا علم اسی طرح حاصل کرو جس طرح تم قرآن مجید سیکھتے ہو۔ ( ۴)  دین کے وہ احکام جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں ان میں سے بعض کا تعلق عبادات سے کچھ کا اخلاق و عادات سے اور کچھ وہ ہیں جن کا تعلق مرنے کے بعد سے ہے علم الفرائض بھی اسی قبیل سے ہے اور ہر انسان سے اس کا تعلق ہے اسی لیے اللہ تعالٰی نے اس باب کی  سنگینی اور نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی جزئیات تک کو بھی واضح انداز میں بیان کیا ہے ۔

مختلف مذاہب میں احکام وراثت

اسلام سے قبل عوام جن مذاہب کی پیروکار تھی ان میں وراثت کےجو  احکامات ملتے ہیں ان کو نافذ کر کے ایک صالح معاشرہ کا وجود میں لانا نا ممکن نظر آتا ہے چنانچہ مذہب یہود میں وراثت کا حقدار صرف اور صرف بیٹے  باپ ، بھائی ، چچا ہی وارث ہو سکتے تھے عورت کو وراثت میں کوئی حصہ داری نہیں ملتی تھی خواہ وہ مرنے والے کی ماں، بہن ،بیٹی یا بیوی ہی کیوں نہ ہو ۔ اسی طرح عیسائی مذہب میں بھی صرف پلوٹھی کا بیٹا ہی وراثت کا حقدار سمجھا جاتا تھا یہاں بھی عورت کو اس کے اس  حق سے محروم رکھا جاتا تھا ۔  ہندو مذہب کی روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے یہاں سب چیزیں بڑے لڑکے کی ملکیت میں رہے گی ۔ ( ۵)  نیز زمانہ جاہلیت میں بھی یہی رواج عام تھا کہ عورتوں اور نا بالغ بچوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور ترکہ پورا کا پورا  بڑے بیٹوں کے حوالے کیا جاتاتھا۔ حافظ ذو الفقار علی لکھتے ہیں کہ  عربوں کا اصول تھا کہ مال وراثت کے اہل صرف وہ ہیں جو میدان جنگ میں تلوار چلانے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں ۔ جن میں لڑنے اور قبیلے کے دفاع کی صلاحیت نہیں وہ میراث کے بھی حق دار نہیں ہیں۔ چونکہ عورتیں اور بچے اس اصول پر پورا نہیں اترتے تھے اس لئے وراثت سے یکسر محروم رہتے تھے۔( ۶)

ترکہ اور حقوق اربعہ

میت جو مال چھوڑ کر جاتی ہے اس پر ترتیب وار چار حقوق مرتب ہوتے ہیں۔ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع عثمانیؒ صاحب لکھتے ہیں کہ شریعت کا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے مال سے پہلے شریعت کے مطابق اس کے کفن دفن کے اخراجات پورے کئے جائیں، جن میں نہ فضول خرچی ہو نہ کنجوسی ہو، اس کے بعد اس کے قرضے ادا کئے جائیں، اگر قرضے اتنے ہی ہوں جتنا اس کا مال ہے یا اس سے بھی زیادہ تو نہ کسی کو میراث ملے گی نہ کوئی وصیت نافذ ہوگی اور اگر قرضوں کے بعد مال بچ جائے یا قرضے بالکل ہی نہ ہوں تو اگر اس نے کوئی وصیت کی ہو اور وہ کسی گناہ کی وصیت نہ ہو، تو اب جو مال موجود ہے اس کے ایک تہائی میں سے اس کی وصیت نافذ ہو جائے گی، اگر کوئی شخص پورے مال کی وصیت کر دے تب بھی تہائی مال ہی میں وصیت معتبر ہوگی ،تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنا مناسب بھی نہیں ہے اور وارثوں کو محروم کرنے کی نیت سے وصیت کرنا گناہ بھی ہے۔ اداء دین (قرض )کے بعد ایک تہائی میں وصیت نافذ کر کے شرعی وارثوں میں تقسیم کردیا جائے جس کی تفصیلات فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں ، اگر وصیت نہ کی ہو تو اداء دین کے بعد پورا مال میراث میں تقسیم ہو گا۔( ۷)

وراثت کی بنیاد

اسلام کے نزدیک وراثت کی بنیاد تین چیزیں ہیں ایک نسب یعنی خون کا رشتہ ۔ دوسرے ازدواجی تعلقات یعنی میاں بیوی کا رشتہ جن سے نسبی رشتے وجود میں آتے ہیں ۔ تیسرے ولاء یعنی غلام کو آزاد کر نے کی نسبت ۔

