یہ آواز پاک ہے::مثبت سوچ وفکر کے ساتھ اتحاد کا پیغام ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-01-2022
 یہ آواز پاک ہے::مثبت سوچ وفکر کے ساتھ اتحاد کا پیغام ہے
یہ آواز پاک ہے::مثبت سوچ وفکر کے ساتھ اتحاد کا پیغام ہے

 

 

آواز دی وائس :منصور الدین فریدی 

آواز دی وائس کا ایک سال ،مبارک ہو۔ یہ ایک ’پاک ‘ آواز ہے۔ اس ماحول میں جو اتحاد و اتفاق کی بات کرے وہ انسانیت کی خدمت کررہا ہے۔ اخباری اور ڈیجیٹل دنیا میں جہاں نفرت اور ٹکراو کی خبروں کی بھر مار رہتی ہے ،آواز دی وائس نے مثبت خبروں کا ایک گلدستہ پیش کیا۔جس میں ملک و قوم کی مثبت خبریں تھیں بلکہ اتحاد اور اتفاق کا پیغام تھا۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور روایات کا پیغام تھا۔ ایسی خبریں آج کے دور میں کسی تحفہ سے کم نہیں، آواز دی وائس نے جوڑنے پر یقین رکھا نہ کہ توڑنے پر۔ جو کہ معاشرے کے لیے سب سے اہم ہے۔ اس دور میں ایک ایسا پلیٹ فارم بنا ہے آواز دی وائس جس سے ملک کو ایسی خبروں کی سوغات دی جارہی ہےجو ملک کو اتحاد و اتفاق کی جانب لے جا سکتی ہیں ۔یہ خیالات اور اظہارات ان اہم شخصیات کے ہیں جنہوں نے’آواز دی وائس‘ کا ایک سال مکمل ہونے پر مبارک بادی کے پیغامات دئیے ہیں۔

یہ ’پاک‘ آواز ہے۔ مولانا محمود مدنی

جمعیتہ علما ہند کے مولانا محمود مدنی نے ایک پیغام میں کہا کہ آواز دی وائس کے ایک سال مکمل ہونے پر دلی مبارکباد۔ آپ ملک کی صحافت میں مثبت خبروں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ایک نیا تجربہ لے کر آئے۔جو نہ صرف ہر کسی کے لیے حیران کن ہے بلکہ معاشرے پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آواز دی وائس نے ایک سال میں ڈیجیٹل جرنلزم میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔

یہ وہ آواز ہے جو ملک اور وقت کی ضرورت ہے ،یہ وہ آواز ہے جو انسانی اور امن کی ضرورت ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو کہہ رہی ہے کہ ایک ہو جائو۔یہ وہ آواز ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ جاگ ہوجاو ۔ یہ وہ آواز ہے جو کہہ رہی ہےکہ لوگوں اکٹھا ہوجاو جہالت دور کرنے کے لیے ، انسانیت کے لیے ایمانداری کے لیے ،سچائی کے لیے ۔

ایک ایسے نازک وقت میں جب لوگوں نے میڈیا کو گندا بنا دیا ہے ایسے میں یہ ’پاک ‘ آواز بہت اہم بن گئی ہے اس کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ میں اس نئی پہل کا ایک سال پورا ہونے پرسلام پیش کرتا ہوں جو صحافت میں اختلافات کے بجائے اتحاد کی طرف کام کرتا ہے۔قومی میڈیا کے علاوہ ملک میں ایسی خبریں بھی پیش کی جاتی رہی ہیں جو آج کے دور میں نفرت اور اختلافات کی خبروں کے سیلاب میں گم ہو چکی ہیں۔میں ایک بار پھر آپ سب کو ایک سال مکمل ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ آپ کو مثبت خبروں کی راہ پر گامزن رکھے۔آمین

