شیوجی کی نگری میں مندروں کے درمیان ایک مسجدکی دلکشی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-04-2021
مسجدعالمگیر،بنارس
مسجدعالمگیر،بنارس

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ناقوس وگھنٹیوں کی آوازوں کے بیچ جب،اللہ اکبرکی صدابلند ہوتی ہوگی تو بنارس کے رہنے والے کیسامحسوس کرتے ہونگے؟کیا یہ منظرہراس شخص کے دل کو نہیں موہ لیتا ہوگاجوکثرت میں وحدت کا قائل ہواورہندوستان کی گنگاجمنیی تہذیب میں یقین رکھتاہو؟ حالانکہ مسجدعالمگیر،اب محکمہ آثارقدیمہ کے ماتحت ہے اور یہاں نمازنہیں ہوتی مگرگنگاکے ساحل پرکھڑی اس کی عمارت آج بھی اتحادویکجتی کا پیغام دینے کے لئے کافی ہے۔

اس مسجدنے باربارصبح بنارس کا نظارہ کیاہے کیونکہ سورج ہرصبح اپنی پہلی کرنیں مسجدعالمگیرپر ہی نچھاور کرتاہے۔جب صبح کے وقت شیوبھکت اشنان،دھیان سے فارغ ہوکرگنگاجی سے وداع لیتے ہیں تب سہنری دھوپ میں مسجد کا عکس پنچ گنگا گھاٹ کی لہروں میں ایک الگ ہی منظرپیش کرتاہے۔

کیسے پہنچیں؟

یہ مسجد،شیونگری میں گنگاکے کنارے واقع ہے،جہاں ندی کے راستے کشتی کے ذریعے پہنچناآسان ہے مگربھول بھلیاں جیسی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے گزرکرپہنچامشکل ہوتاہے۔مسجدکے اردگردمندر ہی مندر ہیں۔ ایک دونہیں،درجنوں مندرہیں۔ ہر گلی میں مندرہیں،ہرگھر میں مندر ہیں۔ یہاں کئی گھاٹ ہیں جن کی تاریخی حیثیت مسلم ہے۔

مندروں کے درمیان ایک مسجد

بنارس یعنی کعبۂ ہندوستان

وارانسی،بنارس اور کاشی ایک ہی شہرکے نام ہیں۔یہ شہراتر پردیش (ہندوستان) کا ایک تاریخی شہر ہے۔ یہ دریائے گنگا کے کنارے پر آباد ہے۔یہ ہندوؤں کامتبرک ترین شہرہے۔ یہاں ہزاروں مندر ہیں اس لئے اسے مندروں کا شہربھی کہتے ہیں۔ ان میں ایک سو سے زائد بڑےمندر ہیں۔ بنارس میں ہر سال جہاں لاکھوں ہندویاتری اشنان کے لیے آتے ہیں، وہیں دنیا بھرکے سیاح اس شہرکی تہذیب کو دیکھنے بھی آتے ہیں جس سے ہندوستان کو زرمبادلہ ملتاہے۔بنارس، صدیوں سے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا گہوارہ رہاہے لہٰذااس جانب سیاحوں کی رغبت حیرت انگیز نہیں ہے۔اردوکے معروف شاعر مرزاغالب بھی بنارس آئے تھے اور اس کی تعریف میں ایک مثنوی لکھی تھی جس میں انھوں نے اسے کعبہٗ ہندوستان کہاہے۔

ثقافت کی گنگا

وارانسی کی ثقافت اور دریائے گنگا کا آپس میں گہرارشتہ ہے اور ندی کے کنارے تہذیب کی جھلک کے ساتھ ساتھ آرکٹکچرکے بھی شاہکاردیکھنے کو ملتے ہیں۔ بنارس گنگاجمنی تہذیب کے لئے بھی پہچان رکھتاہے اور اس کی زندہ مثال مندروں کے درمیان سراٹھائے کھڑی مسجدوں کے میناروگنبدہیں۔

ایسی ہی ایک عالمگیرمسجد ہے جو ندی کے کنارے مندروں کے بیچ واقع ایسی جگہ ہے،جہاں ایک گھر بھی مسلم آبادی نہیں ہے۔ یہ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی تعمیر کردہ ایک چھوٹی سی مسجدہے جو مغل دور کی بہترین یادگاراورانڈواسلامک فن تعمیرکا حسین نمونہ ہے۔ چونکہ مذہبی عمارتیں عوام الناس سے متعلق ہوتی ہیں لہٰذا ان کی تعمیر میں فنون لطیفہ کی دلکشی کا بھی خاص خیال رکھاجاتاہے۔عالمگیرمسجد میں بھی حسن تعمیرنظر آتاہے۔ مسجد ،فنی لحاظ سے بے مثال ہے۔ مغل دورحکومت میں تعمیر کی گئی یہ مسجد اس دور کے شاندارذوق فن کا احساس دلاتی ہے۔ مسجد کی تعمیر میں فنکارانہ نکتوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اس مسجد کو دھرہرا مسجد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مسجد کی دیواروں پر سجاوٹی پھولوں کی پتیاں بہت دلکش نظر آتی ہیں۔

بنارس کے دوہاتھ

مسجد کی خوبصورتی میں چارچاندلگاتے تھے،اس کے مینار جو اب ٹوٹ چکے ہیں۔ ایک مینار1956 میں ٹوٹ گیا تھا اور دوسرا 1958 میں ٹوٹ گیا۔ مسجد کے اونچے مناروں کو بھارتیندو ہریش چندر نےبنارس کے دو ہاتھ قراردیئے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 'مسجد کے یہ مینار بنارس کے دو ہاتھ ہیں ، دونوں ہاتھ اوپراٹھ کر دعا میں کچھ مانگ رہے ہیں'۔

ایک پرانی پینٹنگ میں مسجدعالمگیرکی خوبصورتی

انڈواسلامک آرکٹکچر

تاریخی روایات کے مطابق اس مقام پر بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرنےنمازاداکی تھی اور پھر یہاں ایک مسجد بنادی گئی تھی۔ یہ مسجد 1663 میں تعمیر کی گئی تھی اور اس کا نام دھرہرا تھا۔ پنچنگا گھاٹ کے ایک بڑے پلیٹ فارم پر تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کے گنبد کی تعمیر میں فن تعمیر کی دلکشی نظر آتی ہے۔ مسجد کے ہر حصے کو خوبصورت بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ گنبد سے دیواروں تک کاریگری کی عمدہ مثال ہے۔ مسجد کی چھت کے اندرونی حصے میں کی جانے والی کاریگری اپنے آپ میں خاص ہے ۔

فوارہ کا حسن

صحن میں ایک چھوٹاحوض تھاجس کے بیچ فوارہ تھا۔ صحن کا فوارہ اس کی پرانی شان وشوکت کی داستان سناتا ہے۔ فی الحال یہ مکمل طور پر بوسیدہ ہے۔ شہر کی رونق اور مسجد کے 174.2 فٹ اونچے مینار اب صرف پرانی تصویروں میں نظر آتے ہیں۔ اگرچہ یہ عمارت آج ہمارے سامنے موجودہے ، لیکن آنے والی نسلوں کو شاید دیکھنا نصیب نہ ہوکیونکہ اس کی حالت خستہ ہے اور دیکھ ریکھ بھی ٹھیک سے نہیں ہورہی ہے۔