مستحقین ترکہ

۱۔   پہلے اصحاب فرائض کو ملے گا، اصحاب فرائض میت کے وہ رشتہ دار ہیں جن کے حصے شریعت میں متعین ہوں ، ان کو ذوی الفروض بھی کہتے ہیں۔

۲۔ اصحاب فرائض کو دینے کے بعد ترکہ عصبہ نسبی کو ملے گا عصبہ نسبی میت کے وہ رشتہ دار ہیں جو اصحاب فرائض سے بچا ہوا اور اصحاب فرائص نہ ہونے کی صورت میں سارا ترکہ لے لیتے ہیں۔

۳۔ اصحاب فرائض اور عصبہ نسبی نہ ہو تو ترکہ عصبہ سببی کو ملے گا، عصبہ سببی(مولی العتاقہ)  کا آج کل وجود نہیں ہے۔

۴۔ اگر عصبہ نسبی اور سببی میں سے کوئی نہ ہو اور تر کہ کچھ باقی رہ گیا ہو تو باقی مانده تر کہ زوجین کے علاوہ اصحاب فرائض کو ان کے حصوں کے بقدر دیا جائے گا ، اس کو اصطلاح میں رد کہتے ہیں ۔

۵۔ اگر اصحاب فرائض اور عصبات میں سے کوئی نہ ہوں تو ذوی الارحام کو دیا جائے گا، ذوی الارحام میت کے وہ رشتہ دار ہیں جن کا حصہ نہ قرآن وحدیث سے اور نہ اجماع سے مقرر ہو اور نہ وہ عصبات میں سے ہوں، جیسے پھوپھی ، خالہ ، ماموں بھانجی،اور نواسہ وغیرہ۔

۶۔ ذوی الارحام بھی نہ ہوں تو ترکہ مولی الموالات کو دیا جائے گا۔

۷۔ اگر مولی الموالات بھی نہ ہو تو ترکہ کا وارث وہ اجنبی شخص ہوگا جس کے بارے میں میت نے یہ کہا ہو کہ وہ میر انسبی رشتہ دار ہے، اسے مقر له بالنسبکہتے ہیں۔

۸۔اگر مقر له بالنسببھی نہ ہو تو تر کہ اس شخص کو دیا جائے گا جس کے لئے میت نے سارے ترکہ کی وصیت کی ہو، اس کو موصی له بجميع المالکہتے ہیں۔

۹۔  اگر اوپر ذکر کردہ افراد میں سے کوئی نہ ہو تو میت کا ترکہ بیت المال میں جمع کرا دیا جائے گا۔

وراثت سے محرومی

مذکورہ اشخاص وراثت سے محروم رہیں گے ایک غلام دوسرا قاتل تیسرا مختلف دین کا پیروکار اور چوتھا اختلاف ملک اس کا اعتبار کافروں پر ہوگا مسلمانوں پر نہیں ۔

تقسیم وراثت

لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا(النساء 7) مردوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے تھوڑا ہو یا بہت ہو حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔

اس آیت میں مرد   و عورت  کے حصے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ قاعدہ  بھی بتلا دیا گیا ہے کہ میراث  کی تقسیم الاقرب فالاقرب کے اصول پر ہو گی۔

مرنے والے کے مال متروکہ کو کس اعتبار سے اور کس وارث کو کتنا حصہ ملیگا اس کی بیشتر تشریح و تفصیل قرآن مجید کی سورۃ نساء میں بیان کی گئی ہے ملاحظہ ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ  لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخۡوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ لَا تَدۡرُوۡنَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ لَکُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا( النساء 11) اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔  اور اگر (صرف) عورتیں ہی ہوں، دو یا دو سے زیادہ، تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو، انہیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے (ترکے کا) آدھا حصہ ملے گا۔ اور مرنے والے کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں تہائی حصے کی حق دار ہے۔ ہاں اگر اس کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا (اور یہ ساری تقسیم) اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہو، یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد تمہیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے کہ تمہارے باپ بیٹوں میں سے کون فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب ہے ؟ یہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں،  یقین رکھو کہ اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔

قرآن کریم کی اس آیت نے بتلا دیا کہ میراث کے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ اس کا طے شدہ حکم ہے، اس میں کسی کو رائے زنی یا کمی بیشی کا کوئی حق نہیں اور تمہیں پورے اطمینان قلب کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہئے تمہارے خالق و مالک کا یہ حکم بہترین حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔

