رشدی پر حملہ کو درست نہیں کہا جاسکتا:خالد رشید فرنگی محلی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
رشدی پر حملہ کو درست نہیں کہا جاسکتا:خالد رشید فرنگی محلی
رشدی پر حملہ کو درست نہیں کہا جاسکتا:خالد رشید فرنگی محلی

 

 

لکھنؤ: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کے سینئر ممبر مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے ہفتہ کو کہا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے اور متنازع مصنف سلمان رشدی پر حملے کو درست نہیں کہا جا سکتا۔ .

ممبئی میں پیدا ہونے والا متنازعہ مصنف،سلمان رشدی جس نے "شیطانی آیات" لکھنے کے بعد برسوں تک اسلام پسندوں کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کیا، جمعہ کو ایک 24 سالہ شخص نے اس وقت چاقو کا وار کر دیا جب وہ امریکہ کے مغربی نیویارک میں ایک تقریب میں شامل تھا۔

مولانا فرنگی محلی نے کہا کہ پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ امن کا پیغام دیا۔ اس لیے مسلمانوں کو ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنا چاہیے۔ واضح ہوکہ سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ ایرانی مذہبی پیشوا امام آیت اللہ خمینی نے دیا تھا جس کی حمایت دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے کی گئی تھی۔

آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے چیئرمین مولانا صائم مہدی نے کہا، ’’تین دہائیاں قبل شیعہ عالم اور رہنما آیت اللہ خمینی نے رشدی کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا۔ لہٰذا، شیعہ برادری کے کسی دوسرے فرد کے لیے اس پر رائے دینا نامناسب ہوگا۔‘‘

غور طلب ہے کہ رشدی کو جلسہ گاہ سے ملحقہ میدان سے شمال مغربی پنسلوانیا کے ایک ہسپتال لے جایا گیا جہاں 75 سالہ مصنف کی سرجری ہوئی۔ مصنف نے اپنے ناول "مڈ نائٹس چلڈرن" کے لیے بکر پرائز بھی جیتا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق رشدی خراب جگر کے ساتھ وینٹی لیٹر پر ہے اور اس کی ایک آنکھ ضائع ہو سکتی ہے۔

Awaz

سلمان رشدی کون ہیں؟

دراصل 75 سالہ سلمان رشدی 1981 میں اپنے دوسرے ناول ’مڈ نائٹ چلڈرن‘ کے ساتھ سپاٹ لائٹ میں آئے جس کے لیے ان کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی لیکن ان کی 1988 کی کتاب ’سیٹانک ورسز‘ نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ متعدد مترجم اور پبلشرز کے قتل کے بعد سلمان رشدی کو برطانیہ میں حکومت نے پولیس تحفظ فراہم کیا تھا۔

کیا تھا تنازعہ

چودہ فروری 1989 کے دن ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے برطانوی مصنف سلمان رشدی پر اسلام کی تذلیل کا الزام عائد کرتے ہوئے ناول ’دی سیٹینک ورسز’ لکھنے پر قتل کا فتوی جاری کیا تھا۔ فتوی میں خمینی نے ’دنیا کے مسلمانوں سے کہا کہ کتاب کے مصنف اور شائع کرنے والے کو فوری طور پر قتل کر دیا جائے۔ ایسا کرتے ہوئے بھی اگر کوئی ہلاک ہوتا ہے تو وہ شہید تصور ہوگا اور جنت جائے گا۔’ خمینی نے جن کی زندگی کے چار ماہ باقی تھے تقریبا تین کروڑ ڈالرز کا انعام بھی مقرر کیا تھا۔

روپوشی کا دور

برطانوی حکومت نے فورا لادین سلمان رشدی کو جو انڈیا میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے پولیس تحفظ فراہم کر دیا۔ انہیں جوزف اینٹن کے نقلی نام سے مختلف محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاتا رہا۔ پہلے چھ ماہ میں انہیں 56 مرتبہ مقامات تبدیل کرنے پڑے۔

ہندوستان میں لگی تھی پابندی

ہندوستان کے  اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اس کتاب پر اکتوبر 1988 میں  پابندی عائد کر دی تھی تاکہ انتخابات میں مسلمانوں نے حمایت جیت سکیں۔ تقریبا بیس دیگر ممالک میں جن میں پاکستان بھی شامل تھا اس پر پابندی عائد کی گئی۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں بریڈفرڈ میں مسلمانوں نے جنوری میں سڑکوں پر اسے نذر آتش کیا۔

روپوشی کا خاتمہ

سلمان بتدریج اپنی روپوش زندگی سے 1991 میں باہر آئے لیکن ان کے جاپانی مترجم اسی سال جولائی میں قتل کر دیئے گئے۔ چند روز بعد ان کے اطالوی مترجم پر چاقو سے وار کیا گیا اور دو سال بعد ناروے میں کتاب شائع کرنے والے پر گولی چلائی گئی۔ تاہم یہ کبھی واضح نہیں ہوسکا کہ ان حملوں کا خمینی کی دھمکی سے کوئی تعلق تھا یا نہیں۔

سر کا خطاب اور ناراضگی

ملکہ برطانیہ کی جانب سے 2007 میں ادب کے لیے خدمات کے صلے میں سر کا خطاب دینے پر غصہ آیا۔ ایران نے برطانیہ پر ’اسلام و فوبیا‘ بڑھانے کا الزام عائد کیا۔ اس وقت تک رشدی بغیر کسی خوف کے نیو یارک میں بس چکے تھے جہاں وہ نوئے کی دھائی کے اواخر میں منتقل ہوئے تھے۔ سائے میں طویل عرصے تک رہنے کے اب ان کا ملنا ملانا بڑھ گیا ہے اور مغرب میں کئی لوگ انہیں آذادی اظہار کے ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں۔