ڈاکٹر شبانہ رضوی
حضرت عیسیٰ علیہ السلام، جو عیسائی دنیا میں "یسوع مسیح" کے نام سے مشہور ہیں، اللہ کے برگزیدہ پیغمبر اور رسول تھے۔ وہ بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے اور ان کا ذکر قرآن اور انجیل دونوں میں موجود ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریمؑ ہیں، جنہیں اسلام میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بغیر والد کے ایک معجزہ کے طور پر ہوئی، جسے قرآن پاک میں اللہ کی قدرت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بارے میں اسلامی اور مسیحی عقائد:
مسلمانوں کے نزدیک :حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی اور رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ وہ اللہ کے بندے اور پیغمبر ہیں، نہ کہ خدا کے بیٹے۔ ان پر انجیل نازل کی گئی اور انہوں نے توحید، محبت، اور رحم کا پیغام دیا۔
عیسائی عقیدہ :عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو "خدا کا بیٹا" اور تثلیث (Trinity) کا حصہ مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ کی پیدائش، زندگی، مصلوبیت، اور قیامتِ ثانی اہم مذہبی عقائد ہیں۔
عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت:
مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی اور رسول ہیں، جو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ان کے معجزات بھی اللہ کی عطا کردہ قدرت سے تھے۔
فرمانِ الٰہی:
"إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ"
(سورہ آل عمران: 59)
ترجمہ: اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے، جسے اللہ نے مٹی سے بنایا، پھر فرمایا: ہو جا، اور وہ ہو گیا۔
مسیحی عقیدہ:مسیحی (عیسائی) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو "خدا کا بیٹا" مانتے ہیں، جسے وہ "Trinity" (تثلیث) کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ کی پیدائش روح القدس کے ذریعے حضرت مریم سے ہوئی اور وہ خدا کے بیٹے ہیں۔
*تثلیث (Trinity):
مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا تین اقانیم پر مشتمل ہے:
*باپ (God the Father)
*بیٹا (Jesus Christ)
*روح القدس (Holy Spirit)
حضرت عیسیٰ کی الوہیت:
عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی خدا ہیں۔ ان کے عقیدے میں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش خدائی منصوبے کا حصہ ہے، جس کے ذریعے انسانیت کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا گیا۔
بائبل کی تعلیمات:بائبل میں حضرت عیسیٰ کو "ابن اللہ" (Son of God) کہا گیا ہے، اور وہ ان کی الوہیت پر زور دیتے ہیں۔
مثال:
"For God so loved the world that he gave his one and only Son, that whoever believes in him shall not perish but have eternal life."
(John 3:16)
ترجمہ: خدا نے دنیا سے ایسی محبت کی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا دے دیا، تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے، ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔اگر میری نظر سے دیکھا جائے تو عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت اللہ کی طرف "باپ" کے طور پر ایک حیاتیاتی رشتہ نہیں، بلکہ فلسفیانہ اور روحانی معنوں میں کرتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ واحد ہے، نہ اسے کسی نے پیدا کیا اور نہ ہی اس نے کسی کو جنم دیا۔ تاہم، پوری کائنات اور تمام جاندار اللہ ہی کے تخلیق کردہ ہیں، اور عام انسانی زبان میں پیدا کرنے والے کو "باپ" کہا جاتا ہے۔ بہرحال، دونوں مذاہب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک انتہائی محترم اور قابلِ قدر شخصیت ہیں، اور ان کی تعلیمات انسانیت کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
تاریخی اختلاف:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے عقائد میں فرق پایا جاتا ہے۔عیسائی عقیدہ:عیسائی دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن 25 دسمبر کو کرسمس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس تاریخ کو زیادہ تر مغربی کلیساؤں (کیatholicاور Protestantفرقے) میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ مشرقی آرتھوڈوکس چرچ بعض اوقات 7 جنوری کو کرسمس مناتا ہے، کیونکہ وہ پرانے جولیئن کیلنڈر کی پیروی کرتے ہیں۔