وَ لَکُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَکَ اَزۡوَاجُکُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّکُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ تُوۡصُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امۡرَاَۃٌ وَّ لَہٗۤ اَخٌ اَوۡ اُخۡتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنۡ کَانُوۡۤا اَکۡثَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَہُمۡ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ۙ غَیۡرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ(النساء 12) اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں، اس کا آدھا حصہ تمہارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد تمہیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی ان (بیویوں) کا ہے، بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو، اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں، نہ اولاد، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، (مگر) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے۔

مفتی شفیع صاحبؒ  ان مذکورہ آیات کے ضمن میں رقمطراز ہیں کہ میراث کے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے ارشاد فرمایا وصیة من اللہ، یعنی جو کچھ حصے مقرر کئے گئے اور دین اور وصیت کے بارے میں جو تاکید کی گئی اس سب پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے اللہ پاک کی طرف سے ایک عظیم وصیت اور مہتمم بالشان حکم ہے، اس کی خلاف ورزی نہ کرنا، پھر مزید تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا واللہ علیم حلیمیعنی اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے اور اس نے اپنے علم سے ہر ایک کا حال جانتے ہوئے حصے مقرر فرمائے جو احکام مذکورہ پر عمل کرے گا اللہ کے علم سے اس کی یہ نیکی باہر نہ ہوگی اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کی یہ بدکرداری بھی اللہ کے علم میں آئے گی، جس کی پاداش میں اس سے مواخذہ کیا جائے گا۔ نیزجو کوئی مرنے والا دین یا وصیت کے ذریعہ سے ضرر پہنچائے گا اللہ کو اس کا بھی علم ہے، اس کے مواخذہ سے بےخوف نہ رہو، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلاف ورزی کرنے پر اس دنیا میں سزا نہ دے، اس لئے کہ وہ حلیم ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو یہ دھوکا نہ لگنا چاہئے کہ میں بچ گیا۔) ۸)

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جہاں ہر شعبہ سے متعلق مکمل رہنمائی ملتی ہے چنانچہ فرائض و میراث کے تعلق سے بھی اسلام نے گزشتہ تمام رسوم و رواج کو عدل و انصاف اور فطرت کے خلاف بتا کر جہاں ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام میراث متعارف کرایا ہے اور صالح اور تندرست معاشرہ کے قیام کے لئے اصول وضع کیے ہیں وہیں گردش دولت کی جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ دولت کی فطرت میں گردش ہے نہ کہ ارتکاز  ، حالانکہ کچھ مغرب زدہ اور اسلام دشمن لوگ اسلام کے نظام میراث پر اعتراضات کر تے ہیں کہ اسلام میں یہاں عورت اور مرد کے لئے مساوات نہیں ہے اور عورت کو کمتر باور کرایا گیا ہے تو اس سے کیسے صالح معاشرہ کا وجود ہو سکتا ہے ؟ ان کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان اس میراث کے اصول میں عدل و انصاف سے کام لیا ہے جس میں عقل و تدبر کی ضرورت ہے اس تعلق سے مفتی سعید احمد پالنپوریؒ  نے تفسیر ہدایت القرآن میں رہنمائی فرمائی ہے لکھتے ہیں ۔ ایک:  مرد جنگ کرتے ہیں اور اہل وعیال اور اموال و اعراض کی حفاظت کرتے ہیں۔دوم:  مردوں پر مصارف کا بار زیادہ ہے، اس لئے مال غنیمت کی طرح بے مشقت اور بے محنت ملنے والی چیز کے مردہی زیادہ حقدار ہیں، اور عورتیں نہ جنگ کرتی ہیں نہ ان پر مصارف کا بار ہے، نکاح سے پہلے ان کا نفقہ باپ کے ذمہ ہے، نکاح کے بعد شوہر کے ذمے، بیوہ ہو جائے تو اولاد کے ذمے، اولاد نہ ہو تو حکومت کے ذمے، حکومت کفالت نہ کرے تو مسلمانوں کے صالح معاشرہ کے ذمہ اس لئے ان کو میراث سے حصہ کم دیا گیا ہے۔ ( ۹)