آواز کا ایک سال ۔واقعی بے مثال : پروفیسر اختر الواسع

آواز دی وائس کی پہلی سالگرہ پر ممتاز دانشور اور پدم شری پروفیسر اخترالوسع نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے ۔انہوں نے ایک پیغام مں کہا ہے کہ میں آواز دی وائس کا۸ ایک سال مکمل ہونے یعنی پہلی سالگرہ پردل کی گہرائیوں سے سب کو مبارک باد دیتا ہوں ۔ایک ایسے زمانے میں جب سوشل میڈیا نے ہمیں خبروں سے باخبر کرنے اور ہمیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار نبھایا ہے وہیں ہمیں یہ بھی تجربہ ہوا کہ اسی سوشل میڈیا پر نفرت اور اختلافات کو ہوا دے کر لوگوں کو دور کرنے کا کام بھی کیا گیا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس ماحول میں آواز دی وائس نے خود کو محبتوں اور ہم آہنگی کا سفیر ،امین اور نقیب بنا کر پیش کیا ۔

 جس کا فلسفہ کبیر پنتھی ہے کہ نہ کَہو سے دوستی ، نہ کَہو سے بَیر ۔اس پر عمل کرتے ہوئے پریم کے ڈھائی اکشر کو نمایاں کیا جاتا ہے۔میری نظر میں آواز دی وائس کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے خود کو کسی ایک زبان تک محدود نہیں رکھا اور ملک کی لسانی تکثریت کے پیش نظر اردو ،ہندی ،انگلش کے ساتھ آسامی میں بھی باقاعدہ اپنی پہنچ بنائی ہے ۔

مجھے خوشی ہے کہ اردو کے حوالے سے آواز دی وائس نے جس طرح اپنے لیے ساز گار ماحول بنایا ہے اور دور تک اپنی ہنچ بنا ئی ہے ،ایسا سب کے حصہ میں نہیں آتا ہے۔میں آواز دی وائس کے تمام زبانوں کے مضامین پڑھتا ہوں اور ان کے پروگرام بھی دیکھتا ہوں ،مجھے ان کا مثبت انداز اور نظریہ بہت متاثر کرتا ہے۔ ان سب میں توازن اور اعتدال پایا جاتا ہے جو غیر معمولی ہے۔ مثال کے طور پر آواز دی وائس نہ تو حکومتوں کے وکیل دفاع کا کام کرتا ہے اور نہ ہی بلا وجہ حکومتوں کے خلاف کسی مہم کا حصہ بنتا ہے ۔

سچی بات کہنا اور سچ کو دوسروں تک پہنچانا ہی آواز کا مشن ہے۔ ایک سال کے دوران آواز دی وائس جتنے لوگوں تک پہنچا وہ خود اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگ گیا ہے کہ عام ہندوستانی ایک ایسے ماحول میں جہاں کچھ لوگ اپنی دکان نفرت کے بیوپاری اور زخموں کے تاجر کے طور پر جمانا چاہتے ہیں، سنجیدہ ،متین اور شائستہ مضامین اور خبریں پڑھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں ۔ میں ایک بار پھر آواز دی وائس کے ذمہ داران اور ساتھیوں کو مبارک باد دیتا ہوں اوردعا کرتا ہوں کہ ان کا یہ سفر اور مشن مزید کامیابی حاصل کرے۔ امین

مثبت سوچ بھی ایک خدمت ہے۔ مولانا مفتی مکرم

مولانا مفتی محمد مکرم احمد امام فتح پوری مسجد نے بھی آواز دی وائس کا ایک سال پورا ہونے پر مبارک باد پیش کی ۔انہوں نے کہا کہ اتحاد، باہمی محبت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قوم پرستی کے جذبے کے ساتھ صحافت کی مثال قائم کی ہے۔اچھی سوچ کے ساتھ صحافت قابل ستائش ہے۔ آج کے ماحول میں اگر کوئی مثبت بات کرے یا اپنے ملک و قوم کے بارے میں غیر جانبداری سے بات کرے تو یہ بہت اچھی علامت ہے۔

میری دعا ہے کہ آواز کی آواز اچھی طرح پروان چڑھے، اس کا دائرہ وسیع ہو اور لوگوں کا اس پر اعتماد مضبوط ہو، اس سے ملک کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی فائدہ ہو۔ہماری زندگی میں مثبت سوچ کی کمی ہے جس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے مثبت مواد پیش کریں ۔

اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تاریخ کو اجاگر کریں ۔ آج کے دور میں مثبت بات کرنا اور مثبت مہم کا حصہ بننا بھی ایک خدمت اور ثواب کا کام ہے۔آواز دی وائس کو میری جانب سے نیک خواہشات اور دعائیں ۔

آپ بنے ہندوستان کی آواز : مولانا محب اللہ ندوی

آوازدی وائس کے ایک سال پورے ہونے پر مبارک باد دیتے ہوئے دہلی پارلیمنٹ اسٹریٹ مسجد کے امام مولانا محب اللہ ندوی نے کہا کہ آواز نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور رواداری کی پاسداری اور نمائندگی کی ہے۔

مثبت سوچ کے ساتھ مثبت خبروں اور آرا کو پیش کیا ہے جو آج کے دور کی صحافت سے جدا ہے ۔آج جہاں میڈیا ٹی آر پی کی دوڑ میں ملک کے مفادات کو نظر انداز کررہا ہے۔ مگر آوازنے سب سے ہٹ کر ایک الگ صحافت کی ترجمانی کی ہے جس میں بات اتحاد کی ہے ،بات ہم آہنگی کی ہے۔ بات قوم پرستی کی ہے اور روایات اور رواداری کی ہے۔

۔’آواز‘ نے ہر مسئلہ پر اختلاف کو نہیں بلکہ اس کے حل کو پیش کیا ۔ علما اور دانشوروں کی آرا پیش کی اور قوم کو راہ دکھانے کی کوشش کی ۔میں آواز کی اس پہل اور کوشش کی سراہنا کرت ہوں اور تمام ذمہ داران اور اس سے جڑے حضرات کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔دعا کرتا ہوں کہ آپ کی آواز جہاں تک پہنچے ۔امین

مولانا ظہیر عباس رضوی (عالم ،ممبئی)

آواز دی وائس کا ایک سال مکمل ہوگیا ،اس موقع پر ممبئی کے ممتاز عالم دین اور دانشور مولانا ظہیرعباس رضوی نے بھی مبارک باد دی۔انہوں نے کہا کہ  بڑی خوشی کی بات ہے کہ آواز دی وائس نے اپنا ایک سال مکمل کرلیاہے۔ جس نے میڈیا کےتاریک دور میں بھی امید کی کرن کو روشن رکھا ہے۔یہ ایک انسانیت کی خدمت ہے۔ 

،آج کی زندگی میں میڈیا کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ یہی میڈیا معاشرے کو متحد کرتا ہے۔ حالانکہ آج کے دور میں میڈیا کا کردار بہت قابل اعتراض ہوگیا ہے۔صحافت کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے ۔لیکن اس کے باوجود ایسا نہیں کہ چاروں سمت تاریکی ہے ، مایوسی ہے اور غصہ بھی ہے۔

ایسے ماحول میں مثبت صحافت کو زندہ رکھنے والوں میں ایک نام ’’آوازدی وائس ‘ کا ہے ۔ جس نے اس ماحول میں اتحاد اور اتفاق کا پیغام دیا ہے۔ اس نے ایک سال کے سفر میں کوشش اس بات کی کہ انسانوں کو انسانوں کو جوڑا جائے ،جو دوریاں پیدا ہورہی ہیں اسے دور کیا جاسکے ۔ایک اچھا اور صا ف ستھرا سماج یا معاشرہ بنایا جائے۔اس کی تعمیر کی جائے۔ تکہ انسان انسان کے کام آئے۔

 مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آواز دی وائس اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ ہماری شناخت اور تشخص بھی برقرار رہے اور ہم ایک ساتھ رہنے کے عادی رہے۔ میں آواز دی وائس کو اس نیک مشن کے لیے مبارک باد دیتا ہوں اور اس ادارے کی ترقی کی دعا کرتا ہوں ۔