مسلمانوں کا عقیدہ:اسلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی کوئی متعین تاریخ بیان نہیں کی گئی۔ قرآن میں ان کی پیدائش کے وقت کے متعلق کچھ تفصیلات دی گئی ہیں، جیسے کہ حضرت مریمؑ کا کھجور کے درخت کے نیچے ہونا (سورہ مریم، آیت 25)، جس سے بعض علماء نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ واقعہ موسمِ گرما میں ہوا ہوگا، کیونکہ کھجور کے درخت عام طور پر گرمی کے موسم میں پھل دیتے ہیں۔ تاہم، اسلامی روایات میں کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیب پر موت:
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ایک اور اہم فرق یہ ہے کہ عیسائی عقیدہ کے مطابق، حضرت عیسیٰ کو صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا گیا تھا، اور ان کی قربانی انسانیت کے گناہوں کا کفارہ تھی۔ اس کے برعکس، مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کو صلیب پر قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔
قرآنِ کریم میں سورہ النساء (آیت 157-158) میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ:
"اور انہوں نے نہ تو عیسیٰ کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان پر مشتبہ کر دیا گیا۔"
اسلامی عقیدہ کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ وہ دجال کے خلاف جنگ کریں گے، انصاف قائم کریں گے، اور دنیا کو اللہ کی توحید کی طرف دعوت دیں گے۔ مسلمان انہیں زندہ نبیوں میں شمار کرتے ہیں اور ان کی آمدِ ثانی کو ایک اہم نشانی مانتے ہیں۔
یہ فرق دونوں مذاہب کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے، لیکن اس کے باوجود حضرت عیسیٰ کا مقام دونوں مذاہب میں غیر معمولی طور پر مقدس اور محترم ہے۔
عیسائی عقیدے میں حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد کے اہم پہلو:
عیسائی عقیدہ کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ یہ عقیدہ عیسائیت کے بیشتر فرقوں، خصوصاً کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈوکس چرچ میں پایا جاتا ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک یہ واقعہ "Second Coming" یا "Parousia" کہلاتا ہے۔
دنیا کی اصلاح:
حضرت عیسیٰ کے آنے کا مقصد دنیا میں انصاف قائم کرنا، گناہ کو ختم کرنا، اور خدا کی بادشاہی کا اعلان کرنا ہوگا۔
دجال کی شکست:
عیسائیوں کے مطابق، حضرت عیسیٰ اس شیطان صفت شخصیت (Anti-Christ) کو شکست دیں گے، جو دنیا کو گمراہ کرے گا۔
قیامت کا آغاز:
عیسائی عقیدے میں حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد قیامت کے قریب ہونے کی علامت ہوگی، جس کے بعد آخری فیصلہ ہوگا۔
یہ عقیدہ بائبل کے نئے عہد نامے کی مختلف آیات سے اخذ کیا گیا ہے، جیسے:
متی 24:30-31: "تب ابن آدم کا نشان آسمان پر ظاہر ہوگا... اور وہ اپنے فرشتوں کو روانہ کرے گا۔"
اعمال 1:11: "یہی یسوع جو تمہارے سامنے آسمان پر اٹھایا گیا، اسی طرح دوبارہ آئے گا جیسے تم نے اسے جاتے دیکھا۔"
مسلمانوں کے عقیدے سے فرق:
عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور ان کی دوبارہ آمد انسانیت کے گناہوں کے کفارے اور دنیاوی بادشاہت کے قیام کے لیے ہوگی، جبکہ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ حضرت عیسیٰ نبی ہیں اور وہ اللہ کی توحید کا پیغام عام کرنے اور دجال کے خاتمے کے لیے واپس آئیں گے۔یہ بات واضح کرتی ہے کہ دونوں مذاہب میں حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد کا تصور موجود ہے، اگرچہ اس کے مقاصد اور تفصیلات میں فرق ہے۔
عظمت اور احترام:
یہ بات درست ہے کہ دونوں مذاہب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انتہائی عزت اور احترام کا مقام حاصل ہے۔ اسلام میں انہیں "روح اللہ" اور "کلمۃ اللہ" کہا گیا ہے، اور ان کے معجزات اور تعلیمات کو اللہ کی قدرت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح، مسیحیت میں بھی حضرت عیسیٰ کو نجات دہندہ اور الٰہی ہستی کے طور پر مانا جاتا ہے۔