عصر حاضر اور وراثت

اسلام نے علم فرائض کی جتنی اہمیت اور فضیلت بیان کی ہے آج حالات میراث کے تعلق سے اتنے ہی بد تر ہے اور آپ کی پیشینگوئی اس وقت کے حالات کی پوری پوری ترجمان کرتی ہوئی نظر آتی ہے اس کے پس پشت چند اسباب ہے جو آج کل دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں اور جن کے باعث آج عوام کی ایک بڑی تعداد وراثت کی تقسیم کے حوالے سے  کوتاہیوں  میں ملوث ہیں ۔جیسے ہمارے یہاں مال وراثت حکم شریعت کے مطابق تقسیم نہیں کیا جاتا۔اسی طرح شرعی اعتبار سے میت کا چھوڑا ہوا تمام مال، مال وراثت ہے ، چاہے وہ نقدی، سونا، چاندی، زمین و جائیداد اور مکان و دوکان وغیرہ کسی بھی شکل میں ہو ، لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اس سلسلے میں بھی بہت کو تاہی اور لا پرواہی سے کام لیتے ہیں، اور چھوٹی موٹی چیزیں مثلاً سونے یا چاندی کی کوئی انگوٹھی، یا بوقتِ غسل میت کی جیب سے نکلنے والی تھوڑی بہت نقدی کو ، مال وراثت میں شامل نہیں کرتے،اور  وہ چیز  جس کے ہاتھ لگتی ہے وہی اس کو استعمال کر لیتا ہے ، شرعا ایسا کرنا حرام ہے  کیونکہ وہ بھی مال وراثت ہے  اور اس میں بھی تمام ورثاء کا حق ہے۔بعض لوگ میت کے ذمہ واجب الاداء قرض کی ادائیگی سے انکار کر دیتے ہیں اور میت کا چھوڑا ہوا تمام مال وراثت باہم تقسیم کر لیتے ہیں،کچھ لوگ جہیز کی شکل میں دی جانے والی اشیاء کو وراثت کا بدل سمجھ کراپنی بیٹیوں یا بہنوں کو وراثت سے اس کا حصہ نہیں دیتے، جس کا آج کافی رواج ہو گیا ہے یہ خیال سراسر باطل ہے، لہذا اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کے انتظامات میں جو اخراجات کیے جائیں یا اُسے تحفے تحائف دیے جائیں انہیں وراثت کا بدل ہرگز تصور نہ کیا جائے۔ عورتوں کو مختلف بہانوں یا ڈرا کر وراثت سے ان کو حصہ نہیں دیا جا تا ۔ اور  لوگ اس خیال سے مالِ وراثت تقسیم کرنے میں رکاؤٹ بنتے ہیں کہ موروثی جائیداد کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے اور بیٹیوں کو دی جانے والی جائیداد یا مال وراثت کے  پرائے لوگ (یعنی شوہر اور اس کی اولاد ) وارث بن جائیں گے۔

 الغرض اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ہماری زندگی کے لیے عائلی اصول وضوابط بھی اسی طرح متعین کیے ہیں جس طرح انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے کیے ۔ دیگر معاشروں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان معاملات خدائی ہدایات کی بنیاد پر نہیں بلکہ روایات اور کلچر کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں میں ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے یہاں یہ معاملات مختلف انداز سے انجام پاتے ہیں جبکہ اسلام کا عائلی نظام پوری دنیا میں یکساں طورپر نافذوجاری ہے اور اگر کہیں جاری نہیں ہے( جیسے آج کل وراثت کے موضوع کو ہی لوگ بھول چکے )  تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کے لیے اسلام کی ہدایات اور تعلیمات تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگ اسلام کی تعلیمات سے دور ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھولے ہوئے اللہ کے اس مقدس سبق کو پھر سے یاد کریں اور نصف علم سے معبر وراثت اسلامی کو اختیار کر کے حقوق العباد کو ادا کرے اور دونوں جہانوں کی کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوں ۔

 

     مراجع

(۱)مولانا اشتیاق و مفتی سعید احمد پالنپوری ،طرازی شرح سراجی ، مکتبہ رحمانیہ لاہور 1423ھ ص 33,34

(۲)ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ ،سنن ابن ماجہ ، باب الحث علی تعلیم الفرائض

(۳) ابو عیسیٰ محمد ترمذی ، سنن ترمذی ،   باب ما جاء فی تعلیم الفرائض

(۴)  عبد اللہ بن عبد الرحمٰن دارمی ،سنن الدارمی ، باب فی تعلیم الفرائض

(۵) ڈاکٹر عبد الحئ ابڑو ،میراث و وصیت کے شرعی ضوابط ، ، شریعہ اکیڈمی ، لاہور ، 2015, ص 15 تا 18

(۶) حافظ ذو الفقار علی ،تقسیم وراثت کے شرعی احکام ، ، مکتبہ بیت الا سلام ، لاہور  2018 ، ص 17

(۷)  مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ ، معارف القرآن ، مکتبہ معارف القرآن ، کراچی ،2008ء ص 321،320

(۸)  مذکورہ بالا حوالہ ص 331

(۹)  مفتی محمد سعید احمد پالنپوری ، تفسیر ھدایت القرآن ، مکتبہ حجاز ، دیوبند ، ۱۴۳۸ھ ،ج  ۱ ،ص 573،572