بین المذاہب ہم آہنگی:
اس فلسفیانہ اختلاف کے باوجود، دونوں مذاہب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت محبت، رحمت اور انسانیت کی علامت کے طور پر مشترک قدر رکھتی ہے۔ ان کی تعلیمات انسانیت کی بھلائی اور اخلاقی اقدار پر زور دیتی ہیں، جو تمام مذاہب میں قابلِ احترام ہیں۔اگر مسلمان بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو ایک قابلِ احترام موقع کے طور پر منائیں، تو یہ نہ صرف بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے گا بلکہ کرسمس کے اصل روحانی اور اخلاقی پیغام کو بھی اجاگر کرے گا۔ موجودہ مغربی معاشرے میں کرسمس زیادہ تر ایک تجارتی تہوار بن چکا ہے، جہاں "سینٹا کلاز" جیسے مادی کردار مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، اور تحفے تحائف اور خریداری کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
روحانی اور اخلاقی اقدار:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا بنیادی پیغام محبت، قربانی، اور خدمتِ خلق تھا۔ اگر اس دن کو ان اصولوں کے تحت منایا جائے، تو یہ ایک موقع بن سکتا ہے کہ ہم غریبوں، مسکینوں، اور بیماروں کی مدد کریں اور حقیقی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کریں۔
اصل پیغام کی بازیابی:
مسلمان ادیب اور دانشور اگر اس دن کو موضوع بنائیں، تو وہ کرسمس کو مادی رنگ سے نکال کر اس کے روحانی پہلوؤں کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ اس سے کرسمس کو ایک عالمی تہوار کے طور پر دیکھا جا سکے گا، جہاں مذاہب کی روحانی اقدار ایک دوسرے سے جڑتی ہیں۔
بین المذاہب مکالمہ:
یہ نقطہ نظر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک پل کا کام کر سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگی کہ مسلمان بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں اور ان کی تعلیمات کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ رویہ مذہبی برداشت اور ہم آہنگی کو فروغ دے گا۔
سماجی خدمات:
اگر اس دن کو خدمتِ خلق کے لیے وقف کیا جائے، جیسے بیماروں کی عیادت، غریبوں میں کھانا تقسیم کرنا، یا تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنا، تو یہ حقیقی معنوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مشن کو زندہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے لیے نہایت اہم اور قابلِ احترام شخصیت ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک وہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں، جبکہ عیسائی انہیں خدا کے بیٹے کے طور پر مانتے ہیں۔ اگرچہ مسلمانوں کے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی کوئی مستند اور متعین تاریخ نہیں ہے، لیکن عیسائی دنیا میں 25 دسمبر کو کرسمس کے طور پر ان کی پیدائش کا دن منایا جاتا ہے۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگرچہ دونوں مذاہب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں کچھ اختلافات ہیں، لیکن ایک بڑی تشابہ یہ ہے کہ دونوں ہی فرقے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے منتظر ہیں۔ مسلمان اور عیسائی دونوں ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ دجال کو شکست دیں اور زمین پر انصاف قائم کریں۔ یہ مشترک عقیدہ نہ صرف ان کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ ایک مشترکہ مقصد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوشی اپنے عقائد کے مطابق منانا مسلمانوں کے لیے نہ صرف جائز ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے قومی اتحاد اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ دن صرف مذہبی یا ثقافتی حیثیت تک محدود نہ رہے، بلکہ اسے انسانیت، محبت، اور خدمتِ خلق کے فروغ کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بھائی چارے اور اتحاد کا پیغام دنیا بھر میں پھیلایا جا سکتا ہے۔لہٰذا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوشی کو ان کی اصل روحانی تعلیمات کے ساتھ منانا نہ صرف ان کے مقام کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے، بلکہ انسانیت کے اعلیٰ اقدار کو فروغ دینے کا ذریعہ بھی ہے۔